گرنتھ پور کی سرپریت/خاور جمال(مقابلہ افسانہ نگاری)

دور تک پھیلے کماد پر کہرا بادلوں کی مانند ٹھہرا ہوا تھا۔ فروری کا سورج نکلنے کی سوچ رہا تھا اور درختوں پر پرندوں کی حاضری بھی کم تھی۔ بسنت کی آمد آمد تھی اور سرسوں کے کھیتوں کی بھرمار سے گرنتھ پور کو پیلیا ہو گیا تھا۔ انھیں میں سے ایک کھیت میں بھاگتے بھاگتے دلبیر تھک چکا تھا مگر جان کسے پیاری نہیں ہوتی۔ اسے جیون سنگھ کے کتوں کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں۔ وہ لمحہ بہ لمحہ اسے اپنے قریب آتے محسوس ہو رہے تھے۔ جیون سنگھ نے اسے اپنے کھیت کی طرف کھالا موڑتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ دلبیر کی قسمت خراب تھی اور جیون کا پیٹ ورنہ اتنے سویرے جیون کا کھیتوں میں کیا کام۔

اس سے پہلے کہ جیون سنگھ کے کتے دلبیر کو آ لیتے، توڑے دار بندوق کی گولی کہرے کو چیرتی ہوئی نکلی اور دلبیر کے سینے کے آر پار ہو گئی۔ کتے اس کی اوندھے منہ گری لاش پر پہنچ کر بھونکنے لگے۔ فتح سنگھ کے لعل کا سینے سے ابلتا خون پیلی سرسوں کو لال کیے جا رہا تھا۔

فتح سنگھ کے دو ہی بچے تھے۔ دلبیر سنگھ اور سر پریت کور جس کو سب ستی بلاتے تھے۔ طاعون پھیلنے سے کچھ عرصہ پہلے جب ہر گھر سے ارتھیاں اٹھی تھیں تو ان میں سے ایک اس کی بیوی کی بھی تھی۔ سر پریت جوان تھی چناں چہ گھر اس نے مکمل طور پر سنبھال لیا تھا مگر دلبیر اس وقت چھوٹا تھا اس لیے کھیتی باڑی میں بھی سرپریت کو باپ کے ساتھ لگنا پڑا۔ تین چار سو نفوس پر مشتمل اس گاؤں میں کرپانوں کی عملداری تھی اور اقلیتوں کو زندہ رہنے کے لیے کافی محنت کرنا پڑتی تھی۔ فتح سنگھ کا کھیت جگ دیپ سنگھ کی زمین کے ساتھ لگتا تھا جو اس کے باپ دادا کو انگریز سرکار نے اچھے زمانے میں عطا کی تھی۔ بس اسی بات کا خمیازہ آج اسے بیٹے کی موت کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

کہرام مچ جانا چاہیے تھا کہ جوان موت تھی، قتل ہوا تھا لیکن نہیں، کیسے مچتا۔ ماں تو تھی نہیں۔ بوڑھے باپ کو خبر ملی تو اس پر سکتہ طاری ہو گیا۔ ہر پریت نے ہی بھاگ دوڑ کی اور دو ایک رشتہ داروں کے ساتھ مل کر دلبیر کا کریا کرم کیا۔ کوئی بھی اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتا تھا۔ سب کو اپنی جان پیاری تھی۔ ویسے بھی ملک میں بٹوار ے کی خبر گرم تھی۔ جگ دیپ سنگھ انگریز سرکار کی خدمت میں مصروف رہتا تھا لہٰذا اس کو اپنے علاقے سے زیادہ سروکار نہیں تھا۔ یہ اس کے چار بیٹے سنبھال لیتے تھے جن میں جیون سب سے چھوٹا تھا۔

صلح صفائی کے لیے نام نہاد پنچایت بھی سجائی گئی۔ پنج، گاؤں کے بزرگ اور جگ دیپ کے چاروں بیٹوں نے اپنی اپنی کرسیاں سنبھال لیں۔ فتح سنگھ بھی ایک طرف زمین پر اکڑوں بیٹھا مٹی کرید رہا تھا۔ سارے گرنتھی پنچ دل سے تو فتح سنگھ کے ساتھ تھے لیکن ان کی گردنیں جگ دیپ کے ہاتھوں میں تھیں۔ ختم ہونے کو ہی تھی پنچایت تو جیون سنگھ نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ پنجوں کے سامنے کفارے کے طور پر فتح سنگھ کی بیٹی ستی کا ہاتھ تھامنے کی صلاح رکھ دی۔ فتح سنگھ کا ہاتھ مٹی کریدتے ہوئے رک گیا۔ اس نے گردن اٹھا کر ایک نظر جیون سنگھ کو دیکھا۔ کوئی نہ سمجھ پایا کہ اس کی جلتی آنکھوں میں غم کا دھواں بھرا ہے یا انتقام کا لاوا۔ اس نے ستی کے رشتے کے لیے ہاں کہہ دی۔

ماں کے بعد گھر کے علاوہ سرپریت کو باپ کے ساتھ زمین بھی سنبھالنا پڑی۔ خواب کیا سجانے تھے اس کے پاس تو خواب دیکھنے کو بھی وقت نہ تھا۔ سکھیوں سہیلیوں سے دور اس کا لڑکپن تو کھیتوں میں بوائی اور کٹائی کرتے ہی گزر گیا۔محنت طلب کام کی زیادتی کے باعث وہ جلد ہی ایک بچی سے جوان اور تنومند جٹی کا روپ دھار چکی تھی۔ نکلتے ہوئے قد کے ساتھ ساتھ اس کے جسم کی اٹھان بڑے بڑے پارساؤں کے زہد کا امتحان تھی۔ چلچلاتی دھوپ میں کندن ہوتی سرپریت کو جیون سنگھ اکثر دیکھا کرتا تھا۔ دنگے فساد پھیلانے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا مگر حیرت کی بات تھی کہ پرائی عورت کے بارے میں غیرت مند تھا۔

گاؤں والوں کو جیون سنگھ کے ستی کا ہاتھ مانگنے سے زیادہ اتنے آرام سے فتح سنگھ کے مان جانے پر حیرت تھی۔ پھر انھوں نے سوچا کہ اچھا ہی ہوا۔ انکار کر کے کہاں جاتا۔ کم از کم اس طرح بیٹی کے بوجھ سے تو آزاد ہو جائے گا۔ ستی بوکھلائی پھر رہی تھی کہ یہ باپو نے کیسا فیصلہ کیا ہے۔ پرایا دھن ہوں تو ڈھنگ سے وداع تو کرتا۔ یہ تو لات مار کر گھر سے نکالنے والی بات ہوئی۔ لیکن وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ واہے گرو کی مرضی مان کر بیاہ کے لیے تیار ہو گئی۔ اس کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ رخصت ہوتے سمے باپ نے اس کے کان میں سرگوشی کی اور ایک وعدہ لینا چاہا۔ ستی کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور اس کے بعد اس پر اطمینان پھیل گیا۔

قدرت کا نظام تھا کہ جگ دیپ سنگھ کے پہلے تین بیٹوں سے کوئی نر اولاد نہ تھی۔ وارث کے حصول کے لیے ان کی بیویاں اولاد کے نام پر صرف بیٹیاں جننے لائق تھیں۔ سرپریت نے جیون سنگھ کی حویلی آ کر دیکھا کہ اندر کا تو ماحول ہی کچھ اور ہے۔ بھائیوں کی آپس میں نہیں بنتی اور ان کی بیویوں کی اپنی راج دھانیاں ہیں۔ باہر جو ایکا دکھایا جاتا ہے چاروں بھائیوں میں وہ دھوکا ہے۔ اس نے نوکرانیوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا کیوں کہ وہ اپنی اوقات نہیں بھولی تھی مگر جیون سنگھ نے اسے ان سب سے الگ کر دیا۔

سرپریت نے جیون کی ماں کی خدمت کرنا شروع کر دی۔ اور تو کوئی بہو اس کو پوچھتی نہیں تھی۔ تو ماں واری صدقے ہونا شروع ہو گئی اور اس پر بھروسہ کرنے لگی۔ کچھ مہینے گزرے اور سرپریت کو حمل ٹھہر گیا۔ ایک دن دائی نے بتایا کہ پیٹ کا ابھار اوپر کی طرف ہے، مجھے تو پکا یقین ہے کہ لڑکا ہی ہو گا۔ جیون سنگھ کے تو جیون میں بہار آ گئی۔ اس نے سرپریت کا زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا۔

باپ سے کیا وعدہ پورا کرنے کا وقت قریب آ رہا تھا۔ ایک رات جیون کے گھر آنے کا وقت ہوا تو سرپریت پہلے سے ہی بڑے جیٹھ کے کمرے کے باہر موجود تھی۔ جیون احاطے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا اس کی حاملہ بیوی بکھرے بال، بے ترتیب شکن آلود کپڑوں اور ڈھلکے آنچل کے ساتھ آنکھوں میں آنسو لیے اس کے بھائی کے کمرے سے نکل رہی ہے۔ سمجھنے میں اس کو پل نہ لگا پر وہ سکتے میں آ گیا۔ جیون کو دیکھتے ہی سرپریت کی آنکھوں سے آبشار رواں ہو گئی۔ گلے لگ کر اس نے جیون کو بتایا کہ وہ چاہے اسے رانی بنا کر رکھے لیکن اس کے بھائی اسے اپنی ذاتی رعایا ہی سمجھتے ہیں۔

اس رات حویلی میں جیون کی توڑے دار بندوق پھر چلی۔ تین بھائیوں کی لاشیں گریں اور ان کی ماں یہ دیکھ کر ہی گر گئی۔ باپ کو خبر ہوئی جو ملک سے جاتی سرکار کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھا کہ گھر اجڑ گیا ہے۔ نڈھال ہو گیا اور گھر کی جانب دوڑا۔ ملک میں تقسیم کی چنگاریاں اب بھڑکتی آگ میں بدلنا شروع ہو گئی تھیں جس کی لپیٹ میں شہر کے ساتھ ساتھ گاؤں بھی آنا شروع ہو گئے تھے۔ جگ دیپ سنگھ کو لوٹے کچھ دن گزر چکے تھے۔ بیوی سے زیادہ وہ تین بیٹوں کے غم میں گھل رہا تھا۔

پھر ایک رات کچھ دور واقع شاہ پور کے مسلوں نے حملہ کر دیا۔ مردوں کے سر کٹنے لگے اور گرنتھ پور کا کنواں عورتوں کی عزتوں کا رکھوالا ہوا۔ اس غدر میں جیون سنگھ لڑتا بھڑتا دیوانہ وار سرپریت کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ ایک جلتے ہوئے گھر کی روشنی میں اس نے سرپریت کے باپ کو اسے چار پانچ بلوائیوں سے بچانے کے کوشش کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ ان کی مدد کو بھاگا لیکن ایک خنجر فتح سنگھ کے جسم میں پیوست ہو چکا تھا۔ اب بلوائیوں کا سارا زور سرپریت کے چیتھڑے کرنے پر صَرف ہونے لگا لیکن جیون ان کے سر پر پہنچ چکا تھا۔ سرپریت اپنے آپ کو چھڑوانے میں کامیاب ہو گئی اور کنویں کی طرف بھاگی۔ جیون نے دو بلوائیوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور باقیوں کو زخمی کر کے سرپریت کے پیچھے بھاگا۔

کنواں زیادہ دور نہیں تھا۔ آگ اور خون کے اس میلے میں اس نے دیکھا کہ کنویں کی منڈیر پر سرپریت پُرسکون کھڑی اپنے باپ کی طرف دیکھ رہی ہے جو آخری سانسیں گن رہا تھا۔ جیون سنگھ ٹھٹکا۔ اسے لگا سرپریت کنویں کے دہانے کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔ اسی اثنا میں اسے پھر سے زخمی بلوائیوں نے پکڑ لیا۔ اسے رکنا نہیں چاہیے تھا۔ سرپریت کے پاس بھاگ نکلنے کا وقت تھا پر اس نے اپنے آپ کو کنویں کے حوالے کر دیا۔ جیون سنگھ چیخا “نہ ستی! نہ” ۔۔۔لیکن ستی کو اپنے باپ سے کیا ہوا وعدہ نبھانا تھا۔ اسے جگ دیپ سنگھ کی پوری نسل مٹانی تھی کہ کل کو کوئی اور دلبیر نہ مارا جائے۔ جیون سنگھ کے نام کی تلوار اس کے جسم کے آر پار ہو چکی تھی۔

فتح سنگھ آج سچ میں فاتح ٹھہرا تھا۔ اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں کنویں کی جانب تھیں۔ اس کے جان نکلتے جسم میں آخری جنبش ہوئی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

واہے گرو جی کی فتح
واہے گرو جی کی فتح

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”گرنتھ پور کی سرپریت/خاور جمال(مقابلہ افسانہ نگاری)

Leave a Reply