رئیسہ بیگم/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ(مقابلہ افسانہ نگاری)

اس دن جب دروازہ دھڑدھڑایا گیا تھا تو ایک لمحے کو ہم سب ٹھٹک گئے تھے کیونکہ اس طرح دروازہ پیٹنا معمول کی بات نہیں تھی۔ ابو نے دروازہ کھولا تو ہم سب دروازے پہ ہی نظریں جمائے صحن میں کھڑے تھے۔ لیکن کاش میں اس لمحے وہاں صحن میں کھڑی نہ ہوتی، بلکہ اس گھر میں ہی نہ ہوتی لیکن مجھے تو وہیں پہ ہونا تھا تاکہ میں دیکھ سکوں کہ قیامت کی ابتدا ء کیسے ہوتی ہے۔ میں محسوس کر سکوں کہ سینے میں دل کیسے پگھلتا ہے۔

دروازہ کھلا تو میرا بھائی اندر آ گیا ، مگر چل کے نہیں ۔ اس کا چارپائی پہ پڑا جسم کسی اور کے کندھے پہ تھا۔ میں نہیں دیکھ سکی کہ وہ کندھا کس کا تھا کیونکہ میرا سارا دھیان بھائی پہ جم گیا تھا ۔ بھائی جو چارپائی پہ ساکت پڑا تھا لیکن وہ چارپائی ساکت نہیں تھی ، اس سے قطرہ قطرہ لہو ٹپک رہا تھا ۔

اور وہ لہو کے قطرے زمین پہ نہیں میرے دل پہ گر رہے تھے ۔ میں سکتے میں تھی اور سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ لہو جسے میرے بھائی کے جسم میں بہنا تھا وہ میرے دل پہ کیوں ٹپک رہا ہے۔ لیکن میری ناسمجھی کے باوجود لہو ٹپکتا جا رہا تھا۔

چارپائی صحن کے درمیان میں رکھ دی گئی۔ ہر طرف چیخ و پکار مچی ہوئی تھی مگر میں چپ کر کے سفید جوڑے میں سجے اپنے بھائی کو دیکھے جا رہی تھی۔ اسے بڑا شوق تھا سفید جوڑا پہننے کا اور اس سفید جوڑے پہ وہ ذرا سا داغ بھی برداشت نہیں کرتا تھا مگر اب وہ جوڑا سفید کہاں تھا۔ اب تو قمیص لال رنگ میں رنگی ہوئی تھی اور اس لال رنگ میں سے کہیں کہیں سفیدی جھلک رہی تھی ۔

84 سالہ رئیسہ بیگم کے لیے تہتر سالہ پرانا ماضی کریدنا کتنا کربناک تھا ، میں اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا تھا۔  میں بس سر جُھکائے ان کو سن رہا تھا اور وہ شاید میری موجودگی سے بے خبر ہو کر اپنے دھیان میں بولے جا رہی تھیں۔

” اس دن چارپائی پہ پڑے اس وجود نے میرے ماں باپ کی شخصیت بدل کر رکھ دی تھی۔ میں نے کبھی اپنے باپ کو اونچی آواز میں بولتے نہیں سنا تھا ، وہ جب بھی بات کرتا تو بہت باوقار انداز میں بولتا۔ جب بھی بیٹھتا بہترین نشست پہ بیٹھتا مگر اس دن میرا باپ چارپائی کے دائیں طرف زمین پہ بیٹھا دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور میری ماں جو پردے کا بہت خیال رکھتی تھی ، اُس دن ننگے سر بھائی کے ساکت وجود سے لپٹی ہوئی تھی، اسے کوئی ہوش نہیں تھی کہ اس کی چادر کہاں گری ہوئی ہے۔ اس چارپائی پہ پڑا بے جان جسم آزادی کے لیے ادا کی گئی ہماری پہلی قیمت تھا۔ وہ دن قیامت کی ابتدا کا دن تھا، انتہا ابھی باقی تھی۔”

مجھے اب افسوس ہونے لگ گیا تھا کہ میں نے کیوں رئیسہ بیگم کو اپنی ہجرت کی داستان سنانے پہ مجبور کیا۔ وہ میرے کلینک پہ اکثر آیا کرتی تھیں ،آج یومِ آزادی پہ جب وہ آئیں تو مریضوں کے نہ ہونے کی وجہ سے میں   نے  ہجرت کی داستان سننے کی ضد باندھ لی تھی۔ اور اب مجھے لگ رہا تھا وہ داستان نہیں سنا رہیں ، آگ میں دہکتی لوہے کی راڈ سے میری روح پہ ضربیں لگا رہی ہیں۔”

تین دن تک ہم میں سے کسی کو کھانے پینے کا کوئی ہوش نہیں آیا تھا اور چوتھے دن کسی کو کھانے پینے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی تھی۔ میری ماں بڑی محبت کرنے والی خاتون تھیں، وہ پورے محلے کی خواتین کی غمگسار تھیں ،جب یہ افتاد آئی تو محلے کی ساری خواتین کھانے بنا بنا کر لاتیں اور ماں کا دکھ بانٹنے کی کوشش کرتیں مگر وہ جو سب کی غم خواری کر لیتی تھی، اس کا غم کوئی نہیں بانٹ پا رہا تھا۔

تیسرے دن ہمارے گھر صرف دو خواتین آئی تھیں ۔ ایسا نہیں تھا کہ باقی سب نے آنکھیں پھیر لی ہوں بلکہ باقی سب تو وہاں رہی ہی نہیں تھیں۔ وہ سب اپنے اپنے گھر والوں سمیت پاکستان ہجرت کر گئی تھیں۔ ہمیں بھی وہ سب جلد از جلد ہجرت کی بڑی سختی سے تاکید کر کے گئی تھیں۔  میرا باپ پہلے دو دن تو گرمی سے بے خبر گم صم بس چھت پہ پڑی چارپائی پہ پڑا آسمان کو دیکھتا رہا لیکن تیسرے دن بار بار آ کر ہجرت کی تاکید کرنے والوں کی وجہ سے اسے صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوا تو وہ بکھرے بالوں اور اجڑی شکل کے ساتھ ہجرت کی تیاری کرنے کے لیے گھر سے نکل گیا۔

پہلوٹھی کی اولاد سے زیادہ عزیز کچھ نہیں ہوتا اور میرا بھائی تو سات سال کے انتظار کے بعد میرے ماں باپ کی گود میں آیا تھا تو ان کو اس صدمے سے نکلنے میں وقت لگنا ہی تھا۔ہمارا محلہ مسلمانوں کا محلہ تھا، یہاں   سب گھروں کا آپس میں ملنا جلنا لگا رہتا تھا مگر اب وہاں ان تین کے علاوہ باقی سب گھر ویران پڑے تھے۔ اس شور شرابے والے محلے میں ایسی ویرانی   چھائی ہوئی تھی کہ گلی سے کتا بھی گزرتا تھا تو ہم سب کے دل دہل جاتے تھے۔

شام کو جب میرا باپ گھر آکر   میری ماں کے پاس بیٹھا اس سے باتیں کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں اتنی ویرانی تھی کہ میرا دھیان اس کی آنکھوں سے ہٹ کر آواز پہ جا ہی نہیں سکا۔ مجھے بس اتنی سمجھ آئی کہ اگلی صبح کسی قافلے کے ساتھ ہمیں پاکستان ہجرت کر جانا ہے۔ مگر یہ اگلی صبح کیسی ہو گی یہ کسی کو نہیں پتا تھا۔

رات کے پچھلے پہر جب حملہ ہوا تو میرے باپ نے مجھے صحن کے کونے میں ترتیب سے جڑے بستروں کے پیچھے اس طرح چھپا دیا کہ وہاں نظر ڈالتے ہوئے کوئی اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ ان بستروں کے پیچھے گیارہ سال کی  لڑکی چھپی ہوئی ہے مگر وہ میری ماں کے لیے پورے گھر میں کوئی اتنی اچھی جگہ نہیں ڈھونڈ پایا کہ جہاں اس کا چھپنا راز رہ پاتا۔ بستروں میں چھپنے کے بعد مجھ پہ سب سے بڑا عذاب دید کا اُترا تھا کیونکہ مجھے وہاں سے پورا صحن نظر آ رہا تھا۔ میں ساری عمر افسوس سے ہاتھ ملتی رہی ہوں کہ میری جگہ میرے باپ نے میری ماں کو کیوں نہیں چھپایا تھا۔  دنیا کو اس کی بہت ضرورت تھی۔ میرے ہونے نہ ہونے سے کسی کو فرق نہ پڑتا مگر میری ماں کے ہونے سے دنیا میں دکھ کم ہو جانے تھے۔ میری ماں کو میری والی جگہ پہ چھپایا جانا چاہیے تھا مگر وہ یہاں چھپ بھی جاتی تو کیا دید کا وہ عذاب سہہ پاتی جو میں نے سہہ لیا تھا۔ وہ جو جانوروں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی اس کے سامنے جب اس کے محبت کرنے والے شوہر کے بازو کاٹے جاتے تو کیسے خاموشی سے بستروں میں چھپی وہ یہ سب دیکھ پاتی۔ اس کے سامنے اگر مجھے بالوں سے کھینچتے ہوئے گھسیٹ کر صحن میں لایا جاتا تو کیا وہ برداشت کر لیتی؟ کبھی بھی نہ کر پاتی۔

یہ میں ہی تھی اتنی سنگدل کہ جس کی نظروں کے سامنے اس کے باپ کے بازو کاٹ دیے گئے اور دیکھتی رہی۔ کٹے ہوئے بازوؤں سے خون کے فوارے نکل رہے تھے اور میرا باپ ان بلوائیوں کو سر سے ٹکریں مارنے کی کوشش کر رہا تھا اور میں بس خاموشی سے دیکھ رہی تھی لیکن جب میری ماں کی جائے پناہ ڈھونڈ نکالی گئی اور اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے صحن میں لایا گیا تو میرا دل چاہا تھا کہ باپ سے کیا وعدہ توڑ دوں اور باہر نکل آؤں مگر میں ہمت نہیں کر سکی۔ میرے چار سالہ بھائی کو انھوں نے تھپڑوں کی برسات کے بعد صحن کی بیرونی دیوار پہ دے مارا تھا مگر جب اس سے بھی دل نہیں بھرا تو اس کو دوبارہ اٹھا لائے اور آپس میں کوئی اشارے کرنے لگے اور پھر میری آنکھوں نے وہ منظر دیکھا کہ جس کے بعد مجھے اپنی بینائی کا دکھ کھا گیا۔ اس ایک منظر سے بچنے کے لیے مجھے اندھا ہونا منظور تھا مگر اس منظر کو اپنی پوری سفاکی اور بربریت کے ساتھ دیکھنا میرے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا۔

کچھ درندوں نے میری ماں کو بالوں سے پکڑ رکھا تھا  ، میرا بھائی اس وحشی کے بازوؤں میں مچل رہا تھا اور میری ماں کی چیخیں صحن میں گونج رہی تھیں۔ جب اس منظر کا آغاز ہوا اور اس کے آغاز کے ساتھ ہی کچھ لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی تھی جس میں صرف اس بازوؤں میں مچلتے چار سالہ بچے کے رونے کی آواز گونج رہی تھی ۔میرے بھائی کے وجود کو ایک وحشی نے دوسرے وحشی کی طرف اچھالا اور دوسرے وحشی نے فوراً اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھا دیا، وہ ہاتھ جس میں نیزہ تھا۔ اس نیزے نے فضا میں اپنی طرف آتے اس بچے کا وجود سنبھال لیا۔ وہ نیزہ میرے بھائی کے پیٹ کو پھاڑتا ہوا اس کے نازک وجود میں دھنستا چلا گیا ، نیزے پہ گر کر بھائی کے رونے کی آواز تھم گئی اور اس کے تھمتے ہی میری ماں کے منہ سے چیخ نکلی۔ وہ چیخ کہ جس سے مجھے اپنے کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے ۔ مجھے لگا پوری دنیا زمیں بوس ہو جائے گی یا آسماں ہی ٹوٹ گرے گا۔ اس چیخ سے بلند آواز میں نے کبھی کسی کے حلق سے نکلتے نہیں دیکھی مگر اس چیخ سے کچھ نہیں ہوا  ، بس وہ سارے وحشی قہقہے لگانے لگے ۔ میرے بھائی کا وجود کچھ لمحوں کے لیے تڑپا اور پھر ساکت ہو گیا۔ اس کے جسم سےبہتا لہو نیزے کو بھگوتا ہوا نیزے پہ جمے اس وحشی ہاتھ سے ٹکرا رہا تھا  ،یہ وہی لہو تھا جو تین دن پہلے میرے دل پہ گر رہا تھا، یہ وہی لہو تھا جو میرے باپ کے جسم سے فوارے بن بن کر نکل رہا تھا مگر یہ لہو اس وحشی ہاتھ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پایا۔

وہ چیخ میری ماں کے منہ سے نکلنے والی آخری آواز تھی۔ اس کے بعد اس کے حلق سے کوئی آواز نہیں نکلی تب بھی جب اس کے کپڑے پھاڑ دیے گئے، تب بھی جب اس کے جسم کو درندگی سے بھنبھوڑا گیا۔ تب بھی جب اس کی گردن کاٹ کر اس کے سر کو باقی جسم سے علیحدہ کر دیا گیا۔ میں چاہتی تھی میری ماں ان سے اپنا آپ چھڑانے کی کوشش کرے مگر اس چیخ کے بعد تو وہ اس طرح بے جان ہو گئی تھی جیسے اسی صحن میں پڑا میرے باپ کا جسم ہو گیا تھا۔ چیخ کے ساتھ شاید اس نے اپنی روح بھی آسمان کی طرف بھیج دی تھی۔

میرے جسم پہ پسینے کے قطرے رینگ رہے تھے مگر تب مجھے سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ یہ پسینہ ہے یا نیزے پہ بہتا لہو میرے جسم سے پھوٹنا شروع ہو گیا ہے۔ میں سن ہو گئی تھی مجھے وقت کا ہوش رہا تھا نہ کسی اور چیز کا ۔ اگلی صبح جب ابو کا ایک دوست روتے ہوئے صحن میں پڑے لاشوں کو الٹ کر کہیں زندگی کی کوئی رمق ڈھونڈ رہا تھا تو میں نے اپنے بے جان جسم کا سارا زور لگا کر کچھ بستر نیچے گرا دیے تھے۔ ان لاشوں پہ جھکے ہوئے شخص نے بستروں کے پیچھے چھپے زندہ لاشے کو نکال کر اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ مجھے یاد نہیں پھر کیا ہوا، کس طرح وہ اپنے بچوں کے ساتھ مجھے بھی بچا کر پاکستان لائے۔ بس اتنا پتا ہے کہ پاکستان پہنچنے کے بعد آٹھ سال تک میں بول نہیں سکی تھی۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

رئیسہ بیگم چپ ہو گئی تھیں ، وہ رئیسہ بیگم جن کو اپنی ہجرت اور اس کے بعد بیتے آٹھ سالوں کا ایک لمحہ بھی یاد نہیں تھا مگر اپنی ہجرت سے پہلے گزرے تین دنوں کا ایک ایک منظر ان کی آنکھوں میں نقش تھا۔ ایسے جیسے وہ سب ابھی بھی ان کے سامنے ہی پیش آ رہا ہو۔ وہ اپنی ہجرت کی داستان سنائے بغیر ہی مکمل کر چکی تھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply