آپ نے اپنی زندگی میں بہت سی یادگار ملاقاتوں کا مشاہدہ کیا ہوگا۔ آج ہم آپ کو ایک ایسی ملاقات کا احوال بتائیں گے جو خلا میں ہوئی۔ اس ملاقات میں زمین سے آئے مہمانوں کا پُرتپاک استقبال کیا گیا اور اس منظر کو لاکھوں آنکھوں نے دیکھا۔30 نومبر 2022 کو بیجنگ کے وقت کے مطابق 7:33 پر، شینزو 14 کے خلابازوں نے اپنے خلائی گھر کا “دروازہ” کھولا اور “تھیان گونگ” میں دور دراز سے آنے والے شینزو15 کے مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا۔ اس کے بعد، تمام خلابازوں نے چینی “خلائی گھر ” میں ایک گروپ فوٹو کھنچوایا جو شاندار انداز میں تاریخ کا حصہ بن گیا۔یہ تاریخی ملاقات اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ چینی خلائی سٹیشن نے ترقی کے ایک نئے مرحلے میں قدم رکھ دیا ہے۔ یہ کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ چین دنیا میں ایک حقیقی خلائی طاقت بن گیا ہے۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے چین کی ایرو اسپیس انڈسٹری کی اس شاندار کامیابی پر بھرپور توجہ دی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں خاص طور پر دو اہم واقعات کا ذکر کیا: پہلا، 1960 کی دہائی کے اوائل میں، سوویت یونین اور امریکہ دونوں نے انسان برادر خلائی پروازوں میں کامیابی حاصل کی۔ اس وقت چیئرمین ماؤزے تنگ نے کہا تھا کہ چین کو ایک طاقتور ملک کیسے قرار دیا جا سکتا ہے، ہم ایک آلو بھی خلا میں نہیں بھیج سکتے۔ دوسرا، 2011 میں، امریکہ نے “ولف ترمیم” پاس کی جس نے NASA اور دیگر ایجنسیوں کو چینی حکومت اور چین سے منسلک تنظیموں کے ساتھ تعاون میں مشغول ہونے کے لیے سرکاری فنڈز استعمال کرنے سے منع کیا، عملی طور پر چین کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے باہر رکھا۔ ان حالات میں چین کی خلائی صنعت کو اپنے نقطہ آغازمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان درپیش بڑی مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود چین نے صرف چند دہائیوں میں جو تیز رفتار پیشرفت اور شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس نے دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کردیا ہے۔
تمام مشکلات کے باجود چین نے اپنے عزم کو کبھی غیر متزلزل نہیں ہونے دیا اور بنیادی ٹیکنالوجیز میں مہارت حاصل کی۔چین کی جانب سے جن کلیدی ٹیکنالوجیز میں خودکفالت اور مہارت حاصل کی گئی۔ ان میں انسان بردار خلائی جہاز کی نئی جنریشن، انسان بردار کیرئیر راکٹوں کی ایک نئی قسم ، چاند پر اترنے والی گاڑیوں کی تیاری ، چاند پر چہل قدمی کرنے والے لباس سمیت دیگر اہم ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔ ان ٹیکنالوجیز کی مدد سے چاند پر لینڈنگ اور تحقیق کے لیے چینی خصوصیات کا حامل عمل درآمد کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انجینئرنگ ٹیکنالوجیز کی مسلسل ترقی کی وجہ سے چاند پر تحقیقی سفر کے لیے چینی عوام کا نو دنوں میں چاند پر پہنچنے کا خواب مستقبل میں حقیقت بن جائے گا۔
صدر شی جن پھنگ نے ہمیشہ اس حوالے سے بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے۔انجینئرنگ آفس، اقوام متحدہ کے دفتر برائے بیرونی خلائی امور اور یورپی یونین نے مشترکہ طور پر منتخب کیے گئے خلائی سائنس کے متعدد منصوبوں کا اشتراک کیا ہے۔ خلائی ایجنسی اگلے سال تجربات کے لیے چینی خلائی اسٹیشن میں داخل ہونا شروع کر دے گی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مستقبل میں مزید ممالک اور مختلف ممالک کے خلاباز چینی خلائی اسٹیشن میں تجربات کرنے کے لیے داخل ہوں گے۔چین کا کھلا اور مشترکہ ترقی کا تصور چینی خلائی اسٹیشن کی سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں سے تمام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائے گا۔
واضح رہے کہ بیجنگ وقت کے مطابق29 نومبر کو رات گیارہ بج کر آٹھ منٹ پر چین کے شینزو 15 انسان بردار خلائی جہاز کو جیوچھوان سیٹلائٹ لانچنگ سینٹر سے کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا۔ چین کے انسان بردار خلائی منصوبے پر عمل درآمد کے بعد سے یہ 27 واں مشن ہے، جب کہ خلائی اسٹیشن کے قیام کے مرحلے میں داخل ہونے کے بعد یہ چوتھا انسان بردار مشن ہے ۔ اس کے ساتھ ہی خلائی اسٹیشن کے کلیدی ٹیکنالوجی کی تصدیق اور تعمیراتی مراحل کے دوران منصوبے میں طے شدہ تمام بارہ لانچنگ مشن مکمل طور پر کامیاب ہو گئے ہیں۔ شینزو 14 اور شینزو 15 کے خلابازخلائی اسٹیشن میں اپنی پہلی منتقلی مکمل کریں گے۔ اس مدت کے دوران، چھ خلاباز خلائی اسٹیشن پر تقریباً 5 دن تک اکٹھے کام کریں گے اور مختلف تفویض کردہ ذمہ داریوں کو مکمل کرنے اور ذمہ داریاں ایک دوسرے کے حوالے کرنے کا کام کریں گے ۔ چینی خلا بازوں نے سخت محنت اور مسلسل جدوجہد سے اپنی ایرو اسپیس اسپرٹ’ دنیا کو دکھائی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں