افسانہ    ( صفحہ نمبر 7 )

ایک اخبار والا/مطیع اللہ

کیلنڈر کا آخری ڈبہ جس پر بڑے بڑے الفاظ میں 31 دسمبر لکھا نظر آرہا تھا اب یہ کیلنڈر ایک خزاں رسیدہ  درخت کی مانند تھا ۔اس کی شاخوں کا ہر پتہ  گر کر زمیں بوس ہورہا تھا اور جیسا←  مزید پڑھیے

ایلدار اوغلو/امجد فاروق

ابھی اس اجنبی سر زمین پر آئے چند دن ہی ہوئے تھے۔ بڑی مشکل سے بھاگ دوڑ کر کے سر چھپانے کی جگہ میسر آئی اور ڈھنگ سے سانس لینے کا موقع بھی نہیں ملا تھا کہ کلاسیں شروع ہو←  مزید پڑھیے

یا خدا/محمد سعید اختر

حکومت بدلی تو اسے بھی کئی دوسرے ملازمین کی طرح نوکری سے نکال دیا گیا۔ دو چار مہینے تو سرکاری دفاتر میں دھکے اور احتجاج میں ہی گزر گئے، ہوش تب اُڑے جب محلے کے دکاندار، اور بچوں کے سکول←  مزید پڑھیے

بوڑھا فنکار /خنساء سعید

وہ پاؤں گھسیٹتا ہوا ہسپتال کے اندر داخل ہوا تو پرچی لینے والوں کی لمبی لائن دیکھ کر گھبرا گیا ،اُس کی کانپتی ہوئی نحیف و ناتواں ٹانگیں مزید کانپنے لگیں ۔مگر وہ ہمت کر کے لائن میں لگ گیا←  مزید پڑھیے

جہاں جنوں/عارف خٹک

میرا بڑا تایا زاد منشیات فروش تھا سو پیسوں کی ریل پیل تھی۔ اچھے وقتوں میں اس کے کسی جاننے والے نے اس سے دو ہزار روپے ادھار لیا تھا کہ کبھی اچھا وقت آیا تو لوٹا دونگا۔ نشئیوں پر←  مزید پڑھیے

کُتے کا کھانا/ڈاکٹر نویدخالد تارڑ

ویران سی اس کٹیا میں رات کے پچھلے پہر پھیلے ہوئے اس سناٹے کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی ماں کی کھانسی کی آواز توڑ دیتی تھی اور وه خاموشی سے کٹیا کی ٹوٹی ہوئی چھت سے باہر پھیلے←  مزید پڑھیے

بوسنیا کی یہودی عبادت گاہ/ڈاکٹر حفیظ الحسن

“یہ لو ٹوپی۔ یہودیوں کی عبادت گاہ یعنی سیناگاگ میں جانے سے پہلے سر ڈھانپنا ضروری ہے۔” یہ کہہ کر اُس نے مجھے ٹوپی پکڑائی۔ “نکالو 5 بوسنین مارک؟” پانچ؟ “ہاں اس ٹوپی کی قیمت پانچ مارک ہے اور سیناگاگ←  مزید پڑھیے

گرنتھ پور کی سرپریت/خاور جمال(مقابلہ افسانہ نگاری)

دور تک پھیلے کماد پر کہرا بادلوں کی مانند ٹھہرا ہوا تھا۔ فروری کا سورج نکلنے کی سوچ رہا تھا اور درختوں پر پرندوں کی حاضری بھی کم تھی۔ بسنت کی آمد آمد تھی اور سرسوں کے کھیتوں کی بھرمار←  مزید پڑھیے

اتنی مداراتوں کے بعد(2،آخری قسط)-شاہین کمال

میں ابا کو محسوس کرتا ہوں گو کہ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا۔ ہاں فوج کی طرف سے آیا وہ خط جس میں ابا کی شہادت کی اطلاع تھی اسے اماں نے ہمیشہ تعویذ جاں رکھا اور وہ اب←  مزید پڑھیے

اتنی مداراتوں کے بعد/شاہین کمال

بچپن سے سنتے آئے ہیں سفر وسیلہ ظفر لیکن کچھ سفر ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں دل گھائل ہوتا ہے اور تل تل ڈوبتا ہے۔ منزل جیسے جیسے قریب آتی جاتی روح بدن کا ساتھ چھوڑتی محسوس ہوتی ہے۔←  مزید پڑھیے

 ٹپڑی واس/خنساء سعید (مقابلہ افسانہ نگاری)

شمیم تم یہ غبارے بھرو، میں ذرا رفیق کے سٹور سے اور غبارے لاتا ہوں ۔” مجھے لگ رہا جیسے آج غبارے کم ہیں۔“ یہ کہہ کر محمود غبارے لینے چلا گیا، سٹور سڑک کے دوسرے پار تھا، اُس نے←  مزید پڑھیے

درد بے لگام ہو گئے۔/سیّد محمد زاہد

بہادر خاتون کو کُھل کر ہنستے دیکھا۔ پوچھا، ’’سنا ہے کہ ہر ہنسی کے پیچھے کچھ غم چھپا ہوتا ہے۔ آپ نے کبھی وہ راز نہیں کھولا۔‘‘ طنز یا کنایہ بازی تو حد ِادب سے آگے ہے، ہاں رمز و←  مزید پڑھیے

دو کہانیاں /قیوم خالد

(1)ٹوپی، کُرتا اور پاجامہ ”آم لے لو آم،میٹھے آم، ملغوبہ آم۔” یہ آوازسُنکرمنوج کُمار غُصّہ سے کھول گیا۔ کل رات ہی وہ نریش ورما کی تقریر سن  کر آیا تھا کہ ”یہ ایسے نہیں سُدھریں  گے، مسلمانوں کا ہر طریقہ←  مزید پڑھیے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے/نیک محمد صافی

شام ہوچکی تھی, میں تیز تیز قدم اٹھاتا گھرکی جانب گامزن تھا۔حسبِ توقع میں دل میں سنہرے مستقبل کے خواب لئے خوش وخراماں زیرِ لب گنگنا رہا تھا۔ بیگم کے ہاتھ کی چائے اور گھر آئے نئے مہمان کے ساتھ←  مزید پڑھیے

رئیسہ بیگم/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ(مقابلہ افسانہ نگاری)

اس دن جب دروازہ دھڑدھڑایا گیا تھا تو ایک لمحے کو ہم سب ٹھٹک گئے تھے کیونکہ اس طرح دروازہ پیٹنا معمول کی بات نہیں تھی۔ ابو نے دروازہ کھولا تو ہم سب دروازے پہ ہی نظریں جمائے صحن میں←  مزید پڑھیے

کہانی/ حامد یزدانی

’’ کہانی سُنائیے نا، پاپا ! مجھے نیند نہیں آرہی‘‘۔ ’’نہیں آج نہیں بیٹا، بہت تھکن ہو گئی آج تو ۔۔‘‘ ’’ کِسے؟ کہانی کو ؟‘‘ ’’ ارے نہیں، مجھے۔۔۔دن بھر کی مصروفیات نے تھکا کر رکھ دیا ہے۔ کل سُن لینا کہانی۔۔۔ضرور←  مزید پڑھیے

خواب/عارف خٹک

اس کو ہسپتال میں داخل ہوئے آج تیسرا دن تھا اور میں ہر روز دفتر سے چھٹی کے بعد ملیر ہالٹ اس کی عیادت کرنے ہسپتال جاتا تھا۔ اس کے بوڑھے ماں باپ اپنی بیٹی کے سرہانے بیٹھے ملتے اور←  مزید پڑھیے

موت کی موت اور قیامت کا غم/احمد نعیم

کُن فیاکُن کے بعد سے میں بڑا پریشان تھا – جتنوں کو زندگی دی گئی تھی سارے مردار تھے ، سب کی آنکھیں بند تھیں، کان بند ،منہ بھی بند۔۔۔ ہاں مگر بڑے بڑے نتھنوں والی ناک زندہ تھیں، جو←  مزید پڑھیے

جوا/عارف خٹک

میں شیشے کے سامنے کھڑا حسرت سے اس شخص کو تک رہا تھا جو آئینے میں نظر آرہا تھا…اس کی آنکھوں میں بے خوابی کے ہلکے سرخ ڈورے تھے اور چہرے پر درماندگی کے نقوش…میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ در آئی…ایک←  مزید پڑھیے

یاداشت۔۔شاہین کمال

کم عمری کا اپنا ہی ہڑونگا پن ہے۔ اس وقت ماں باپ کی قربانیوں اور ان کی جد وجہد کا شعور نہیں ہوتا۔ اولاد بجائے احسان مند ہونے کے ان آسائشوں کو ان کی محبت نہیں بلکہ اپنا حق گردانتی←  مزید پڑھیے