ایل جی بی ٹی(LGBT)اور ہمارے مدرسے/یاسر پیرزادہ

اگر پاکستان میں ایک سروے کروایا جائے اور عوام سے پوچھا جائے کہ ہم جنس پرستی کا زیادہ رجحان مدرسوں میں پایا جاتا ہے یا گرامر اسکولوں میں تو آپ کے خیال میں کیا جواب آئے گا؟ ہمارے پاس چونکہ ایسے کسی سروے کے نتائج نہیں ہیں اِس لیے ہم اِس سوال کا جواب آپ کے تخیل پر چھوڑ دیتے ہیں ۔

یہ سوال پوچھنے کی نوبت اِس لیے آئی کہ مذہبی طبقات آج کل پھر سیخ پا ہو رہے ہیں اور اِس مرتبہ روئے سخن ٹرانس جینڈر قانون کی طرف ہے ۔یہ قانون ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا جس کا مقصد ٹرانس جینڈر طبقے کو استحصال سے بچانا اور معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جہاں وہ عزت اور وقارکے ساتھ زندگی گذار سکیں ۔ہمیں چونکہ پڑھنے لکھنے کی عادت نہیں اِس لیےقانون کے چیدہ چیدہ نکات یہاں بتانا ضروری ہیں ۔یہ قانون ٹرانس جینڈر افراد کو برابری کی سطح پروہ تمام بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے جس کی آئین ضمانت دی گئی ہے، جیسے کہ تعلیم ، صحت، ووٹ ، احتجاج ، وراثت اور عوامی عہدہ رکھنے کا حق ،اِس کے علاوہ قانون میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد کو جنسی طور پر ہراساں نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اُن کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا سکتا ہے ۔

مہذب معاشروں میں یہ تمام حقوق بلا تفریق سب شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں لیکن ہم چونکہ غیر مہذب معاشرہ ہیں جہاں خواجہ سراؤں کو محض اِس وجہ سے قتل کردیا جاتا ہے کہ وہ خواجہ سرا ہیں لہذا ہمیں یہ باتیں دو ٹوک انداز میں قانون بنا کر لکھنی پڑتی ہیں ۔ہم میں اور مہذب معاشروں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ وہاں کسی بھی معاملے میں اختلاف رائے کی صورت میں دلائل کے ذریعے بحث ہوتی ہے جبکہ ہم اِس تکلف میں نہیں پڑتے اورسیدھا فتوی ٰ جاری کرتے ہیں، انگریزی میں ملفوف انداز میں کہوں تو judgment pass کرتے ہیں ۔

ٹرانس جینڈر قانون کے معاملے میں بھی یہی ہورہا ہے ، اِس قانون کے خلاف سب سے زیادہ تنقید مذہبی طبقے کی جانب سے کی جا رہی ہے اور اِس تنقید کا محور ٹرانس جینڈر کی وہ تعریف ہے جو قانون میں بیان کی گئی اور جس کی رُو سے کوئی بھی شخص اپنے’ باطنی احساس ‘کی بنیاد پر اپنی جنس کا تعین کر سکے گا اور یوں معاشرے میں ہم جنس پرستی کی راہ ہموار ہوجائے گی ۔گویا ’مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو، کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا۔‘خلاصہ اِن کے دلائل کا یہ ہے کہ اگرجنس تبدیل کرنے کا اختیاریوں بانٹ دیا جائے گا تو کل کلاں کو ہم جنس پرستی کے دلداہ لوگ محض اپنے باطنی احساس کی بنیاد پر پر نادر ا جا کر اپنی شناخت تبدیل کروا لیں گے،یعنی پیدایشی طور پر مرد اپنی شناختی کارڈ میں عورت لکھوا سکے گا اور یوں وہ کسی مرد سے شادی رچا کر LGBTمافیا کے ایجنڈے کو پاکستان میں مسلط کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔چلیے دیکھتے ہیں کہ اِس دلیل میں کتنا وزن ہے؟

جو لوگ ٹرانس جینڈر قانون پر تنقید کر رہے ہیں انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ انہوں نے نہ قانون پڑھاہے اور نہ ہی اِس کے تحت بنائے گئے رولز پر نظر ڈالی ہے جو ۱۶ مارچ ۲۰۲۱ سے نافذ العمل ہیں، اِن رولز میں واضح لکھا ہےکہ اگر کوئی شخص اپنی جنس Mسے F یا F سے M کروانے کی درخواست نادرا میں جمع کروائے گا تو نادرا اُس کے شناختی کارڈ پر جنس کے خانے میں X لکھے گا، یعنی باطنی احساس کے تابع اگر کوئی شخص اپنی جنس کا تعین کروانا بھی چاہے گا تو اسے X کی شناخت دی جائے گی نہ کہ اُس کی ’جنس تبدیل ‘ کرکے مرد کو عورت اور عورت کو مرد بنا دیا جائے گا۔

یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ ایسے میں ہم جنس پرستی کی راہ کیسے ہموار ہوگی اور کیسے ہم نےیہ فرض کر لیا ہے کہ اِس قانون کے بعد لوگ دھڑا دھڑ اپنی جنس تبدیل کروانے اسپتالوں میں پہنچ جائیں گے اور اُس کے بعد آپس میں شادیاں رچائیں گے؟اگر وہ چاہیں بھی تو یہ ممکن نہیں کیونکہ پاکستان میں نکاح نامہ صرف M ور Fکو ہی ر جسٹر کرتا ہے Xکو نہیں ۔ویسے بھی ہم نے اپنے معاشرے میں ٹرانس جینڈر افراد یا ایسے کتنے لوگوں کو جو پیدایشی طور پر مرد یا عورت پیدا ہوتے ہیں مگر اُن میں مکمل طور پر مردانہ یا زنانہ خصوصیات نہیں ہوتیں،شادیاں کرتے یا اپنے لیے رشتے تلاش کرتے دیکھا ہے! اور رہی یہ بات کہ باطنی احساس کے تابع جنس کی تبدیلی کی خواہش کرنے والوں کو پہلے کسی میڈیکل بورڈ کے حوالے کیا جائے جو اُس کا معائنہ کرکے جنس کا تعین کرےبالکل ایسے ہے جیسے بظاہر مرد نظر آنے والے شخص کو کہا جائے کہ تم بھی کسی میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہو کیونکہ شادی کے بیس سال بعد بھی تم نے بچہ پیدا نہیں کیا لہذا ضروری ہے کہ تمہاری جنس چیک کی جائے!

سوال یہ ہے کہ آخر اِس قانون سے پہلے ملک میں کیا ہورہا تھا، ہم جنس پرستی کے سب سے زیادہ واقعات کہاں اور کس طبقے میں رپورٹ ہوتے تھے (ہیں)، وہ کون سی جگہ تھی جو امرد پرستی کےحوالے سے سب سے پہلے ہمارے ذہن میں آتی تھی؟ بد قسمتی سے وہ جگہ ہمارے مدرسے ہیں جہاں سے آئے دن ہم اِس قسم کی خبریں سنتے ہیں مگر اُن کی مذمت میں کوئی نہیں لکھتا کہ یہ فلاں ملک کا ایجنڈا ہے جو این جی اوز کے ذریعے اِن مدرسوں میں مسلط کیا جا رہا ہے !اب جبکہ ٹرانس جینڈر طبقے کو حقوق دینے کے لیے ملک میں قانون بناہے تو سب سے زیادہ شور وہی مچا رہے ہیں جو مدرسوں میں بچوں سے ہونے والی زیادتیوں پر منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں، اِس قانون میں انہیں LGBT کا ایجنڈا نظر آرہا ہے حالانکہ اپنے’ باطنی احساس‘ کےتابع انہیں اصل سوال یہ پوچھنا چاہیے کہ مدرسوں میں جوکچھ ہورہاہے کیا وہ عین اسلام ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک اور بات جو اِس پورے معاملے میں پیش نظر رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جنسی اظہار، جنسی شناخت ،جنسی رجحان اور خالصتاًجنس ، چاروں علیحدہ باتیں ہیں۔جنسی اظہار کا مطلب ہے کہ کوئی شخص اپنے لباس، چال ڈھال اور حرکات و سکنا ت سے کس جنسی رویے کا اظہار کرتا ہے ،جنسی شناخت ہے سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص باطنی احساس کے تابع خود کو M، Fیا X میں سے کیا سمجھتا ہے،جنسی رجحان ہے یہ ہے کہ کوئی شخص کس جنس کی جانب ملتفت ہوتا ہے اورجنس وہ نشان ہے جوکسی بھی شخص کو پیدایش کے وقت لڑکا ، لڑکی یا انٹر سیکس قراردے کر تفویض کیا جاتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ کوئی بھی سکہ بند مرد یا مکمل عورت ہم جنس پرستی یا کوئی بھی دوسرا جنسی رجحان رکھ سکتی ہے ، یہ ایک الگ بحث ہے کہ اِس کی کیا نفسیاتی وجوہات ہیں ، لیکن یہ فرض کر لینا کہ محض ٹرانس جینڈر افراد ہی یہ ایسا رجحان رکھ سکتے ہیں ، لا علمی کی ایسی معراج ہے جہاں میں خواہش کے باوجودبھی نہیں پہنچ سکتا۔اِس پوری بحث میں سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد ہمارے ملک کا سب سے پسا ہوا اور مظلوم طبقہ ہے اور ہم پنجے جھاڑ کر اسی طبقے کے پیچھے پڑ گئے ہیں،اِن افراد کو نہ اُن کے گھر والے قبول کرتے ہیں اور نہ ہی معاشرہ ، اورملک میں اِن کے لیے کوئی تربیتی مرکز بھی نہیں جہاں سے یہ کوئی ہنر سیکھ کر با عزت روزگار کما سکیں ، ایسے میں اگر کوئی قانون انہیں یہ حق دیتا ہے کہ وہ عزت سے اپنی زندگی جی سکیں تو ہمیں اِس قانون کی حمایت کرنی چاہیے نہ کہ لٹھ لے کر اِس کمیونٹی کی bullyingکرنی چاہیے ! دو سو سال لگے تھے ہمیں تصویر کو جائز قرار دینے میں ، امید ہے اگلے سو سال میں ہم ٹرانس جینڈر کا دکھ بھی سمجھ جائیں گے۔
 بشکریہ گردوپیش  

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply