کتھا چار جنموں کی ۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط7

1946عیسوی۔ (جنوری تا مارچ) اس دوران میں استاذی تلوک چند محروم صاحب کی خدمت میں حاضرہونا میرا معمول سا بن گیا۔ راولپنڈی کا موسم سرما جنوری میں شدید تر ہو تا ہے اس لیے میں دو دو اُونی سویٹر منڈھ کر اور اُن کے اُوپر ایک کوٹ پہن کر پہنچتا۔ اگر دھوپ ہوتی تو تیسرے پیریڈ کے وقفے میں وہ باہر دھوپ میں کرسی بچھا کر بیٹھے ہوتے۔ میں جاتے ہی آداب عرض کرتا اور سامنے گھاس پر بیٹھ جاتا۔ اگر گھاس گیلی ہوتی تو وہ چپڑاسی کو آواز دے کر ایک کرسی اور منگوا لیتے۔اگر موسم ابر آلود ہوتا تو ہم لوگ کسی خالی کمرہ ٗ جماعت میں بیٹھ جاتے۔

ایک دن فرمانے لگے۔ ”جب میں بی اے کر رہا تھا تو ہمارے انگریزی کے نصاب کی پوئٹری بک میں اندازاً ستّر پچھتّر نظمیں تھیں۔ شیکسپیئر کے سانیٹ سر فہرست تھے،۔ پھر اٹھارھویں صدی میں جان ڈّن کی تیکھی ترچھی تشبیہوں والی نظمیں تھیں، جنہیں انہی دنوں ٹی ایس ایلیٹ نے میٹافزیکل پوئٹری یعنی علم ِ طبعی یا علم ِ قوائے ذہنی کی نظمیں کہا تھا ۔
”میں نہیں سمجھا، سر!“ میں نے کہا۔
”ابھی سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں، بس سنتے جاؤ۔“ انہوں نے حکم دیا۔

”اس کے بعد الیکذانڈر پوپ کی سطحی، درمیانے درجے کی مقفٰے شاعری تھی، جس کے اشعار ہمارے غزل کے اشعار کی طرح تھے۔ انہیں ’ہیرائک کپلٹ‘ کہا جاتا تھا۔ لیکن ان کے مضامین عام بول چال کے مقابلے میں سطحی تھے۔ غزل جیسی گہرائی نہیں تھی ان میں۔اس کا دور دورہ بھی کافی عرصے تک رہا۔ جب یہ ختم ہوا تو رومانٹک پوئٹری کا دور آیا۔ ورڈزورتھ، کالریج، بائرن، شیلے اور کیٹس۔ یہ سب دیکھتے ہی دیکھتے انگریزی شاعری پر چھا گئے اور آج تک چھائے ہوئے ہیں“۔
”جی۔۔،“ میں نے قطع کلامی کی پھر جرات کی۔ ”ہمارے میٹرک کے کورس میں بھی یہ شاعر شامل ہیں۔“
کچھ چیں بجبیں ہوئے، لیکن اپنا کلام جاری رکھا۔۔

”اب دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے، عزیز ِ من، کہ ان تین چار سو برسوں کی شاعری میں کہیں بھی، کسی بھی دور میں، حزن و ملال، فریاد، واویلا، گریہ زاری شاعری میں ایک راسخ سوچ بن کر نہیں آئی۔ اگر ایک شاعر کے ہاں نا امیدی یا دلگیری کا بیان بھی ہے تو کچھ نظموں میں ہے، جبکہ اس کی شاعری میں شادمانی بھی ہے،امید بھی ہے، چہل پہل بھی ہے“۔

مجھے کچھ کچھ بات سمجھ میں آ رہی تھی کہ استاذی کیا کہنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے بعد جب بولے، تو بولتے ہیں چلے گئے۔
”غزل کی صنف ہمارے ہاں فارس یعنی ایران سے آئی ہے۔ ایران کا دان پُن سمجھو یا ہماری اپنی خالی جھولی،کہ ہم نے اسے اپنی لوک ورثہ کی شاعری سے اونچا رتبہ دے کر سر آنکھوں پر بٹھایا۔۔۔ یہاں تک تو بات قابلِ قبول تھی، لیکن ہم نے موضوعات اور مضامین بھی وہی منتخب کیے جو فارسی شاعری میں تھے تو سہی، لیکن اس قدر نہیں تھے، جتنا کہ ہم نے انہیں اہم سمجھا۔۔ یہ موضوعات، شاعر کا ’عاشق‘ ہونے کے حوالے سے نا امیدی، افسردگی کے تھے۔ اشعار میں یاسیت کا ہونا ایک ضروری امر سمجھ لیا گیا۔ یاس پرستی، آزردگی وغیرہ قدریں شاعری کا چالو سکہ بن گیا.“

”میں نے نوٹس لینے شروع کر دیے ہیں، سر!“ میں نے کاپی اور پین ان کے سامنے کر کے کہا
وہ میری طرف متوجہ شاید تھے ہی نہیں۔ اپنی دھن میں بولتے ہی چلے گئے، ”اردو میں بھی انگریزی شاعری کی طرح قدر ت کے نظارے، زندگی کی خوبصورتی شامل کی جا سکتی تھی۔ بھروسہ کرنا دوستوں پر، پر امید ہونا کامیابی کے لیے، سہارا دینا اور لینا، یعنی زندگی کا روشن پہلو دیکھنا۔۔۔ یہ سب کچھ موضوعات اور مضامین کے تحت آ سکتا تھا، لیکن چونکہ فارسی غزل میں نہیں تھا، ما سوا یاس یا ناقابل حصول امنگوں کے، اس لیے اردو غزل نے بھی یہی روش اپنائی۔۔“

کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئے، پھر بولنا شروع کیا۔ ”ہوا یہ کہ جب اردو نے جنم لیا تب تو دکن میں سیاسی حالت تندرست تھی۔ دکن والوں نے۔۔۔یعنی ولی دکنی وغیرہ شاعروں نے دکنی اردو کو فروغ دیا۔ اس میں امید تھی، خوشی تھی، خوبصورتی تھی، ہندی کے الفاظ بھی شامل تھے“
”ہندی، سر؟“ میں نے پوچھا
”چلیں، ہندی نہیں تو ہندوی کہہ لیں، یعنی بولی جانے والی زبان۔۔ امیر خسرو کے دوہے، یاد رکھو ستیہ پال، دوہا ہندوستانی صنف سخن تو ہے، لیکن خصوصی طور پر ہندی ہے۔ یا د ہے نہ وہ دوہا، گوری سووے سیج پر ۔
میں نے فی الفو ر پورا دوہا پڑھ دیا۔
”گوری سووے سیج پر، مکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے، سانجھ بھئی چہوں دیس“

خوش ہو گئے۔ ”ہاں، دیکھو، اس میں ’زلف‘ نہیں کہا گیا،’بال‘ بھی نہیں کہا گیا۔’کیس‘ کہا گیاجو خالصتاً ہندی ہے۔اسی طرح ’سیج‘ کہا گیا، ’بستر‘ نہیں کہا گیا۔ ’مُکھ‘ کہا گیا۔ ’منہ‘ یا ’رُخ‘ نہیں۔ ’رُخ‘ تو اس وزن میں بھی پورا آتا تھا! کئی بار نصف مصرعے فارسی میں اور نصف ہندوی میں ہوتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ دہلی اور لکھنؤ تک آتے آتے اردو اُن شعرا کے قبضے سے نکل کر اُن شعرا کی ذیل میں قیدی بن گئی جو خود کو ایرانی، تورانی نسل سے، یا عرب نسل سے شمار کرتے تھے۔“
”تو کیا وہ ان نسلوں سے تھے نہیں؟“ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
” تھے، ضرور تھے۔۔ لیکن اٹھارہویں صدی کے انت تک ان کے گھروں، گلی محلوں اور کام کاج کی جگہوں پر بھی جو ”اردو“ بولی جاتی تھی، وہ ایسی نہیں تھی، جیسی وہ شاعری میں استعمال کرنا چاہتے تھے اور کرتے تھے!
غالبؔ بھی، گویا، افسوس کے لہجے میں کہتے ہیں۔
سو پشت سے ہے پیشہ ء آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہ ء عزت نہیں مجھے۔

یہاں بھی غالب ”ہے“، یعنی present tense زمانہ ء حال استعمال کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہتے، سو پشت سے”تھا“ پیشہء آبا سپہ گری ۔۔“ یہ خاندان، جن کے آباء، جیسے کہ غالب کہتے ہیں، ایران اور دیگر وسط مشرقی ملکوں سے آئے تھے اور آتے آتے تھک گئے، تو پنجاب، دہلی اور اس سے آگے یو پی اور سی پی میں ڈیرے ڈال کے وہیں کے ہو رہے۔ جنوب تک نہیں گئے۔ تو اب اِ ن کی اردو ”اردوئے معلےٰ“ بن گئی اور باقی ماندہ ملک کی اردو صرف نچلے درجے کی اردو ہی رہی۔“
”سر۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا، ”معلےٰ کی اصل تو عالی ہے، یعنی اونچا، گویا یہ اردو ’اونچی اردو‘ مان لی گئی؟“
”ہاں، تم صحیح کہتے ہو، ستیہ پال۔ معلی صفت ہے یعنی adjective ہے، اس کا مطلب تم نے ٹھیک بتایا، عالی، اونچا، معظم، بزرگ، قابل ِ تعظیم وغیرہ۔“

”سر!“ میں نے کلاس روم میں بیٹھے ایک طالبعلم کی طرح ہاتھ کھڑا کیا، تو مسکرائے۔۔۔ ”ہاں، پوچھو!“
”سر، میر تقی میر، غالب کے ہمعصر نہیں تھے، ان سے پہلے تھے۔ کچھ اور شعرا بھی ان کے عصر سے پہلے تھے. اور یہ سب شعرا ان بزرگوں کی اولاد تھے، جو عجم یا عرب سے آ کر دہلی کے نواح میں یا یو پی، سی پی میں آباد ہو گئے تھے۔ یہ سب لوگ پنجاب سے ہو کر چلتے چلتے آگے گئے تھے۔ کچھ پنجاب میں بھی بسے ہوں گے، سر! نہیں، کیا؟ تو کیا وجہ ہے، پنجاب میں غالب سے پیشتر یا غالب کے زمانے میں ہی کوئی نام نہیں ملتا۔۔ کسی بھی اردو شاعر کا؟ دو سو، تین سو برس اور ایک بھی شاعر نہیں قابل ِ ذکر؟ پنجابی کے تو بہت ہیں، بارھویں، تیرھویں، چودھویں اور پندھرویں صد یوں میں اور یہ سبھی مسلمان ہیں! نہیں ہیں کیا؟“

حیرت آمیز خوشی سے میری جانب دیکھا۔ پوچھا، ”تم کیا جانتے ہو اِن پنجابی شاعروں کے بارے میں؟“
میں نے عرض کیا، ”سر، میری ماتا جی، وِدیا ونتی سِکھ خاندان سے ہیں۔ اردو بھی تھوڑی بہت جانتی ہیں، لیکن انہیں ان سب بزرگوں، شیخ بابا فرید، بُلھے شاہ وغیرہ کے اشلوک، دوہے اور کافیاں یاد ہیں۔“
کچھ خوش ہوئے، کچھ چیں بہ جبیں۔۔۔”خوب۔ ایسی مائیں تو خوش بخت بچوں کو ملتی ہیں،لیکن کیا یہ بھی تمہاری ماتا جی کی صحبت کا اثر ہے کہ تم نے اردو کو مونث فرض کر لیا ہے؟
”میں سمجھا نہیں، سر؟“
مسکرائے، بولے، ”تم نے کہا تھا، اردو بھی تھوڑی بہت جانتی ہیں. تھوڑی بہت جانتی ہیں یا تھوڑا بہت جانتی ہیں۔ کیا درست ہے؟“
”جی۔۔“ میں کچھ ہکلایا تھا ”اردو کو اگر زبان کے حوالے سے کہا جائے تومونث ہی درست ہو گا۔“
کہنے لگے، ”صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔

سبھی زبانوں کے نام ابجد کے آخری حرف یعنی ”یے“ پر ختم ہوتے ہیں، پنجابی، گجراتی، بنگالی، انگریزی، جاپانی، چینی، فارسی، ترکی وغیرہ”۔اردو“ ایک مختلف قسم کا نام ہے، لیکن ہمارے ہاں ”پشتو“ بھی ہے، ”اُڑیا“ بھی ہے، جو مونث ہی تسلیم کی جائیں گی۔ اردو بھی اس لحاظ سے، یعنی زبان ہونے کی وجہ سے مونث ہی استعمال میں لائی جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ دیر رک گئے۔ اسٹول پر رکھا ہوا گلاس اٹھا کر پانی پیا اور پھر کہا، ”اگر غزل فارس سے آئی، تو ظاہر ہے اپنے بطن میں وہ موضوع اور مضمون بھی ساتھ لائی، جو اردو غزل کا سرمایہ بنے ۔۔۔ مثال کے طور پر محبوبہ کو مذکر لکھنااور اس نسبت سے لوطیت کے سب اشارے صاف لکھ دینا۔۔“
”لوطیت کیاہوتی ہے، سر؟“
”لونڈے بازی“ کہہ تو گئے، لیکن جلدی سے رومال جیب سے نکال کر منہ صاف کیا۔ بولے ”یہ لفظ کیسے میرے منہ سے نکل گیا۔ ایشور مجھے معاف کرے۔۔۔ بچے، ستیہ پال، اب تم جاؤ، پھر کسی دن آ جانا۔۔۔“
(جاری ہے)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply