• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ڈاکٹرخالدسہیل کی کتاب انسانی شعورکا ارتقاء (تعارف اور تاثرات/قسط1)۔۔۔۔عبدالستار

ڈاکٹرخالدسہیل کی کتاب انسانی شعورکا ارتقاء (تعارف اور تاثرات/قسط1)۔۔۔۔عبدالستار

بیکن نے کیا خوبصورت بات کہی تھی ”کچھ کتابیں چکھنے کے لیے  ہوتی ہیں،کچھ نگلنے کے لیے اور ان میں کچھ کتابیں چبا کر ہضم کرلینے کے قابل ہوتی ہیں“آج جس کتاب کا تعارف کرواؤں گاوہ چبا کر ہضم کر لینے کی کیٹگری میں آتی ہے۔یہ کتاب نفسیاتی اور فلسفیانہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ان مضامین کا ترجمہ ڈاکٹر خالد سہیل کے علاوہ ڈاکٹر بلند اقبال،امیر حسین جعفری،ڈاکٹر منصور حسین،عبدالغفور چوہدری، عظمٰی محمود،رفیق سلطان اور گو ہر تاج نے بھی کیا ہے۔یہ انسانی شعور کے ارتقاء کی ایسی دستاویز ہے جو انسانی ذہن کے ارتقاء کی کہانی بڑے ہی واضح اور مقدس پراسراریت کی ڈھال کے بغیر سائٹیفِک تناظر میں لکھی گئی ہے۔اس کتاب کا آغاز ڈاکٹر خالد سہیل کے خوبصورت ابتدائیہ جملوں سے ہوتا ہے جس میں وہ ایک تمناء کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا کے اکثر انسان زندگی میں غلط فیصلے اپنی کم علمی،جہالت اور تعصب کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ جوں جوں ہم جدید علوم سے آگاہ ہوں گے تو ہم اپنے لیے اور اگلی نسلوں کے لیے دانش مندانہ فیصلے کر سکیں گے اور اس کرہ ارض کو امن وآشتی کی آماجگاہ بنا سکیں گے۔

پہلا باب بعنوان ”چارلز ڈارون اور انسانی ذہن کا ارتقاء“ میں ڈاکٹر خالد سہیل نے ڈارون کی خدمات کو بہت ہی الگ ڈھنگ میں پیش کیا ہے اور ڈارون کی انسانی ارتقاء کی تھیوری پر تعصب کی وجہ سے جو من گھڑت کہانیاں بُنی گئی ہیں ان پر ڈاکٹر سہیل نے ایک سیر حاصل گفتگو کی ہے اور عام سطح کے قاری کے لیے دانائی پہنچانے میں سہولت کار بننے کا کردار بڑی ہی خوبصورتی سے نبھایا ہے۔اس باب میں ڈاکٹر صاحب نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آج کا جدید ٹیکنالوجی سے لیس انسان ارتقاء کے عمل کا نتیجہ ہے۔اگلا باب بعنوان ”مذہب اور سائنس“ یہ البرٹ آئن سٹائن کی کتاب کے چند اقتباسات کا ترجمہ اور تلخیص ہے۔اس باب میں انسانی تاریخ میں تصور مذہب، تصور خدا،آسمانی کتابیں،بدھا کی تعلیمات اور سائنٹیفک اثرات کو بڑے واضح انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس باب میں سائنس اور مذہب کے مختلف پہلوؤں کوسامنے لا یا گیا اور یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کائنات کے رازو ں کوجاننے کی جستجو انسان کا بنیادی خواب رہا ہے۔ان کائناتی رازوں کو ڈی کوڈ کرنے میں مذہب میں بھی کچھ غیر روایتی لوگ پائے جاتے ہیں ،جنہیں ہم صوفی،درویش،سنت اور سادھو کہتے ہیں یہ لوگ کائناتی سچائی کو پانے کے لیے خود کو الگ تھلگ کر کے اپنے من کی لیبارٹری میں گھس جاتے ہیں اور اپنے سچ کو ننگی آنکھ سے دیکھنے کی خواہش میں مگن رہتے ہیں۔اس باب میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جستجو کا عمل ایک روحانی عمل ہوتا اور اس عمل کو صرف غیر روایتی لوگ ہی زندہ رکھتے ہیں۔اسی باب کے اگلے حصہ میں ڈاکٹرسہیل مذہب کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کرتے ہیں ”ایک روایتی مسلمان ہونے کے ناطے میں ایک خدا، مذہب،پیغمبروں،آسمانی کتابوں موت بعد الحیات پر ایمان رکھتا تھا۔سائنس نے مجھے منطقی انداز میں سوچنے کی دعوت دی اور مجھے اندازہ ہوا کہ سائنس کی تحقیقات مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہیں آسمانی کتابوں پر نہیں۔ سائنسدان خوردبین اور دور بین سے کائنات کا مشاہدہ اور تجزیہ کرتے ہیں۔کائنات اور زندگی کے اسرارورموز کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں“اس با ب میں ڈاکٹر سہیل اپنے روایتی سے غیر روایتی بننے کے سفر کو اور سچ کی تلاش میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو بڑے ہی منطقی اندازمیں پیش کرتے ہیں وہ یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سچ کے سفر کے کچھ متلاشی روایات کے گھسے پٹے راستوں کا انتخاب کرتے ہیں اورسُکھی ہو جاتے ہیں، جب کہ کچھ متلاشی اپنے من کی پگڈنڈی پر چل کر اور جدید سائنسی نقطہ نظر کے ساتھ اپنی جستجو کے اس بے چینی والے سفر کو جاری و ساری رکھتے ہیں۔۔انہوں نے اپنے روایتی سفر میں بہت سارے علماء کو پڑھا جن میں سرِفہرست مودودی،پرویز،اقبال اور ابوالکلام آزاد ہیں۔ان  کا ماننا ہے کہ ان لوگوں کو پڑھنے کے بعد مجھے فائدہ بھی ہوااور نقصان بھی۔فائدہ یہ ہوا کہ مجھے احساس ہو گیا کہ ہم قرآن کا استعاراتی مطالعہ بھی کر سکتے ہیں، تا کہ اس میں اور سائنس میں کوئی تضاد نہ رہے۔نقصان یہ ہوا کہ مجھے اندازہ ہوگیا کہ قرآن کا ہر مفسر اس کی جداگانہ تفسیر کرتا ہے اور کوئی دو عالم اور مفسر ایک بات پر متفق نہیں ہوتے۔ان باتوں سے مجھے پتہ چل گیا کہ قرآن کا اصل مطلب اور تفسیر جاننا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے اور میں نے قرآن کو حکیمانہ ادب سمجھنا شروع کر دیا اور اس سے زندگی کے قوانین نکالنا چھوڑ دیے۔

اس باب میں ڈاکٹر سہیل نے اپنی ذات کے ساتھ جڑے ہوئے سچ کو بغیر کوئی غلاف چڑھائے انتہائی دیانت داری سے پیش کیاہے۔ہمارے معاشرے کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم انسانی سچائیوں کو گناہ اور ثواب کے تناظر میں دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں اور ہمیں اور کوئی پیمانہ سو جھتا ہی نہیں ہے۔سچائی کو پانے اور جاننے والا شخص ان سب روایتی پیمانوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر سہیل نے اس باب میں سگمنڈ فرائیڈ، برٹینڈ رسل،ابن سینا، غزالی،ہود بھائی اور دیگر مغربی مفکرین کے خیالات کو بھی بڑے واضح انداز میں پیش کیا ہے۔پانچواں باب بعنوان ”سراب کا مستقل“ یہ تحریر سگمنڈ فرائیڈ کی ہے اور اس کا ترجمہ ڈاکٹر سہیل نے کیا ہے۔اس باب میں انسانی جبلتوں کو بیان کیا گیا ہے اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسانی بچے اپنی جبلتوں کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں اور اپنی خواہشات کی فوری تسکین چاہتے ہیں۔انسانی معاشرہ ان پر کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے تا کہ انسانی زندگی اور معاشرے میں ایک ہمدردی اور توازن قا ئم ہو سکے۔بعض انسانوں کے لیے ان پابندیوں کو قبول کرنا آسان ہوتا ہے اوربعض کے لیے بہت مشکل اور بعض انسان ان پابندیوں اور قربانیوں کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔فرائیڈ نے نفسیاتی حوالوں سے انسانی دماغ پر پڑنے والے جبری اور مسلط شدہ اقدار کا تجزیہ کیا ہے کہ کیسے کوئی معاشرہ اپنے آدرشوں کو اتنا عزیز رکھتا ہے کہ وہ ایک مقام پر پہنچ کر یہ ثابت کرنے لگتا ہے کہ اس کے آدرش باقی معاشروں کے آدرشوں سے بہتر ہیں۔اس طرح ان میں ایک طرح کا احساس برتری پیدا ہو جاتا ہے اور یہ احساس مختلف معاشروں،قوموں اور ثقافتوں میں رشک،حسد اور دشمنی کے بیج بوتا رہتا ہے۔اس باب میں یہ وضاحت کی گئی ہے بقول فرائڈ ”میری نگاہ میں مذہبی خیالات وہ حقائق اور نظریات ہیں جن تک انسان منطق کے ذریعے نہیں بلکہ ایمان کے راستہ پہنچتا ہے۔اس لیے اسے بہت عزیز رکھتا ہے۔مذہبی انسان ان لوگوں کو جو ایمان نہیں رکھتے کم فہم سمجھتا ہے۔مذہبی علوم اور دیگر علوم میں واضح فرق یہ ہے کہ انسانی فہم کے تجرباتی علوم کو ہم پرکھ بھی سکتے ہیں اور سوال بھی اٹھا سکتے ہیں جب کہ اگر ہم مذہبی نظریات کی حقیقت کے بارے میں اساتذہ سے سوال پوچھتے ہیں تو ہمیں کچھ اس قسم کے جوابات ملتے ہیں“ہمیں ان نظریات پر ایمان لانا چاہیے کیونکہ ہمارے آباؤاجداد ان پر ایمان لائے تھے،ہمیں ان نظریات کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے اور ان کے بارے میں سوال نہیں پوچھنے چاہئیں“

یہ باب دعوت فکر دیتا ہے کہ اگر وہ نظریات سچے ہیں تو پھر ان پر سوالات اور اعتراضات کی ممانعت کیوں؟سوال تو وہ نظریہ برداشت نہیں کر سکتا جو عدم اعتماد کا شکار ہو۔فرائڈ کا کہنا ہے کہ ہمیں ان لاشعوری عوامل کی بجائے اپنے شعور اور عقل پر زیادہ انحصار کرنا چاہیئے۔مذہبی عقائد اور نظریات صدیوں کے سفر کے بعد اتنا گردوغبار سے اٹ گئے ہیں کہ ان میں سے حق اور سچ تلاش کرنا مشکل ہوگا۔وہ یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم چھوٹے بچوں سے تشبیہوں اور استعاروں کی زبان میں بات کرتے ہیں جب وہی بچے بڑے ہوتے تو وہ خود ان استعاروں کو ڈی کوڈ کر کے حقیقت کو تراش لیتے ہیں۔فرائڈ کا ماننا ہے کہ ہمیں اپنی محنتوں کا پھل قیامت کی بجائے اگلی نسلوں میں پانے کا متمنی ہونا چاہیے۔چھٹا باب بعنوان ”مذہب اور روحانیات“یہ باب ان چند ابتدائی سوالات کا احاطہ کرتا ہے۔
۱۔کیا ہر ثقافت کا کوئی مذہب ہوتا ہے؟
۲۔کیا ہر معاشرے میں خدا کا تصور پایا جاتا ہے؟
۳۔کیا ساری دنیا کے روحانی لوگ مشترک اقدار رکھتے ہیں؟
۴۔کیا تصوف ایک فلسفہ ہے،روحانی تجربہ ہے یا طرز زندگی؟
۵۔کیا کوئی شخص خدااورمذہب کو مانے بغیر بھی درویش بن سکتا ہے؟

یہ ایک ایسے طالب علمانہ سوالات ہیں جن کی بنیاد پر ڈاکٹر سہیل اس باب کا آغاز کرتے ہیں،ڈاکٹر صاحب یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ بنیادی سوال میرے ذہن میں بار بار ابھرتے رہے اور میں ان کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ڈاکٹر صاحب ہمیں روحانیت کی روایات سے متعارف کرواتے ہیں ”ہمہ از اوست کی رویت“اس روایت کی پیروی کرنے والے لوگ ایک ایسے خالق کا تصور رکھتے ہیں جو اس کائنات سے جدا ہے اور اس سے براہ راست تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔یہودیت، عیسائیت اور اسلام کو ماننے والے کئی صوفی اس روایت کو ماننے والے ہیں۔

”ہمہ اوست کی روایت“اس روایت کو ماننے والے کائنات سے جدا کسی خدا کو نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو موجود ہے وہ خدا ہے۔اس لیے ان کا خدا آسمان پر نہیں انسانوں کے دلوں میں بستا ہے۔ہندوازم کے کئی سنت اور سادھو اس روایت سے تعلق رکھتے ہیں۔”سیکولرروایت“اس روایت کو ماننے والے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر انسان کی شخصیت کا ایک پہلو درویشانہ ہوتا ہے اور اس کو پروان چڑھانے کے لیے کسی خدا یا مذہب کو ماننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔اس روایت کو ماننے والے فطرت سے اپنا گہرا رشتہ استوار کرتے ہیں اور اپنی ذات کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔سیکولر درویش کی نگاہ میں روحانیت انسانیت کا حصہ ہے خدائی کا نہیں۔کرشنا مورتی کا نظریہ تھا کہ سچائی کی دنیا میں نہ کوئی راستہ ہے نہ کوئی رہبر۔ہر شخص کو اپنے انداز سے سچائی کو پانے کی سعی کرنی چاہیے۔بدھا نے بھی اپنے ذاتی سچ کو پانے کے لیے جنگلات کا سفر کیا تھا اور نروان حاصل کرنے کے بعد دوبارہ دنیا میں لوٹ کر دوسروں کو بھی روحانیت اور سچ کی تلاش کا درس دینا شروع کر دیاتھا۔اس باب میں ڈاکٹر سہیل ایک درویشانہ شخصیت کی صفات کا تذکرہ کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ درویش قناعت پسند انسان ہوتے ہیں کیونکہ وہ جان چکے ہوتے ہیں کہ بہت سے لوگ اس مادی دنیا میں اپنی حرص کی وجہ سے دکھی رہتے ہیں درویش منکسرالمزاج ہوتے ہیں اوراحترام انسانیت کے قائل ہوتے ہیں۔درویش عذاب و ثواب سے بالاتر ہوتے ہیں جو لوگ معرفت کی منزلیں طے کر چکے ہوتے ہیں وہ بڑے مقاصد کے لیے چھوٹے مقاصد قربان کردیتے ہیں۔ اسی طرح سے آگے بڑھتے ہوئے ڈاکٹر سہیل درویش کی مختلف خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بدھا کے ایک قول کا تذکرہ کرتے ہیں بدھا نے کہا تھا ”ہر انسان کا اپنا تجربہ اس کاسب سے بڑا رہنما ہوتا ہے“یہ باب انسان کو اپنی ذات سے جڑ کر اپنے حقیقی سچ کو کو پانے کی ترغیب دیتا ہے۔

ساتواں باب بعنوان ”انسانی نفس (سائیکی)۔۔۔روح یا ذہن“؟ یہ تخلیق ڈاکٹر سہیل کی ہے اور اس کا ترجمہ ڈاکٹر بلند اقبال نے کیا ہے۔اس باب میں ڈاکٹر سہیل انسانی تاریخ کے حوالہ سے روح کا تصور بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ انسان کا تصور تھا اور مذاہب عالم میں ابھی بھی ہے کہ بچے کی پیداش کے دوران کسی خاص مرحلے پر روح بدن میں داخل ہو جاتی ہے اور یہ اس وقت تک بدن میں بسیرا کرتی ہے جب تک موت اس جسم کو ختم کرنے کا سبب نہ بن جائے انسان کے مرنے کے بعد روح عالم ِ ارواح میں چلی جاتی ہے۔دوسرا روحانی عقیدہ اواگون کا ہے جس میں روح اعمال کے لحاظ سے جنم در جنم اپنے جسم کا چوغہ بدلتی رہتی ہے اور آخر کا ر وہ نروانہ حاصل کر کے مُکتی حاصل کر لیتی ہے۔جہاں ہزاروں سال سے ان مخصوص نظریات کی حکمرانی رہی اور پھر کچھ ہی صدیوں پہلے ایک نئی سائنسی فکر نے بھی انسانی ذہن کو متا ثر کیا۔اس فکر نے روح کی جگہ انسانی ذہن کے تصور کو اجاگر کر دیا اور واضح کر دیا کہ انسانی نفس انسانی ذہن ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس نفسیاتی سیکولر آگہی کی بنیاد ماہر حیاتیات چارلز ڈارون، بابائے علم نفسیات سگمنڈ فرائیڈ، عالم معاشیات کارل مارکس اور وجودیت کے فلسفی ژاں پال سارتر جیسے عظیم مفکر وں کی اعلیٰ  ترین غورو فکر کا عملی نتیجہ ہے۔ان عظیم لوگوں کی کی کاوشوں کا مرکز انسانوں کو ایک پر معنی زندگی کی طرف راغب کرنا تھا۔یہ وہ نابغہ روزگار لوگ تھے جنہوں نے صدیوں سے روایات کی گردوغبار میں اٹے ہوئے گھسے پٹے نظریات کو سائنٹیفک بنیادون پر رد کر دیا اور نئے آنے والے لوگوں کو ایک نئی سوچ سے ہمکنار کیا۔ سیکولر روایات کو ماننے والے دوسری روایات کا بھی احترام کرتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں جاننے کا عمل مسلسل جاری و ساری رہتا ہے۔وہ پرانی روایات اور پرانے راستوں کو ترک کر کے نئے راستوں کے راہی بن جاتے ہیں۔نئے راستوں اور نئی منزلوں کے متلاشی زندگی کو کھوجنے کا اپنا ذاتی لائحہ عمل بناتے ہیں۔ڈاکٹر سہیل اس باب میں نفسیات کے حوالوں سے یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پہلے دماغی مسائل کا کوئی جامع علاج نہیں تھا لیکن اب سائنسی تحقیقات کی بدولت تمام پیچیدگیوں پر کافی حد تک غلبہ پایا جاچکا ہے۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply