مانچسٹر سے مراکش تک(حصّہ دوم)-فرزانہ افضل

آج مراکش میں ہمارا تیسرا دن تھا ناشتے کے بعد ہم سب گائیڈ کے ہمراہ باغات کی سیر کے لیے روانہ ہوگئے۔ گیٹ پر بہت لمبی قطار تھی مگر چونکہ ہماری گائیڈ فاطمہ زہرہ نے پہلے سے ٹکٹ لے رکھی تھی لہذا ہم ترجیحی بنیادوں پر سیدھے باغ میں داخل ہوگئے۔ اس گارڈن میں سیاحوں کا بہت رش تھا۔ لوگ جگہ جگہ رک کر تصویریں اور ویڈیو بنا رہے تھے ہم نے بھی خوب فوٹو گرافی کی۔ گارڈن میں دو میموریل بنے ہوئے ہیں۔ ایک میموریل پیئر برژ کا ہے جو ایف سین لارن کا فیشن بزنس میں پارٹنر تھا۔ دوسرا میموریل ایف سین لارن کا ہے ۔ گارڈن کا نام اسکے ڈیزائنر کے نام پر رکھا گیا جو ایک فرانسیسی لینڈز اسکیپ پینٹر جیکوئس مے یورل تھا جس نے یہ باغ 1919 میں ڈیزائن کیا تھا۔ 1980 کے بعد سے یہ باغ مشہور فیشن ڈیزائنر اور آرٹسٹ ایف سین لارن کی ملکیت تھا۔ جو 2008 میں وفات پا چکے ہیں۔ ایک کمرے میں ایف سین لارن کے محبت کے موضوع پر بنائے گئے لو پوسٹرز آویزاں ہیں۔ باغ میں تالاب اور مختلف قسم کے درخت خاص طور پر کیکٹس کے بہت خوبصورت ڈیزائن کے پلانٹ لگے ہوئے ہیں۔

وہاں پر چہل قدمی کے بعد ہم مینارہ گارڈن گئے مینارہ گارڈن مراکش کا مشہور ترین باغ ہے۔ بارھویں صدی میں المحد حاکم عبدالمومن نے مراکش فتح کرنے کے بعد اس باغ کو تعمیر کیا۔ یہ باغ سو ایکڑ کے رقبے پر محیط ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا وسیع و عریض تالاب ہے جس میں پانی کا ذخیرہ کیا جاتا ہے ۔صدیوں پہلے مراکش میں روایتی طریقہ کار کے تحت اٹلس کے پہاڑ سے شہر میں پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ مینارہ باغ میں مختلف قسم کے درخت جن میں کھجور، زیتون اور مختلف فروٹ شامل ہیں۔ دھوپ بہت اچھی تھی سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک کر رہا تھا مگر اس کے باوجود زیادہ گرمی نہ تھی کیونکہ نومبر کا مہینہ تھا۔

اسکے بعد وہاں سے روانہ ہوئے مشہور و معروف اور مہنگے ترین فائیو سٹار ہوٹل لا میمونیہ کے سامنے سے گزر ہوا۔ دوپہر کے کھانے کے لئے ہم مراکش کی ایک مقامی فیملی کے گھر مدعو تھے۔ روایتی مگر پُر تکلف دعوت کے بعد ہم سہ پہر چار بجے ہوٹل یعنی ریاد واپس پہنچے۔ ہمیں تیار ہونے اور آرام کے لیے صرف ایک گھنٹے کا وقت دیا گیا کیونکہ پانچ بجے ہمیں صحرا نوردی کے لئے جانا تھا۔ میں مراکش پہلے بھی ایک بار جا چکی ہوں ۔ مگر صحرا دیکھنے کا اتفاق نہ ہو سکا تھا۔ لہذا میں بہت خوش اور پُرجوش تھی۔ ہم سب تیار ہو کر اپنی گاڑی میں سوار ہو کر اگافے صحرا پہنچ گئے۔ جہاں پر اونٹ کی سواری کا پہلے سے انتظام موجود تھا۔ میں تو اونٹ کی سواری بچپن سے لے کر اب تک کئی بار کر چکی ہوں لہذا میں نے اور ایک اور دوست نے اصرار کیا کہ ہم تو چار پہیوں والی کواڈ بائیک چلائیں گے۔ یہ صحرا کی ایک مشہور سرگرمی ہے جسے نوجوان خاص طور پر بہت لطف اندوز ہوتے ہیں ۔کہتے ہیں دل جوان ہونا چاہیے،  ہم کواڈ  بائیک پر سوار ہو گئے اور آدھا گھنٹہ   ہمارے آگے بایئک کا مالک اپنی بائیک پر سوار تھا اور ہمیں اس کے پیچھے پیچھے بائیک چلانا تھی اس نے ہمارا فون ہم سے لے لیا اور پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے ہماری ویڈیو بناتا گیا اس نے ہماری کافی تصویریں بھی لیں اور وعدہ لیا کہ ہم سوشل میڈیا پر اس کی مارکیٹنگ کریں گے ہم نے حسب عادت اپنا وعدہ نبھایا۔ گروپ کے بقیہ افراد جنہوں نے اونٹ پر سواری کی تھی ان کی تو ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ وہ اپنے اس تجربے سے کچھ خوش دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔

اس کے بعد ہم صحرا میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں گئے یہ سب انتظام ٹور کمپنی نے کیا تھا بہت ہی خوبصورت ماحول تھا ہم نے کھانا کھایا سامنے ایک بڑے سے گول دائرے کی شکل میں زمین کھود کر اینٹوں کے بینچ بنائے گئے تھے جن پر رنگارنگ مراکشی  دریاں اور تکیے بچھے ہوئے تھے ۔ درمیان میں لکڑیاں جمع کر کے ایک بہت بڑے الاؤ کے لیے تیاری تھی۔ اس کھلے میدان یا بڑے صحن میں ایک طرف جھولا ، دوسری جانب لکڑی کے بینچ اور ارد گرد کرسیاں اور میزیں رکھی ہوئی تھیں یہ جگہ صحرا کے بیچوں بیچ تھی، ارد گرد ریت کا سمندر دکھائی دے رہا تھا، سورج ڈھلنا شروع ہو گیا تھا اور یہ منظر انتہائی خوبصورت دکھائی دے رہا تھا ، صحرا کی ریت سنہرے رنگ کی دکھائی دے رہی تھی۔ جب تک کھانا نہیں آیا ہم نے گھوم پھر کر ادھر ادھر مختلف پوز میں تصویریں کھینچیں۔ کھانے کے بعد گانے بجانے والے 3 افراد نے گروپ میں اپنی پرفارمنس پیش کی۔بحر میں ہر میز  اس پر جا کر مراکش کی زبان میں گانا گاتے ہوئے ہر شخص کا نام پوچھتے اور اس کو بلا کر اپنے ساتھ ناچنے کی دعوت دیتے۔ اور پھر لوگ ان کو ٹپ دیتے ،کچھ لوگوں نے اس میں حصہ لیا اور کچھ جھجک کے مارے نہیں اٹھے جب وہ ہماری میز پر آئے اور ہمارا نام پوچھ کر ہمیں بلایا تو ہم تو خوشی خوشی اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے ساتھ روایتی ناچ میں شریک ہوگئے۔ کھانے کے بعد سب لوگ کھلے آسمان تلے بنے اینٹوں کے بینچوں پر الاؤ کے گرد بیٹھ گئے۔ الاؤ جل اٹھا تھا، جو فضا کی خنکی کو کم کرنے میں مدد دے رہا تھا ، ریسٹورنٹ کے مالکان نے تمام لالٹینیں بجھا دیں تاکہ صرف الاؤ کی روشنی میں ہی گہرے نیلے آسمان پر جگمگاتے ہوئے لاتعداد ستاروں کا نظارہ کیا جا سکے۔ سبحان تیری قدرت، کیا نظارہ تھا اور کیا سماں تھا۔ برطانیہ میں رہتے ہوئے تو صاف آسمان کم ہی دکھائی دیتا ہے اور کبھی ایک آدھ ستارہ نظر آ جاتا ہے۔ اردگرد صحرا کی ریت بیچوں بیچ یہ خوبصورت جگہ، ہم نے خدا کی قدرت کا دل کی آنکھ سے نظارہ کیا اور اس ماحول کو اپنے اندر سما لیا صحرا کا یہ تجربہ میری زندگی کے خوبصورت ترین تجربات میں سے ایک ہے۔

اگلے دن ہمارا پروگرام ایسویرا جانے کا تھا جو ساحل سمندر ہے راستے میں ہم زیتون کے ان درختوں کے پاس رُکے جن پر بکریوں کے مالک نے بکریوں کو درخت پر جہاں رکھا ہوتا ہے یہ سیاحوں کے لیے ایک انوکھی چیز ہے اور بکریوں کے مالک کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہے۔ بہت سی بکریاں بڑے سکون سے درخت کی شاخوں پر کھڑی ہوتی ہیں۔ ٹورسٹ بسیں یہاں پر رُکتی ہیں۔ اور ٹورسٹ اس درخت اور بکریوں کے ساتھ خوب تصاویر بناتے ہیں۔ اگلا سٹاپ آرگن آئل کی فیکٹری تھا جہاں پر عورتیں زمین پر بیٹھ کر تیل نکالنے کا تمام طریقہ کار دکھا رہی ہوتی ہیں۔ اور گائیڈ ساری وضاحت کرتے جاتے ہیں۔ ہم سب نے وہاں سے آرگن آئل سے بنی کچھ چیزیں خریدیں۔ اس کے بعد ہم ایسویرا کے ساحل پر پہنچے جہاں تازہ مچھلیوں کی بُو بسی تھی ہم نے سب اندرونی گلیاں دیکھیں ۔ گائیڈ نے ہمیں ایک بڑا سا گیٹ دکھایا جس کو گیٹ آف ٹالرنس یعنی برداشت کا دروازہ کہا جاتا ہے اس پر کئی مذاہب کے نشان لگے ہوئے تھے اس کا مقصد یہی ثابت کرنا تھا کہ  ہر مذہب کے لوگ مراکش میں بھائی چارے سے رہتے ہیں۔ کھانا کھایا اور اصلی چاندی کی ہلکی پھلکی جیولری کی شاپنگ کی ،اور پھر واپس آ گئے

Advertisements
julia rana solicitors

باقی تفصیل تیسرے حصے میں پڑھیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply