ورلڈ پاپولیشن رپورٹ/منصور ندیم

اگلے دو دن بعد یعنی 15نومبر کو دنیا کی آبادی Global human population تقریباً  8 ارب تک پہنچ جائے گی، لیکن سوال ہے کہ کیا اتنے لوگ آج موجود دنیا و کرّہ ارض پر موجود وسائل تک رسائی کے ساتھ ایک صحتمند زندگی گزارنے کے لائق ہوں گے؟

یہ ایسا سوال ہے کہ جو دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی Global human population کے لئے منصوبہ بندی کرنے والے بین الاقوامی اداروں اور منصوبہ سازوں کے لئے پریشان کُن ہے۔

اقوام متحدہ United Nation کا ادارہ World Population کے سربراہ Natalia Kanem اس لمحے کو 8 ارب  آبادی کو ایک سنگ میل تو سمجھتے ہیں، مگر ان کے لئے پریشانی کا امر یہ ہے کہ یہ لمحہ اتنی آبادی کے لئے باعث تشویش بھی ہے۔ جبکہ منصوبہ سازوں کے مقابل سائنٹسٹ کا یہ خیال   ہے کہ آبادی کے بڑھنے کا معاملہ اتنا تشویشناک نہیں جتنا زیادہ بڑا مسئلہ امیر طبقے کا ضرورت سے زیادہ وسائل کا استعمال ہے۔

ایک امریکی یونیورسٹی The Rockefeller University کے Population Laboratory کے Biologist بائیولجسٹ Joel Cohen اسے دو نکات سے طے کرتے ہیں کہ
کرہ ارض کی قدرتی حدود اور انسانوں کی خواہشات، جن کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ زمین پر وسائل انسانوں کی کتنی بڑی تعداد کے لیے کافی ہیں۔ انسانوں کی خواہشات جنگلات اور زمین جیسے حیاتیاتی وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال کا سبب بنتی ہیں جو دوبارہ اتنی تیزی سے پیدا بھی نہیں ہو سکتے۔ جیسے حیاتیاتی ایندھن کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بھی زیادہ ہو رہا ہے جو درجہ حرارت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے، اور ہم بے وقوف ہیں۔ ہم میں دور اندیشی کی کمی ہے۔ ہم لالچی ہیں۔ ہم ان معلومات کا استعمال ہی نہیں کرتے جو ہمارے پاس موجود ہیں۔ اگرچہ زمین پر موجود وسائل 8 ارب کی آبادی کو خوراک فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن اس کے باوجود 8 کروڑ لوگ ایسے ہیں جو خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ کیونکہ مسئلہ انسانی وسائل کی تقسیم اور مساوات کا ہے۔

ایک اور امریکی محقق Jennifer Sciubba جو گلوبل وارمنگ پر کام کرتی ہیں کے مطابق انسانوں کے زمین پر اثرات کی وجہ ان کی تعداد نہیں بلکہ ان کا رویہ ہے۔ اس کی وجہ میں اور آپ ہی ہیں۔ جو ایئر کنڈیشن میں انجوائے کرتی ہوں، جو سوئمنگ پول میرے گھر میں ہے اور ہر رات جو گوشت میں کھاتی ہو، یہ تمام عناصر زمین کو بہت زیادہ نقصان پہنچانے کی وجہ بنتے ہیں۔ جبکہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ تعلیم اور خاندانی منصوبہ بندی یعنی آبادی پر قابو پانا گلوبل وارمنگ کے مسائل کے حل میں سے ایک ہیں۔ یعنی پائیدار وسائل اور کم آبادی کے ذریعے ہی توانائی، نقل و حمل، خوراک اور دیگر وسائل کی طلب میں کمی ممکن ہو سکتی ہے۔

عالمی شرح پیدائش سنہء 1990 میں فی عورت 3.2 پیدائش سے کم ہو کر سنہء 2019 میں 2.5 بچے رہ گئی اور سنہء 2050 تک یہ مزید کم ہو کر 2.2 تک پہنچنے کا امکان ہے۔ جو پچھلے دنوں کے مقابل کم شرح ہے، مفر پھر بھی سنہء 2050 تک دنیا کی آبادی 9.7 ارب ہو جائے گی، اور اس صدی کے آخر تک دنیا کی آبادی 11 ارب متوقع ہے، سنہء 2050 تک عالمی آبادی میں متوقع اضافے کا نصف سے زیادہ حصّہ آٹھ ممالک ڈالیں گے جن میں کانگو، مصر، ایتھوپیا، بھارت، نائیجیریا، پاکستان، فلپائن اور متحدہ جمہوریہ تنزانیہ شامل ہیں۔

پاکستان آج بھی ان غریب و ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے، جہاں مجموعی آبادی کے اعتبار سے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم موجود ہے، جہاں منصوبہ بندی تعلیم اور انسانی سہولیات کا شدید فقدان ہونے کے باوجود ہم آنے والے وقتوں میں دنیا میں تیزی سے اضافہ کرنے والے تیسرے ملک کی حیثیت سے داخل ہونگے، یہ لمحہ فکریہ ہے یا نہیں ، کم ازکم ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی حکومتی لائحہ عمل موجود نہیں ہے پھر چاہے آج ہم 8 ارب کی آبادی میں 23 کروڑ یا یا کل اربوں میں بھی پہنچ جائیں۔ ہمیں وسائل اور ابادی کی ضرورت کا بہرحال کوئی احساس ہرگز نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : اقوام متحدہ کی World Population reports 2022 کی مدد سے لکھا گیا مضمون ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply