گرۂ زیست۔۔۔۔۔صادقہ نصیر

گرۂ زیست

میں کہ اک وجود
کارگاہ شیشہ گری میں
کانچ کا ٹکڑا
کوزۂ محبت لا حاصل
جنم دن ہے آج جس کا
برسوں پہلے آج ہی کے دن کیلنڈر پر درج ہوا
میرا جنم
جب کاسۂ بے بسی بنا کر پھینکا گیا
سالگرہ ہےکہ
جنموں کی گرہیں کھلنے کا دن
حیراں ہوں کہ اس عشق لا حاصل کی
عمر بڑھتی ہے کہ زیست گھٹتی ہے
اور میں وقت کو ہاتھوں میں لے کر
گھوم رہی ہوں
چاک پر رکھے کوزۂ کانچ کی مانند
وقت رکتا ہی نہیں کہ چاک ہو جیسے
رواں دواں
وقت ہے کہ پھسل پھسل کر ہاتھوں سے گرتا ہے
اور آگے بڑھتا چلا جاتا ہے
ہتھیلیوں سے وقت گرتا ہے جیسے ریت ٹکتی نہ ہو
بند مٹھی میں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

رکتا ہے تو فقط زیست کا گھومتا کاسہ
زاد راہ سمیٹے
لمحوں کے موتی، کچھ شبنمی ریشمی سے قطرے یادوں کے
کچھ پھول ،ببول،دھول اور کانٹے
رنج بہت سے راحت ذرا سی بہلانے کو
ان بند مٹھیوں میں سمٹے زاد راہ میں
ہے عکس ماضی کی البم سے اک عکس جھانکتا
کہ بے ساختہ ٹوٹے آئنے کے سامنے آکھڑی ہوں
آئینے ٹوٹے پھوٹے ایسے کہ دوبارہ کتنے بھی جوڑیں
شکن زدہ چہرے کبھی ریشمی نہیں ہوتے
پور پور جھریاں ہوں جیسے
میں نے جانا کہ زیست کی ہر گرہ سالوں کی گرہ ہے
سال گرہ مانند گیسوۓ خمدار
کہ ہر کنڈل کو انگلیوں کی پوروں سے سلجھاتے انگلیاں مفلوج ہو کر برف بن جاتی ہوں
جیسے کنگھی کے دندانے سنورتی زلفوں کی گرہوں میں پھنس کر ٹوٹ ٹوٹ
جاتے ہوں جیسے
زیست کے گیسو ہیں کہ
رسی کی مضبوت گرہیں دانت درکار ہوں کھولنے کے واسطے
گرہیں کھل تو جاتی ہیں زیست کی
جیسے گیسوۓ خمدار آخر  پر
کھلتے کھلتے زیست کا اختتام اور انجام ہو جیسے
زلف سنور ہی جاتی ہے جیسے آخر کو
پھر بھی جانا کہ ایک امید مدہم کیلنڈر سے جھانکتی ہے
عکس ماضی کا اصرار کہ ابھی چند گرہیں باقی ہیں
اور ابھی کچھ وقت باقی ہے سورج کے ڈھلنے میں
زندگی وقت عصر کی ڈھلتی دھوپ میں کھڑی ہے
جیسے زلفیں سکھانے کوئی نازک لڑکی مضبوط خوابوں کے جھلملاتے تارے بالوں میں ٹکاۓ
پر پیچ راستوں پر ہچکولے کھاتی خوابوں کی تعبیر کے انتظار میں کھڑی ہو جیسے
ریشمی چہرے کو شکن شکن کرتی
زیست کی آخری گرہیں کھولتی
سال گرہ مناتی
کوئی بچی ہو جیسے کھلونے سمیٹتی
آخری گرہ سے بے خبر
کوئی سرگوشی سے خوف زدہ
سنو
گرہ زیست مشکل است
صادقہ نصیر

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی سالگرہ پر کہی ایک نظم
اکتوبر ۲۰۲۲
صادقہ نصیر آٹوا کینیڈا

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply