موت کی موت اور قیامت کا غم/احمد نعیم

کُن فیاکُن کے بعد سے میں بڑا پریشان تھا – جتنوں کو زندگی دی گئی تھی سارے مردار تھے ، سب کی آنکھیں بند تھیں، کان بند ،منہ بھی بند۔۔۔
ہاں مگر بڑے بڑے نتھنوں والی ناک زندہ تھیں، جو نیک اور بد کی بُو سونگھ لیتی۔
نہ  اِن کے یخ بستہ پَیر روشنی کی طرف بڑھتے تھے، دماغ میں تو بالکل بھوسہ بھرا ہوا تھا جن پر کسی مولوی نے قے  کر دی تھی ، زلفیں ایسی کہ کوئی شناخت بھی نہ  کرسکے کہ _____
یہ مرد ہیں، خاتون ہیں،یا ہجڑے۔۔!

دل کا معاملہ معلوم نہیں مگر اِن کے دلوں سے پتھر کی اینٹیں نکلتی تھیں ، اِن کے قد بھی چھوٹے تھے،
مگر میں ایسا نہیں تھا،
میں زندہ تھا ! میرے ہر عضو زندہ تھے،
میرے خیالات روشن،
میرا دل کائنات سے بھی بڑا میں اِن لوگوں میں خود کو اجنبی پاتا۔
اکیلا پن لے کر جیتے جی میں بہت اداس ہو جاتا ۔
مگر میری شخصیت سے کئی چاند، ستارے، سورج، زمین اور بہت کچھ جیسے کن فیاکن کہنے والے نے ترتیب دیا تھا۔۔
میری پریشانی بڑھ رہی تھی
میں راہِ فرار اختیار کرنا چاہتا تھا ۔

میں سانڈ تھا ،بیٹھا ہُوا ،جس کے اردگرد گھومنے والے چوہے میری پرستس کرتے تھے  اور وہ یہ سوچتے تھے کیوں نا گرو دکشنا میں اِس سانڈ کو مار دیا جائے
چوہے نا کام رہے۔۔۔ ایک اجنبی شخص آیا اور مجھ سے چلنے کے لیے کہنے لگا
مجھے مار دیا گیا ۔ جنھوں نے مجھے مارا تھا وہ مجھے لے کر چلنے لگے
اب میں کہیں اور ۔۔۔۔!!

سارے مردہ بدن چھوٹی سی جگہ میں لیٹے ہوئے تھے مگر اِن مرداروں کی آنکھیں تھیں ، کان سنتے تھے، آنکھ دیکھتی تھیں، میں اجنبی تھا، اُن کے بیچ مگر اب میں جہاں ہوں۔۔۔۔وہاں “مَیں” احساسِ برتری لیے جی رہا ہوں ہوں ۔ خیر سے سب مردے زندہ ہیں ، مجھے کیا معلوم کہ مجھ پر زندگی عذاب ہوگی ورنہ “میں ” بہت پہلے ہی مر جاتا

Advertisements
julia rana solicitors

تھینکس گاڈ ۔۔۔۔”مجھے مارنے کے لیے ۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply