دیدۂ عصر میں بہتے ہوئے مزدور کے خواب
جملہ مقدور گناہوں کی سزا چاہتے ہیں
موجہء بحرِ توکل کی جفا چاہتے ہیں
خواب ہیں تختِ گماں کا سروسامان شکوہ
شوکتِ جاہ و حشم سے آگے ہیں تو کیا
طرہء نازشِ جم سے آگے ہیں تو کیا
خواب تجسیم کے پیرائے سے باہر تو نہیں
آرزو پیرہنی سائے سے باہر تو نہیں
لیکن اس رختِ زبوں ساختہ منظر کے حضور
موت کے لمحے ندامت سے ٹھہر جاتے ہیں
رخ حالات کی تقدیر نہاں بولتی ہے
حادثہ لاشہء تدبیر پہ ہے نوحہ کناں
وہم کے پار تیقن کی زباں بولتی ہے
دیدۂ عصر میں بہتے ھوئے مزدور کے خواب
کسی نوخیز حسینہ کا تبسّم تو نہیں
قلقل ساغر و مینا کا ترنم تو نہیں
ہاں مگر دستِ تماشا میں انا کی میت
محملِ ناز میں مقتول حیا کی میت
مفلسی جرمِ تمنّا کی سزا دیتی ہے
یہی ہے روزِ ازل سے دل محزوں کا نشاط
یہی ہے جبر مسلسل کی کشادہ زنجیر
یہی ہے نامہءاعمال بشر کا دستور
مفلسی جرمِ تمنّا کی سزا دیتی ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں