صابرہ شاہین کی تحاریر

پنچھی کبھی اُس پیڑ پہ اُترا نہیں کرتے/صابرہ شاہین

صحرا کے مسافر کبھی، لوٹا نہیں کرتے مر جاتے ہیں پر تشنگی ، بیچا نہیں کرتے ٹھن جائے کڑی دھوپ سے تو، آبلہ پا لوگ یوں سایہء دیوار میں، بیٹھا نہیں کرتے موجوں میں گِھرا ہو جو سفینہ تو سفر←  مزید پڑھیے

مر گئے سارے شجر/ڈاکٹر صابرہ شاہین

آکسیجن کی کمی سے مر گئے سارے شجر گر اُدھر تھیں ٹہنیاں تو سب پتاور تھے ادھر آبشاروں کی چھنک میں درد تھا شوخی نہ تھی اور دریا زرد تھے، کہتے نہیں تھے کچھ مگر کالے رسوں سے بنا تھا←  مزید پڑھیے

تم دیکھنا /صابرہ شاہین

زندگی کا ہر دیا , دے گی بجھا , تم دیکھنا ایک دن زہراب , بستی کی ہوا , تم دیکھنا پہلے شک کی بوند ٹپکے گی,وفا کی جھیل میں پھر غرورِ  دوستی ہو گا فنا ,ثم دیکھنا دھوپ کے←  مزید پڑھیے

چاند کے سنگ اِک تارا/ڈاکٹر صابرہ شاہین

چاند کے سنگ اک، تارا ہردم دیکھا ہے چپکے، چپکے رین کتھا، جو کہتا ہے منزل ،منزل دیکھ، کٹھن ہے جیون کی ہر اک گام پہ ، کالا اژدر ، بیٹھا ہے رشتوں کے پھولوں پہ، لوبھ کا بھنورا ہے←  مزید پڑھیے

تو ۔۔کیا سمجھیں؟/ڈاکٹر صابرہ شاہین

پربت کی مخمور پون محسوس کرے ماٹی کا بدن تو کچے سے کچنار کنول کے ، پات پہ اترے چاند کی ،البیلی سی کرن تب من کا پپیہا ، بول اُٹھے الہڑ سا کوئی بے داغ سخن تب مست چناروں←  مزید پڑھیے

دیکھ سہیلی۔۔ڈاکٹر صابرہ شاہین

چند سطریں ، کچھ جملے ،چند اک لفظ ہیں جو کہ بھنور بنے ہیں نظر دریچوں درزوں سے چھن چھن کر آتی جذبوں کی اک، تیز شعاع میں اندھی خواہش کے ذرّوں کو رینگتا اور مسلسل، اُڑتا ہردم شور مچاتا←  مزید پڑھیے

صبر کیا ہے۔۔ڈاکٹر صابرہ شاہین

ہائے۔۔۔سارے رتن چھین کر لے گئی موت کی کپکپی چار جانب، سراسیمگی اک۔۔۔وہی سر پٹختی رہی بال کھولے ہوئے لعل رولے ہوئے گھر کی دیوار و در سے چپک ہی گئی وحشت-دو جہاں رنگ کوئی بھی اب گھر میں باقی←  مزید پڑھیے

اب کی بار اک غزل۔۔صابرہ شاہین

مکرو فریب کی ،کشتی لے کر مانجھی ، چھیل چھبیلا، چل منزل ۔ دھن کا پیلا پربت ، رستہ روکے ، نیلا جل سائے میں جوبن کے راہی کاٹ کے اک دوپہر، گیا مُرلی تیرے پیار کی پگلی ، آج←  مزید پڑھیے