کُتے کا کھانا/ڈاکٹر نویدخالد تارڑ

ویران سی اس کٹیا میں رات کے پچھلے پہر پھیلے ہوئے اس سناٹے کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی ماں کی کھانسی کی آواز توڑ دیتی تھی اور وه خاموشی سے کٹیا کی ٹوٹی ہوئی چھت سے باہر پھیلے ہوئے گھپ اندھیرے کو تکے جا رہا تھا۔

نیند کی شدت کی وجہ سے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے مرچیں کوٹ کوٹ کے اس کی آنکھوں میں بھر دی ہوں لیکن پیٹ کی بھوک اسے سونے نہیں دے رہی تھی۔ وه سونا چاہتا تھا لیکن جاگنے پہ مجبور تھا۔ دو دن سے خالی پیٹ اس کی ہزار کوشش کے باوجود اسے سونے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔

گیاره سالا فیقا شہر کے ایک بڑے چوک میں بڑی بڑی گاڑیوں کے شیشے صاف کیا کرتا تھا جس کے بدلے میں اسے گالیوں اور دھکوں کے علاوه کبھی کبھی کسی سے پانچ دس روپے بھی مل جاتے تھے اور سارے دن کے پیسے ملا کر وه شام کو کھانا اور بیمار ماں کے لئے ایک ڈسپنسر کی لکھی گئی سستی دوائی بھی لے کر جاتا تھا مگر دو دن سے وه بیماری اور درد سے تڑپتی ماں کے سرہانے سے الگ نہیں ہو سکا تھا ، کمائی کیسے کرتا۔
جو بچے کھچے کھانے کے ٹکڑے تھے وه اس نے ماں کو کھلا دیے تھے لیکن خود کچھ بھی کھائے بغیر ماں کے سرہانے بیٹھا انجانے سے خدا سے ماں کے ٹھیک ہو جانے کی دعائیں مانگ رہا تھا۔ اس خدا سے جس کے متعلق وه کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ بس ایک دفعہ ماں نے اس سے کہا تھا کہ
” پتر جب بھی کوئی مسئلہ ہو الله کو بتایا کر ، اس سے مانگا کر ، وه مجھ سے بھی زیاده پیار کرتا ہے تجھ سے ”
ماں کی یہ بات اس کے معصوم اور کچے ذہن پہ نقش ہو گئی تھی۔

اب جب بھی ماں کو درد ہوتا یا کھانسی کا دوره پڑتا ، یا اسے کسی بھی گاڑی والے سے پیسے نہ مل رہے ہوتے , وه آہستہ سے الله کو بتاتا اور اس سے کہتا کہ وه اس کی مدد کرے۔ کبھی کبھی تو اس کا مسئلہ حل ہو جاتا لیکن کبھی کبھی مشکل دور نہ ہوتی تو وه خود کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتا کہ شائد الله جی مصروف ہوں گے۔ جس طرح بچپن میں کبھی کبھی اس کی ماں بھی اس کے بار بار بلانے کے باوجود کسی کام کی وجہ سے اس کے پاس نہیں آ پاتی تھی۔ لیکن اس دفعہ تو شائد الله جی زیاده ہی مصروف تھے کہ دو دن سے سن ہی نہیں رہے تھے۔

وه کل سے ماں سے دور نہیں ہو رہا تھا۔ اسے ڈر لگتا تھا کہ ماں کو اس کے بغیر پتا نہیں کیا ہو جائے۔ اسی وجہ سے وه کام کے لئے بھی نہیں جا سکا تھا مگر اب بھوک اس کی برداشت سے باہر ہو چکی تھی۔ اب تو گدلی آنکھوں سے نمکین پانی بھی نہیں بہہ رہا تھا۔

رات کی کالی چادر میں صبح کی سفیدی کا داغ لگنا شروع ہو گیا تھا تو اس نے اپنے نقاہت بھرے وجود کو سمیٹ کر قدموں پہ کھڑا ہونے کی کوشش کی لیکن لڑکھڑا کر نیچے گر گیا۔ بائیں پہلو پہ گرتے ہوئے اسے اپنے بائیں بازو میں درد کا جھٹکا سا لگا اور بہت دیر سے رکا ہوا نمکین پانی آنکھوں سے رواں ہو گیا۔ کچھ دیر تک وہیں گرے رہنے کے بعد اس نے دوسری کوشش کی اور کھڑا ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

اس نے اپنا گندا سا کپڑااور چھوٹی سی بالٹی اٹھائی اور گلی میں نکل گیا۔ شہر کے بڑے چوک کی طرف جاتے ہوئے اس نے راستے میں لگے میونسپل کے نل سے سے کپڑے کو اچھی طرح دھو کر صاف کرنے کی کوشش کی تھی اور دوسرے ہاتھ میں موجود چھوٹی سی بالٹی میں پانی بھی بھر لیا تھا۔

اسے چوک میں کھڑے ہوئے دو گھنٹے ہو رہے تھے۔ بے شمار گالیوں اور دھکوں کے ساتھ اسے دو گاڑی والوں سے دس دس روپے بھی ملے تھے۔ وہ چاہتا تھا دو تین اور گاڑی والوں سے پیسے مل جائیں تو وہ کچھ کھانے کو لے کر ماں کے پاس گھر چلا جائے۔ پتا نہیں ماں کتنی تکلیف میں ہو گی۔ اشارہ بند ہوا تو سڑک پہ گاڑیوں کی لمبی قطار لگ گئی۔
اس نے گاڑیوں کے آگے والے شیشے پہ کپڑا پھیرنا شروع مگر جواب میں صرف گالیاں اور دھتکار ہی مل رہی تھی۔ وہ ہر گاڑی والے سے دھتکار سنتا ہوا قطار کی پچھلی طرف چلتا جا رہا تھا۔ بہت سی گاڑیوں کو کراس کر کے وہ ایک بڑی سی گاڑی کے قریب پہنچ گیا۔ اس چمچماتی گاڑی کی اگلی سیٹ پہ ڈرائیور بیٹھا ہوا تھا لیکن اس کی نظریں پچھلی سیٹ پہ جم گئیں۔ وہاں ایک ماڈرن ادھیڑ عمر عورت بیٹھی ہوئی تھی اور اس کی گود میں ایک چھوٹا سا صاف ستھرا کتا بیٹھا دودھ پی رہا تھا۔ وہ عورت اپنے ہاتھوں سے اسے اپنے دائیں طرف سیٹ پہ رکھے ہوئے بسکٹوں کے پیکٹ سے بسکٹ نکال نکال کے کھلا رہی تھی۔

فیقا بھیک نہیں مانگتا تھا لیکن اس وقت ایک دم اس کا دل کیا کہ وہ اس سے کچھ کھانے کو مانگ لے۔ جو کتے کو کھلا رہی ہے وہ انسان کو ضرور کھانے کو دے گی۔ کتے کو کھلانے والی انسان کو بھوکا کیسے مار سکتی ہے۔
اس نے فرنٹ شیشے پہ پھیرنے کے لئے بالٹی سے کپڑا نکال لیا تھا۔ لیکن یہ منظر دیکھ کر اس نے کپڑا واپس بالٹی میں ڈالا اور پچھلی سیٹ کے شیشے پہ جا کے صدا لگائی۔
” کچھ کھانے کو دے دو میم صاحب ، میں دو دن سے بھوکا ہوں ”

صاف ستھرے کتے کو اپنے ہاتھوں سے بسکٹ کھلاتی اس عورت نے نفرت اور نخوت سے کھڑکی سے باہر کھڑے اس دس بارہ سال کے گندے سے بچے کو دیکھا۔ بچے پہ نظر پڑتے ہی اس کے اندر حقارت کی لہر سی دوڑ گئی ، اس نے نفرت سے منہ پھیر لیا اور ہاتھ کے اشارے سے اس کو وہاں سے دفع ہو جانے کا اشارہ کر دیا۔ لیکن وہ ڈھیٹ بچہ وہاں سے ہٹنے کو تیار نہیں لگ رہا تھا اور مسلسل کچھ کھانے کو مانگے جا رہا تھا۔ اس عورت نے غصے سے بچے کی طرف دوبارہ دیکھا ، تھوڑا سا شیشہ نیچے کر کے اس کو دو تین گالیاں دے کر وہاں سے دفع ہو جانے کو کہا۔ اور ناک پہ ہاتھ رکھتے ہوئے جلدی سے شیشہ بند کر لیا۔
مگر وہ بچہ تو وہاں سے ہٹنے کو تیار ہی نہیں تھا ، وہ کھڑکی سے لگا مسلسل صدا دیے جا رہا تھا۔ عورت کا غصہ اب اپنے عروج پہ پہنچ گیا تھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتی اشارہ کھل گیا اور اس کے ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔

فیقے نے گاڑی کو آگے بڑھتے دیکھا تو دکھ کی شدت سے اس کے دل میں بڑی عجیب خواہش جاگی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ کتا بن جائے۔ اسے اپنے انسان ہونے پہ افسوس ہو رہا تھا۔ وہ الله جی سے کہنا چاہ رہا تھا کہ وہ انسان کیوں بنا ، وہ کسی کتے کا بچہ کیوں نہیں بنا۔
اس نے گاڑی کو آگے بڑھتے دیکھا اور پھر اس گاڑی کے اشارہ کراس کرنے سے پہلے ہی دوبارہ اشارہ بند ہو گیا اور گاڑی دوبارہ رک گئی۔

فیقے نے پہلی بار بھیک مانگی تھی اور اس سے یہ ذلت برداشت نہیں ہو رہی تھی کہ کتے کو کھلانے والی نے اسے دھتکار دیا ہے۔ وہ بھاگتا ہوا دوبارہ گاڑی کے پاس پہنچ گیا اور پھر کھڑکی پہ دستک کے ساتھ کھانے کی صدا دی۔ اس دفعہ اس کی صدا میں شدت تھی۔ اس عورت کا غصہ ابھی پوری طرح کم بھی نہیں ہوا تھا کہ اس نے پھر سے اس بچے کو کھڑکی پہ دستک دیتے دیکھا تو اس کا دماغ غصے کی شدت سے بھک سے اڑ گیا۔

فیقا اب دونوں اطراف کی سڑکوں کے درمیان پتلی سی اینٹ کی پٹی پہ کھڑا تھا۔
اس کی نظریں اس عورت پہ جمی ہوئی تھیں۔ پھر اس نے عورت کو غصے سے گاڑی کا دروازہ کھول کے نیچے اترتے دیکھا تو وہ ڈر کے دو قدم پیچھے ہٹا اور اس پٹی سے اتر کے دوسری طرف والی سڑک پہ جا کھڑا ہوا۔ عورت نے گاڑی سے نکلتے ہوئے بچے کو ڈر کے پیچھے ہٹتے دیکھا تو اس بات نے اس کے طیش اور نفرت کو مزید ہوا دی۔

“ذلیل ، کمینے میرے کتے کے حصے کا کھانا کھائے گا تُو ”
عورت نے پھنکارتے ہوئے کہا اور پھر اپنا بھاری بھرکم ہاتھ فیقے کے منہ پہ جڑ دیا۔
گیارہ سالہ فیقا غصے ، نفرت اور پوری طاقت کے ساتھ مارے گئے اس تھپڑ کو سہنے کی کوشش میں لڑکھڑاتا ہوا مزید کئی قدم پیچھے چلا گیا، جہاں اشارہ کھلا ہونے کی وجہ سے دوسری طرف کی ٹریفک رواں تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسری طرف سے آتی اس تیز رفتار گاڑی کے ڈرائیور نے اچانک اس بچے کو سامنے آ کر گاڑی سے ٹکراتے دیکھا تو پوری قوت سے بریک لگائی لیکن گاڑی کے اگلے دو ٹائر چر چر کرتے رکنے کی کوشش میں اس نازک بدن کو کچلتے ہوئے گزر گئے۔ گاڑی سے اترتے اس شخص کی نظر اپنی گاڑی کے نیچے تیزی سے پھیلتے خون پہ پڑی۔ اس نے نیچے جھک کے دیکھا تو گاڑی کے اگلے اور پچھلے پہیوں کے درمیان کسی بچے کا گندا ، بے جان وجود نظر آیا۔ جس کی ادھ کھلی آنکھوں میں کرب اور اذیت کے احساس کے علاوہ کچھ سوال جھانک رہے تھے۔ فیقے کے جسم میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں نظر آ رہی تھی۔ وہ الله جی کے پاس جا چکا تھا۔ شاید یہ پوچھنے کہ وہ اتنے مصروف کیوں ہو گئے کہ دو دن سے اس کی بات ہی نہیں سن رہے یا شائد یہ پوچھنے کہ اسے انسان کے بجائے کتے کا بچہ کیوں نہیں بنایا۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply