اس کو ہسپتال میں داخل ہوئے آج تیسرا دن تھا اور میں ہر روز دفتر سے چھٹی کے بعد ملیر ہالٹ اس کی عیادت کرنے ہسپتال جاتا تھا۔ اس کے بوڑھے ماں باپ اپنی بیٹی کے سرہانے بیٹھے ملتے اور زیر لب اپنی بیٹی کی صحت یابی کی دعائیں مانگتے۔ یہی ایک بیٹی تو تھی جو ان کا سہارا تھی۔
آمنہ ایک نجی بنک کے کریڈٹ کارڈ بیچنے والے ڈیپارٹمنٹ میں بطور سیلز گرل کام کرتی تھی۔ ایک دن میرا اکاونٹ مینجر میرے پاس آیا اور کہنے لگا
“سر آپ کا کریڈٹ کارڈ بنوانا ہے”۔
میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔
“بھیا میں کریڈٹ کارڈ بنوانے کا شوقین نہیں ہوں”۔ مگر وہ ملتجیانہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ کہا
“سر وہ ایک لڑکی آئی ہے بہت غریب ہے اس کا ٹارگٹ پورا نہیں ہورہا ہے۔ دفتر میں ایک دو ڈائریکٹر صاحبان سے کارڈ بنوا کر دیدیئے ہیں اگر آپ بھی بنوا لیں تو بیچاری کا ٹارگٹ پورا ہوجائیگا”۔
ایک لمحہ سوچنے کے بعد میں نے لڑکی بلانے کا اشارہ کردیا۔
وہ جیسے ہی میرے روم میں آئی گویا چودھویں کا چاند میرے کمرے میں آن گھسا ہو ۔ پورا کمرہ منور ہوگیا۔ میں بے اختیار اپنی سیٹ سے اُٹھ گیا۔ اپنے اکاونٹ مینجر کو دیکھ کر میں جھینپ سا گیا۔ چھوٹے سے قد کی سرخ و سپید رنگت والی لڑکی دیکھ کر میں مبہوت ہوگیا۔ اس کے چہرے پر بچوں جیسی معصومیت تھی۔ سہمی سہمی سی جیسے بھیڑیوں کے غول میں کوئی بکری کا بچہ آن پھنسا ہو۔ میں نے اس کو بیٹھنے کا اور اکاونٹ مینجر کو باہر جانے کا اشارہ کردیا۔
“سر میرا نام آمنہ ہے۔ ۔”
میرے آس پاس جلترنگ سے بج اٹھے۔ اتنی مسحورکن آواز، جیسے وہ نہیں کوئی خوبصورت بلبل مجھ سے باتیں کررہا ہو۔ پتہ نہیں کب میں نے پانچ لاکھ کے کارڈ پر سائن کردیئے کب وہ چلی گئی۔ شام پانچ بجے مجھے ہوش آیا کہ وہ جاچکی ہے۔ میں اپنا بیگ اٹھا کر دفتر سے گھر آگیا مگر گھر آکر بھی وہ میرے حواسوں پر چھائی رہی۔
پندرہ دن بعد ہم دونوں دو دریا کے ایک اچھے ریسٹورنٹ میں ڈنر کرکے گویا اس بات کا اقرار کرچکے کہ اب ہم روز ملیں گے۔
مجھے جب آمنہ کی بیماری کا معلوم ہوا تو سیدھا ہسپتال جاپہنچا۔ اب میرا معمول تھا۔ اس کیلئے فروٹس لیکر جاتا، اس کی بوڑھی اماں سے ڈھیروں باتیں کرتا۔ اس کی اماں نے بتایا کہ بڑا بیٹا شادی کے بعد الگ ہوچکا ہے،لہذا اب آمنہ کی تنخواہ پر گزارہ ہے۔ تیسرے دن اماں کی آنکھوں میں مجھے امید کے دیئے جگمگاتے نظر آئے کہ یقیناً میں آمنہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنا لوں گا اور یہ سچ بھی تھا۔ میں نے پکا فیصلہ کیا تھا کہ میں آمنہ کو اپنی منکوحہ بنا کر دنیا کا ہر سکون دونگا۔
اس دن ہسپتال کے سارے بل چکانے کے بعد میں آمنہ کو ان کے دو مرلہ کے گھر لیکر آگیا جو ملیر ہالٹ ریل کی پٹڑیوں کے پاس کچی آبادی میں واقع تھا۔
گزرتے ہر دن کیساتھ میں اور آمنہ نئے مستقبل کے خواب دیکھنے لگے۔ میں نے طارق روڈ سے اس کیلئے ایک سونے کی انگوٹھی بھی خریدی اور اس کی انگلی میں پہنا دی۔ آمنہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اتنا صاحب حیثیت ہوکر اس کو اپنا سکتا ہوں مگر یہ سچ تھا کہ میں نے اس کو اپنا لیا تھا۔بس رسمیں باقی تھیں۔
وقت یوں ہی گزرتا رہا کہ ایک دن میں کسی دوست کو ایئرپورٹ سے اٹھا کر کلفٹن میں واقع گیسٹ ہاؤس لیکر گیا جہاں انھوں نے قیام کرنا تھا۔ گیسٹ ہاؤس میں داخل ہوکر مجھے اندازہ ہوا کہ گیسٹ ہاؤس میں قیام کے علاوہ بھی بہت کچھ ہورہا ہے۔ ریسیپشن پر بیٹھی ہوئی لڑکیاں مہمانوں کی پسند کے حساب سے ان کے کمروں میں بھجوائیں جاتیں۔ میں نے اپنے دوست کی طرف حیرت سے دیکھا تو انھوں نے معنی خیز انداز میں مجھے دیکھا اور کہا۔
“میں دو تین دن ریلیکس ہونے آیا ہوں پلیز اپنے پندونصائح اپنے پاس رکھیں”۔
یہ کہہ کر وہ کاؤنٹر پر بیٹھی لڑکی سے پوچھنے لگا
“کوئی اور لڑکیاں ہیں؟”۔
اس نے اندرونی دروازے کی طرف اشارہ کیا جہاں اٹھارہ سال کا ایک لڑکا مستعد کھڑا تھا۔ دوست اس لڑکے کیساتھ ملحقہ کمرے میں چلا گیا اور میں ریسیپشن پر اس کا انتظار کرنے لگا کہ باہر آتے ہی اس سے اجازت لوں گا۔
پانچ منٹ بعد وہ ایک لڑکی کیساتھ باہر نکلا جس نے مختصر لباس پہنا ہوا تھا اور اس کے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے ایک انداز سے چلی آرہی تھی۔ میری آنکھیں پتھر کی ہوگئیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے خود میں نہیں ہوں اور کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہوں۔ آمنہ ۔۔۔ کو دیکھ کر میں جیسے ساکت ہوگیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں