دولما باہچے مسجد اور عائشہ کے آنسو۔علی اختر

سورج غروب ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ میں اور علی بخش دولما باہچے کی تاریخی مسجد کے داخلی دروازہ پر موجود تھے۔آج کسی کام کے سلسلے میں ہمیں استنبول کے علاقے بیشکتاش جانا تھا جہاں سے واپسی پر کچھ آوارہ گردی کا پروگرام بھی بن گیا۔ ہم دونوں ٹی شرٹس اور جینز پہنے، پیروں میں جوگرز اور کندھوں پر بیگ ڈالے ماڈرن خانہ بدوش درویشوں کی صورت وہاں موجود تھے ۔ یہ مسجد سلطان عبدلمجید اول کی والدہ نے بنانا شروع کی تھی جس کی تعمیر ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نے مکمل کی ۔ دو بلند میناروں اور ایک گنبد پر مشتمل یہ بلند لیکن رقبہ کے لحاظ سے کچھ چھوٹی مسجد ہے لیکن طرز تعمیر دیگر قدیم مساجد کے مقابلہ میں قدرے جدید ہے۔

داخلی دروازہ پر پڑے چمڑے کے دبیز پردہ کو اٹھا کر ہم اندر داخل ہوئے۔ اندر دو یا تین صفوں پر مشتمل ایک بر آمدہ تھا جس کے بعد مرکزی ہال شروع ہوتا تھا۔ دبیز قالین پر چلتے ہوئے ہم ہال میں داخل ہوئے۔ امام مسجد کے مسئلے کے ساتھ دونوں طرف موجود کھڑکیوں کے شیشوں سے ایشیاء اور یورپ کو جدا کرنے والی سمندری خلیج کا نیلگوں مگر پرسکون پانی دکھائی  دے رہا تھا۔ دیواروں پر اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں کے ساتھ خلفاء راشدین اور حسنین کریمین کے ناموں کی  خطاطی آویز کی گئی  تھی۔غرض عمارت کی خوبصورتی اور وقار آپ کو اس شور شرابے سے بھرپور دنیا سے نکال کر سلطنت عثمانیہ کے قدیم دور میں پہنچا دیتا ہے ۔مغرب کی اذان کی آواز اور پھر قرات عمارت میں اس طرح گونجتی ہے جیسے دائرے میں گھوم رہی ہو ۔ بے شک سکون اور خاموشی دل کو عجیب لطف دے رہی تھی ۔ گاہے بگاہے سیاح آتے تھے بعض نماز پڑھتے تھے بعض صرف سرسری نگاہ ڈال کر اور ایک چکر لگا کر نکل جاتے تھے ۔ سچ ہے کہ  کسی شاہکار کو دیکھنے کے لیے قدردان آنکھوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

علی بخش نے کسی کو وقت دے رکھا تھا وہ اس سے ملنے چلا گیا ۔ یوں مجھے اس جگہ تنہائی  میں مزید کچھ وقت گزارنے کا موقع مل گیا۔ دروازہ سے نکل کر داہنی طرف خلیج کے ساحل کے ساتھ سیڑھیاں نما چبوترا بنا ہوا  تھا جس کے آخری سرے پر زنجیریں لٹکا کر حد مقرر کی گئی  تھی۔ میں اس چبوترے پر بیٹھ گیا میرے سامنے خلیج کا پر سکون پانی تھا۔ جس کے اس پار استنبول کے ایشین ساحل “اُسکدار” کی روشنیاں دکھائی  دے رہی تھیں۔ بائیں طرف کچھ فاصلے پر اس سیڑھیوں نما چبوترے پر میز اور کرسیاں ڈال کر ایک ہوٹل بنایا گیا تھا جس پر بہت سے لوگ چائے، کافی پینے میں مصروف تھے ۔ میرے اشارے پر ویٹر ترکش چائے کی ایک پیالی میرے برابر میں رکھ گیا ۔ شام ڈھلتے ہی موسم ہلکا سا سرد ہو گیا تھا ۔ پر یہ خنکی تنگ کرنے والی نہیں بلکہ لطف دینے والی تھی ۔ خنکی کا مزہ دوبالا کرنے کے لیے میں نے ایک سگریٹ سلگا لیا تھا۔ جیب سے فون نکال کر فیسبک پر کوئی  تحریر پڑھنا شروع کردی۔ گو میرے ارد گرد اکا دکا لوگ بیٹھے تھے لیکن میں ان سے بے نیاز موبائل میں مگن تھا ہاں کبھی کسی کشتی کے گزرنے سے ہونے والاارتعاش مجھے پانی کی طرف متوجہ کر دیتا تھا۔

میں موبائل میں اتنا مگن تھا کہ  مجھے پتا ہی   نہیں چلا کہ  وہاں کوئی  اور بھی موجود ہے جو میرے فون میں تانکا جھانکی کر رہا ہے ۔ مجھے پتا اس وقت چلا جب ایک نا مانوس زبان کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی ۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو جیسے   وقت تھم سا گیا۔ اس کے بے داغ سفید چہرے کے گرد سفید اسکارف نور کے ہالہ کی  طرح لپٹا ہوا تھا ۔ سیاہ آنکھیں چشم غزال کی تشریح پیش کر رہی تھیں۔ گو نقوش ہماری طرح تیکھے نہیں تھے لیکن چہرے سے وہ حیا اور مشرقیت چھلک رہی تھی جو استنبول میں تقریباً  ناپید تھی۔

اس کے لب دوبارہ متحرک ہوئے اور پھر کوئی  نامانوس جملہ ادا کرگئے۔ لیکن اس بار میں سمجھ چکا تھا کہ  یہ عربی زبان ہے۔
“میں عرب نہیں ہوں اور عربی زبان نہیں جانتا” یہ جملہ میں نے ترکی زبان میں ادا کیا۔
“اوہ! اچھا، میں ترکی بہت کم کم جانتی ہوں” جواب ٹوٹی پھوٹی ترکی زبان میں دیا گیا۔
گفتگو کا   سلسلہ کچھ دیر منقطہ رہا۔ لیکن دل یہ کہہ  رہا تھا کہ  مزید بات کی جائے ۔ لیکن کیسے۔ جلد ہی مسئلہ حل ہوا۔
“کیا تم انگریزی جانتے ہو” یہ سوال گزارے لائق انگریزی زبان میں کیا گیا۔
“ہاں بہت اچھی طرح” میں نے جلدی سے جواب دیا۔
“لیکن تم دیکھنے میں عرب لگتے ہو اور یہ زبان بھی عربی جیسی  ہی ہے” اس نے میرے فون کی طرف اشارہ کیا۔
“میرا نام علی ہے، میں عرب نہیں پاکستانی ہوں اور یہ میری زبان اردو ہے، دیکھنے میں عربی جیسی ہے لیکن بالکل مختلف ہے۔ ہم عربی پڑھ سکتے ہیں لیکن سمجھ یا بول نہیں سکتے”
میں نے جواب دیا۔
“اوہ عجیب بات ہے” اس کے لہجے میں مزید جاننے کا تجسس تھا۔

“تم لوگ اور کون کون سی زبانیں جانتے ہو”
“اردو ہماری قومی زبان ہے اس کے ساتھ پانچ، چھ اور علاقائی  زبانیں ہیں
، انگریزی ہماری تعلیمی اور دفتری زبان ہے، اس کے  علاوہ رسم الخط ایک ہونے کی وجہ سے ہم عربی اور فارسی بھی پڑھ  سکتے ہیں ، ہندوستان کی زبان ہندی ہم پڑھ  نہیں سکتے لیکن بول اور سمجھ سکتے ہیں ”
” یہ حیرت انگیز ہے” اس نے اپنی آنکھوں کو مزید پھیلا کر کہا۔
” ویسے تم یہاں استنبول میں کیا کر رہے ہو” اس نے کچھ خاموشی کے بعد پوچھا۔
“میں۔۔۔ میں یہاں کسی سے ملنے آیاتھا، کافی دن کے بعد آج ملاقات ہوئی  لیکن ابھی تک تعارف نہیں ہو سکا” میں نے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
” ایسا کس طرح ممکن ہے، تم کسی سے ملنے اتنی دور سے آؤ، اس سے ملاقات بھی کرو اور تعارف بھی نہ ہو” وہ میرے ذو معانی جملے کو سمجھ نہیں پائی  تھی۔
“ایسا بالکل ممکن ہے کیونکہ تم نے اب تک اپنا نام نہیں بتایا”۔ میں نے مسکراتے ہوئے وضاحت کی۔
“اوہ” وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔ اس کی ہنسی کسی جلترنگ کی مانند تھی۔ اس کے کھلکھلاتے چہرے کے سامنے، باسفورس کے کنارے گزرنے والی رات کا حسن بھی ماند تھا۔

“میرا نام عائشہ ہے۔ سوریا، حلب کی رہنے والی ہوں۔ استنبول دو ماہ پہلے آئی  ہوں ۔ یہاں “باہچے شاہر” یونی ورسٹی کی اسٹوڈنٹ ہوں۔ اکثر چہل قدمی کرنے یہاں آتی رہتی ہوں۔ وہ سامنے میری بہن اور خالہ موجود ہیں”.
میں نے اس کے اشارے کی سمت دیکھا تو ایک نو عمر لڑکی ساحل کے ساتھ لگی زنجیر کی باڑ کے ساتھ سیلفی لیتے ہوئے نظر آئی ، اس کے قریب ہی ایک عورت بچہ گاڑی میں موجود ایک بچے کو بہلانے میں مصروف تھی۔ دونوں کے سفید اسکارف انہیں عائشہ کا ساتھی بتا رہے تھے۔
“اپنے ملک پاکستان کے بارے میں اور کچھ بتاؤ” اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سوال کیا۔
“کیا بتاؤں ، ہم ہندوستان کا حصہ تھے لیکن تقریباً ستر سال پہلے ہم نے اسلام کے نام پر ہندوستان سے علیحدہ ایک ملک بنایا جس کا نام پاکستان ہے” ۔ میں نے ایک سرسری سا تعارف دے دیا۔

“اسلام کے نام پر بنا ہے تو یقینا مسلمانوں کی اکثریت ہوگی، اور ان کے مختلف فرقے سوریا کی طرح آپس میں جنگ میں مصروف ہوں گے”۔ اس کے لہجے میں ایک عجیب طنز محسوس ہوا۔
یہ سوال میرے لیے تلخ تھا۔ پارہ چنار سے پنڈی کے راجہ بازار تک اور جھنگ سے کراچی تک نجانے کتنے ہی  بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات، کفر کے فتوے، خود کش جیکٹس اور نجانے کیا کچھ پل بھر میں میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔
“گو ہمارے ملک میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن ایران کے بعد سب سے زیادہ شیعہ مسلمان بھی ہمارے ملک ہی میں ہیں، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے فرقوں کے ماننے والے ہیں ۔ ان سب کے باوجود آپس میں کوئی  خانہ جنگی نہیں، ہم سب ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں” ۔ یہ جواب دیتے ہوئے میں اس سے آنکھیں چرا رہا تھا لیکن اسے احساس نہیں ہوا۔

” اگر ایسا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ امن سے رہنے ہی میں سب کا بھلا ہے بصورت دیگر ہماری حالت تمہارے سامنے ہے”۔ اس نے ایک گہری سانس بھری۔ “اپنے شہر کے بارے میں کچھ بتاؤ ۔ کیا وہ بھی استنبول کی طرح ہی خوبصورت ہے”
یہ سوال پہلے سوال سے زیادہ مشکل تھا۔
اب میں اسے کیا بتاتا۔ اختیارات کی جنگ، لوڈ شیڈنگ، ابلتے گٹر، کچرے کے ڈھیر، نو گو ایریاز کہاں سے شروعات کرتا۔
“میرا شہر کراچی میرے لیے صرف استنبول سے ہی نہیں دنیا کے ہر شہر سے زیادہ خوبصورت ہے۔ میرا شہر کراچی میرا گھر ہے، جس کی گلیوں میں کھیلتے میرا بچپن گزرا، جس کی درسگاہوِں میں میں نے تعلیم حاصل کی، جہاں کا کلچر میرا کلچر ہے، زبان میری زبان، ہر محلے میں میرے دوست احباب موجود ہیں، جہاں کا کوئی  چوراہا، کوئی  سڑک، کوئی  بازار میرے لیے اجنبی نہیں۔ میرا شہر دنیا میں سب سے خوبصورت ہے کیونکہ وہ میرا شہر ہے”۔
میں خاموش ہو گیا۔ عائشہ بھی خاموش تھی ۔ ماحول میں مکمل سکوت تھا۔ “بیشکتاش” سے ایشین کنارے پر جانے والی آخری مسافر بردار کشتی کی چمنی سے نکلتی آواز نے اس سکوت کو توڑ دیا۔ وہ کشتی اب ہمارے سامنے ایشیا کی طرف بڑھ رہی تھی۔

“تمہیں پتا ہے، میرا شہر حلب بھی دنیا کا سب سے خوبصورت شہر تھا۔ پوری دنیا سے لوگ اسے دیکھنے آتے تھے۔ کشادہ شاہراہوں پر گاڑیاں دوڑتی تھیں۔ پر رونق بازار خریداروں سے بھرے ہوتے تھے۔ اسی شہر میں میں اپنے والد کی انگلی پکڑ کے اسکول جاتی تھی۔ جس شہر میں میرا گھر تھا ، جس کے سامنے میں اپنے بھائی  اور بہن کے ساتھ کھیلتی تھی۔ حلب میرا شہر جہاں کی کھجوروں کی مٹھاس آج بھی میری زبان پر ہے۔ جس کی فضا کی خوشبو آج بھی میری سانسوں میں ہے۔ حلب جس کی مٹی میں میری سات پشتیں دفن ہیں، وہ حلب جسے چھوڑنے کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے”۔

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ پھر بولی “پھر اچانک حالات تبدیل ہونے لگے۔ میرا شہر کھنڈر ہونا شروع ہو گیا۔ فرقہ واریت اور ہوس اقتدار کا اژدہا بڑوں کے ساتھ بچوں کو بھی نگلنا شروع ہو گیا، زمین پر مسلح درندوں کے جتھے ٹینکوں سے آگ برساتے تھے۔ آسمان سے جہاز آگ کا مینہ برساتے تھے۔ کئی  سو سال سے آباد شہری زندگی بچانے کو نقل مکانی کرنا شروع ہو گئے۔ ایک دن میرا بھائی  اور والد دکان پر گئے تو واپس نہیں آئے ان کی سوختہ لاشیں آئیں ۔  ہماری دکان بمباری کی زد میں آگئی  تھی۔ اب حلب میں ہمارے لیے کچھ نہیں بچا تھا”۔
آنسو اس کی سیاہ آنکھوں سے نکل کر رخساروں پر بہہ  رہے تھے۔
“اب گھر میں میں، میری بہن اور والدہ ،بچے تھے۔ ایک قافلے کے ساتھ ہم بھی اپنا بچا کچا سامان سمیٹ کر یمن ہجرت کر گئے لیکن جب وہاں بھی حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو ہم ترکی پہنچ گئے۔ یہاں ریزیڈنٹ پر مٹ دیا گیا ہے۔ تعلیم، خوراک اور گھر کی سہولت بھی دی گئی  ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود یہ میرا شہر حلب نہیں ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کی بہن اسے واپس چلنے کااشارہ کر رہی تھی ۔ اس نے ٹشو سے آنسو صاف کیے اور مجھے الواداع کہا .میں صرف ہاتھ سے اشارہ کر سکا کچھ بولنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن آواز میرے حلق سے نہ نکل سکی ۔ میرے گرد اب کوئی  نہیں بچا تھا۔ ویٹر چائے کی خالی پیالی لیجا چکا تھا۔ ہوٹل پر اب اکا دکا لوگ بچے تھے۔ باسفورس کے اس پار “اُسکدار”کی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ داہنی طرف زمین پر لگی فلش  لائٹس کی روشنی میں “دولما باہچےمسجد” کی چمکتی عمارت سمندر کی کنارے جڑے کسی ہیرے کی مانند جگمگا رہی تھی۔ عمارت پر نیلے  شیشے  اسے عثمانی  دور  کی  اور مساجد سے ممتاز کرتے ہیں ۔  اس سب مہارت و عظمت کے باوجود اس کے معمار پون صدی بھی مزید اپنی حکومت قائم نہ رکھ سکے اور ان کی اگلی نسلیں جلا وطنی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہو گئیں۔ شاید وہ بھی مرتے دم تک استنبول کو یاد کرکے آنسو بہاتے ہوں گے۔
میں اداسی  کی انہی سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ کہ ان سوچوں کا تسلسل میرے کندھےپر کسی  کے لمس سے ٹوٹ گیا۔
“سائیں کیا چلنے کا پروگرام نہیں”
علی بخش کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔
“علی بخش! کیا سفر ختم ہوا”
میرے دریافت کرنے پر وہ مسکرایا اور بولا۔
“درویشوں کا سفر اتنی جلدی ختم نہیں ہوتا”!

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply