صوتی محاکات پر استوار ایک شعری تاثر/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مدھم مدھم
دھیرے دھیرے
صحرا میں سورج کی آڑی ترچھی کرنیں
نالاں ، شاکی
اپنے ترچھے سایوں کی پسپائی پر
اب سبک سبک کر
اُلٹے پاؤں چلتے چلتے
دور افق میں ڈوب گئی ہیں
ایک نئی ہلکی ’ ’ سُر لہری‘‘
نرم فضا میں تھر تھر کرتی
جنباں ، لرزاں ، افتاں ، خیزاں
خاموشی کی پرتوں میں نیچے سے اُوپر اُبھر رہی ہے
مہر بلب ۔۔ پھر سائیں سائیں سرگوشی سی
مِن مِن ، کِن کِن، گلو گیر
شیریں ، زہریلی
ناگ پھنی کا رس امرت
کانوں کو ٹپ ٹپ گھول پلاتی
لوری کی لَے میں اک ’’ٹھاٹ‘‘ سا
قطرہ قطرہ ۔۔صوت کا شربت
زہر سا میٹھا
شہد سا کڑوا
کان گپھا میں ٹپک گیا ہے
سُر کی گت ’اُپ ناس‘ میں الجھی
ناگ پھنی کے کیل کانٹوں سے لیس بدن پر
سرک سرک کر
ناگن کے آگے بڑھنے کے سُر سنگیت سی گونج گئی ہے
مرتے مرتے یہ آلاپ اب
انتم سانس میں
مجھ کو بھی
چُپ چاپ سمادھی کی حالت میں چھوڑ گیا ہے!
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اگر مجھے خود ستائی کا مجرم نہ گردانا جائے تو عرض کروں کہ میرے خیال میں صوتی محاکات پر کچھ نظمیں صرف اس ناچیز نے ہی لکھی ہیں، اردو میں ان کا اور کہیں پتہ نہیں ملتا۔ میں نے موزارتؔ کے sonatas اور ویگنرؔ Wagner کے Operas کی کچھ دُھنوں کو لے کر سات نظموں کی تخلیق کی ہے۔ ان میں سے صرف دو نظمیں مرحوم و مغفور منصورہ کے سہ ماہی ۔ جریدے “مونتاج” لاہور میں شائع ہوئی تھییں۔ باقی کی پانچ غیر مطبوعہ ہیں۔س

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply