پنچھی کبھی اُس پیڑ پہ اُترا نہیں کرتے/صابرہ شاہین

صحرا کے مسافر کبھی، لوٹا نہیں کرتے
مر جاتے ہیں پر تشنگی ، بیچا نہیں کرتے

ٹھن جائے کڑی دھوپ سے تو، آبلہ پا لوگ
یوں سایہء دیوار میں، بیٹھا نہیں کرتے

موجوں میں گِھرا ہو جو سفینہ تو سفر میں
بیساختہ لڑ جاتے ہیں ، سوچا نہیں کرتے

جس شہر کے ماتھے پہ جفا پیشہ لکھا ہو
اس شہر میں یوں ، رات کو رویا نہیں کرتے

جس پیڑ کی شاخوں پہ ہو ، سانپوں کا بسیرا
پنچھی کبھی اس پیڑ پہ اُترا نہیں کرتے

آنکھوں کی سیہ جھیل میں، خوابوں کے سفینے
یوں ہی تو کبھی ، ٹوٹ کے بکھرا نہیں کرتے

لمحوں میں فنا ہوتی ہے ،صدیوں کی ریاضت
بے شکل کی آواز پہ ، چونکا نہیں کرتے

آتی ہیں سماعت کے، تعاقب میں صدائیں
یوں دیر تلک ، رات کو بھٹکا نہیں کرتے

Advertisements
julia rana solicitors london

شاہین سر ِشام ، رہِ دشتِ بلا سے
چپ چاپ گزر جاتے ہیں ، بولا نہیں کرتے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply