ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے/نیک محمد صافی

شام ہوچکی تھی, میں تیز تیز قدم اٹھاتا گھرکی جانب گامزن تھا۔حسبِ توقع میں دل میں سنہرے مستقبل کے خواب لئے خوش وخراماں زیرِ لب گنگنا رہا تھا۔ بیگم کے ہاتھ کی چائے اور گھر آئے نئے مہمان کے ساتھ دل پشوری کا حسین احساس منزل قریب آنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا جارہاتھا۔

بڑے بچوں کیلئے میں ٹافیاں پہلے ہی لےچکا تھا۔ انکی شرارتوں اور شکوے شکایتوں کیلئے میں ذہنی عدالت میں پہلے ہی سے فیصلے تخلیق کرچکا تھا۔ جس کیلئےکسی جرح ، شہادت و گواہ کی نہ حاجت تھی نہ ضرورت۔ بس حکم صادر کرناتھا وہ بھی مختصر۔ نہ تفصیلی اور نہ تحریری۔

حسب ِ معمول بیگم صاحبہ نے استقبالیہ چہرے پر مسکراہٹ بکھیر کردیااور بچے ٹانگوں سے چمٹ کراپنی ٹافیوں کی ڈیمانڈ کرنےلگے۔ حسبِ  روایت تینوں بچوں کے خنداں  خنداں چہروں سے بوسے لیکر انکی مانگیں پوری کیں۔

نئے مہمان کو ماں  کی گود سے لیکر سینے سے چمٹا یا پیار سے دبایا اور چومنا شروع کردیا۔

کبھی بیگم کھینچے تو کبھی میں چھینو۔

چائے کے دوران پیار بھرے انداز میں،مَیں  نے بےاختیار ننھےمہمان کو اٹھاکر کہا۔
بیٹا ! تجھے معلوم ہے تو کتنی خوشیاں ، کتنی سوغاتیں، کتنے رنگ میری کائنات میں بکھیر رہاہے۔؟
بیٹا ! تونے آکر میری فیملی مکمل کردی ہے،
تو جانتا ہے میں کتنا خوش ہوں تیرے آنے سے؟
تیری آمد تیری بہنوں کی خوشیوں کا زینہ،
تیرےآمد تیرے بھائی کے اکیلے پن کا خاتمہ،
تیراآنا تیرے دادا کی خواہش کی تکمیل،
تیری آمد تیرے ماں کے کانوں کی نئی بالیوں کا ذریعہ،
تیری آمد میرے بڑھاپے کی لاٹھی،
تیری آمد مبارک
اتنا ہی کہہ پایا تھاکہ شرارتی بچوں کی لڑائی نے توجہ کھینچ لی۔پھر ان کے ساتھ مشغول ہوگیا۔
آج مجھے اس گھر آئے مہمان پر اس لئے بھی بہت پیار آیا ہوا تھاکہ
ماں نے اسے آج شام ہی نیا سفید سوٹ نہلاکر پہنایا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی اسکا ختنہ کرایا تھا۔ مکمل ٹھیک ہوچکا تھا۔بہت ہی پیارا لگ رہاتھا۔
صرف دو مہینوں کا تھامگر سارےگھر والوں کی آنکھ کا تارا تھا۔
میری آنکھوں کا نور تھا وہ
میری دل کی دھڑکن،
میری سانسوں کی روانی،
میرے جیون کا حاصل،
اس کا رونا گویا میری روح کا جسم سے نکلنے جیسا تھا۔
میری  نس نس میں رچ بس گیا تھا وہ مختصر سے عرصے میں۔
اسے گود میں لئے میں گھر کے کونے کونے میں شاداں شاداں پھرتا تھا۔
میری بیگم کا غرور تھا وہ۔
اسے دکھاکر وہ مجھ سے اپنی ڈیمانڈز پوری کیا کرتی تھی۔
گویا وہ میری بیگم کیلئے بیٹا نہیں کوئی طلسم کا منتر “کھل جا سم سم ” ہو جیسے۔

باقی بچوں کے ساتھ کھیل کود سے تھک کر میں فرش سے اٹھ کر چارپائی پر آلیٹا۔ میری دونوں بیٹاں بھی اٹھ کر کھڑکی کے پاس چلی گئیں۔ بڑا بیٹا میرے پاس آگیا موبائل گیم کھیلنے اور بیگم رات کی روٹی پکانے کچن میں چلی گئی۔
میرا ننھا مہمان تنہا رہ گیا فرش پر لیٹا۔

جب قدرت کسی کی زندگی کی سطریں لکھتی ہے تو بال برابر خامی نہیں چھوڑتی۔ یہاں بھی قدرت نے خوب سکرپٹ لکھا تھا۔
جس کو لینا تھا۔ اسی کیلئے سارا میدان خالی کردیا۔
اچانک بجلی گئی اور دھڑام سے چھت والا پنکھا آگرا ،میرے جگر گوشے  پر۔

سیکنڈ کے معمولی لمحے سے قبل میں چارپائی سے اٹھ چکا تھا۔میری نظریں ننھے مہمان پر جم گئی ۔ چند ثانیے کیلئے میں ماؤف (منجمد،ہینگ) ہوگیا میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جیسے ختم ہوگئی ہو۔ مگر اگلے ہی لمحے میں بچے کو گود میں لئے ننگے پاؤں اپنے پڑوسی کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔
میری بیگم دھاڑیں  مار مار کرروئے جارہی تھی ۔
آس پڑوس کے مکین جمع ہونا شروع ہوگئے ۔
پڑوسی نے موٹر سائیکل نکالی اور ہم ہسپتال کی جانب روانہ  ہوگئے۔

میرا غالب گمان یہ تھا کہ بچہ لقمئہ اجل بن چکا ہے۔ مگر اچانک بچے نے میری  گود میں الٹی کردی۔ میری امید بندھی۔
بچے کے سر پر ڈائریکٹ پنکھا آکر لگا تھا سر ربڑ کی طرح نرم ہونے کے سبب خراش تک نہیں آئی تھی۔

بچے کو سانس کی نالی ڈالی گئی آدھ گھنٹہ سانسیں چلیں  اور پھر وہ ہمیں داغ مفارقت دے کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دار فانی سے جاودانی کی جانب کوچ کرگیا۔
اندرونی جریان خون کے سبب وہ فوت ہوگیا نیوروسرجن وہاں دستیاب نہ تھا۔
گھر واپس آیا میت ہسپتال میں ہی تھی ۔ خوشیوں بھرا گھر ماتم کدہ   بن چکا تھا۔
میری بیگم مجھ سے بیٹے کا پوچھتی تھی اور میری آنکھوں سے پانی بہتا تھا۔
میرے باقی بچے حیراں حیراں کبھی ماں کا دھاڑے مارنا دیکھیں کبھی میرے چشم تر ،
انگلی میری موبائل کی ٹچ سکرین پر ہے لیکن میری آنکھیں تر ہیں  اور دل بوجھل۔
کیسے اسے دفنایا ؟
کیسے دن گزرے؟
کیسے راتیں بیتیں ؟
ہم میاں بیوی دن کے وقت ہی دروازہ اندر سےبند کرلیتے تھے ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے رہتے تھے۔

خاندان والے ہماری حالت دیکھ کڑھتے رہتے تھے۔ ہمارےغمگین چہرے ،نمناک رتجگی آنکھیں انھیں بھی بےچین کیے رکھتیں
یار احباب آیتیں سناتے ، حدیثیں سناتے، فضلتیں بیان کرتے مگر میں گم سم رہتا۔
ہمارے پیارے نبی حضوراکرم ﷺ  سے بھی اللہ تعالیٰ نے اولادیں لیں۔ انکی بھی آنکھیں نم ہوئیں دل غمناک ہوا۔مگر لب پر شکوہ نہیں تھا۔
انہی کی حیات میرے لئے مشعل راہ بنی۔

میں بھی ماتم کناں نہیں ہوامگر دل افسردہ تھا۔زندگی کی ساری رعنائیاں، شہنائیاں، رنگینیاں جیسے پھیکی پڑ گئی تھیں۔
اکثر رات کو یکدم نیند سے اٹھ کر بیدار ہوجاتا تھا کہ
آخر یہ سب کیسے اچانک ہوگیا۔ زندگی سے کراہت محسوس ہوتی۔
آہستہ آہستہ لوگوں کی دکھی قصے دیکھ سن کر ہم اپنا غم بھولنے لگے۔
رب سے راضی رہے یہی کہا ۔ رب تو بھی راضی ہوجا !

ہمیں اپنا دکھ کم دکھائی دینے لگا۔ اور یوں واپس زندگی پرانی ڈگر پر چل پڑی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں پختہ قبروں کے سخت خلاف تھا مگر بیٹے کی چاہت میں دل کے مفتی کو عارضی طور کا چکمہ دیکر کتبہ بھی بنایا جس پر کنندہ کروایا۔
اے اللہ ! میں کچھ نہیں،میرا کچھ نہیں
تو سب کچھ ہے ، تیرا سب کچھ ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply