• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلہری کی پھرتیاں اور کورونا وائرس۔۔محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

گلہری کی پھرتیاں اور کورونا وائرس۔۔محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

کسی زمانے میں جنگل کے بادشاہ ” شیر ” کے خلاف جنگل کے باسیوں نے الزام لگایا کہ شیر جنگل کا نظم و نسق سنبھالنے کے قابل نہیں رہا۔ بڑے مگرمچھوں نے عام پبلک کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ تمام وسائل پہ قابض ہو چکے ہیں۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے تمام چھوٹے جانور مختلف بیماریوں کا شکار ہونے لگے ہیں۔ بادشاہ عیش و عشرت میں مشغول رہنے لگا ہے۔law and order کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرے جنگل کے جانور ہمارے جنگل پہ حملہ کر کے نقصان پہنچاتے ہیں۔چونکہ شیر اپنی ریاست کے باسیوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہا ہے لہذا جنگل میں نئے الیکشن کروا کے نئے بادشاہ کا انتخاب عمل میں لایا جائے۔

پہلے تو شیر نے بہت مزاحمت کی لیکن آہستہ آہستہ تحریک زور پکڑتی گئی اور شیر کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔۔
نئے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا۔ ۔۔اقتدار کا نشہ مرنے تک رہتا ہے۔ شیر چونکہ بہت عرصہ حکومت کر چکا تھا۔ اس کے سر سے اقتدار کا نشہ اُترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ دوستوں کے منع کرنے کے باوجود بھی اس نے دوبارہ الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔
زور و شور سے الیکشن کمپین شروع ہو گئی۔ جنگل میں منگل کا سماں ہو گیا۔ ہر وقت دعوتیں تقریریں وعدے کیے جانے لگے۔
جنگل کی صدارت کے تین امیدوار تھے
شیر لومڑی اور گلہری۔۔
شیر چونکہ پہلے ہی آزمایا جا چکا تھا اس لئے اسکے جیتنے کے امکانات کم تھے۔ لیکن لومڑی اور گلہری کے درمیان کانٹے دار مقابلے  کی توقع تھی۔ یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ لومڑی بڑی آسانی سے الیکشن جیت کے جنگل کی بادشاہ منتخب ہو جائے گی۔
لومڑی بہت چالاک تھی۔ باسیوں کی نفسیات سے خوب واقف تھی اس لئے وہ ایک مضبوط وننگ امیدوار کے طور پہ  اُ بھر کے سامنے آ رہی تھی۔ اس کے مقابلے میں گلہری بھی بہت محنت اور استقامت سے رواں دواں تھی۔
دنیا میں آئے ہر ذی روح میں اچھائیوں کے ساتھ کچھ برائیاں بھی ہوتی ہیں۔ لومڑی جب پبلک فگر بنی تو جنگل کے مکینوں پہ اسکی اچھائیاں برائیاں واضع ہونا شروع ہو گئیں۔
جنگل کے مکینوں پہ جلد ہی یہ  بات  واضح  ہونا  شروع ہو گئی کہ بات بات پہ جھوٹ بولنا اور مکر و فریب لومڑی کی عادت ہے۔ ہر جلسے میں وہ ایک نیا جھوٹ بولتی۔ ایک نیا دعویٰ کرتی۔ جنگل چونکہ اتنا بڑا نہیں تھا ۔اس وجہ سے اس کے تمام جھوٹ منٹوں میں ہی ایک کان سے دوسرے کان میں منتقل ہوتے ہوئے پورے جنگل میں پھیل جاتے۔۔۔
جنگل کے مکین اس بات سے پریشان ہو گئے۔
آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا،والی مثال ہو گئی۔
بڑے بزرگ جانور اکھٹے ہوئے۔ غوروخوض کرنے کے بعد اس نتیجہ پہ پہنچے کہ شیر کو تو پہلے آزما چکے ہیں۔ لومڑی بڑی شاطر ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ پڑوسی جنگل کے بادشاہ کے ساتھ ساز باز کر کے کہیں جنگل کا کچھ حصہ ان کے حوالے ہی نہ کر دے۔۔
فیصلہ ہوا کہ لومڑی کی نسبت گلہری بہتر حکمران ثابت ہو سکتی ہے۔ راتوں رات وفاداریاں بدل گئیں اور گلہری بھاری اکثریت سے جنگل کی بادشاہ منتخب ہو گئی۔
خوب جشن منایا گیا اور لومڑی نے بلآخر حکومت سنبھال لی۔ دن اچھے گزرنے لگے جنگل میں زندگی معمول کے ساتھ رواں دواں ہو گئی۔
راوی ہر سو چین لکھ رہا تھا۔ بادشاہ وزیر حکومت کے مزے لے رہے تھے کہ اچانک ایک انہونی ہو گئی۔ ایک بندریا کو اس کے خاوند نے طلاق دے کے گھر سے نکال دیا اور ساتھ یہ ظلم بھی کر دیا کہ بندریا سے بچے بھی چھین لیے۔
بندریا روٹی پیٹتی گلہری کے دربار میں پہنچی اور بپتا سنائی۔ گلہری نے پوچھا کہ اب تم چاہتی کیا ہو؟
خاوند سے دوبارہ رجوع کرنا چاہتی ہو ؟
بندریا بولی۔۔ لعنت بھیجو بندر پہ۔ میں تو پہلے ہی اس سے تنگ تھی۔ زندگی اجیرن کر رکھی تھی اس نے۔ اچھا ہوا خود بخود ہی دفع ہو گیا
بادشاہ سلامت مجھے میرے بچے واپس چاہئیں۔۔۔ بس اتنی سی استدعا ہے۔
گلہری سوچ میں پڑ گئی اور کہنے لگی اچھا بیٹھو۔۔۔ یہ کونسا مسئلہ ہے، تم تسلی رکھو ،کچھ کرتے ہیں۔
تھوڑی دیر کے بعد گلہری جوش میں آئی۔ اس نے اپنے نتھنے پھلائے اور چھلانگیں مارتی ہوئی درخت پہ چڑھ گئی۔ ایک درخت سے دوسرے درخت پہ, دوسرے سے تیسرے پہ۔ ایک سے اترے دوسرے پہ چڑھ جائے۔ ۔۔جب کافی دیر گزر گئی تو بندریا بولی۔ ۔۔بادشاہ سلامت یہ کیا کر رہی ہو ؟
اس طرح تو بچے برآمد نہیں ہوں گے۔ بندر کہیں بھاگ جائے گا۔ گلہری نے تاریخی جواب دیا
( بی بی میں جتنا کر سکتی ہوں، کر رہی ہوں نا)
تو میری پھرتیاں دیکھ، میرے کام پہ نظر نہ رکھ۔۔
ایسا ہی کچھ “کورونا وائرس”کے دوران وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی اور سندھ کی عوام کے ساتھ کیا ہے۔ پھرتیاں ہی پھرتیاں۔ بغیر سوچے سمجھے لاک ڈاؤن , ہیرو گیری, اور میڈیا نے بھی اپنا کردار ادا کرتے تعریفوں کے ایسے قلابے ملائے کہ عوام دنگ رہ گئی۔
عمران خان کے بار بار کہنے کے باوجود کہ لاک ڈاؤن مسائل کا حل نہیں۔ ہم اس پوزیشن میں نہیں کہ مکمل لاک ڈاؤن کر سکیں۔
لیکن وزیر اعلیٰ سندھ نے سستی شہرت کے چکر میں ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو داؤ پہ لگا دیا۔ کراچی کی کچی آبادیوں میں 70 لاکھ لوگ رہائش پذیر ہیں۔ اچانک لاک ڈاؤن نے ان غریبوں کو کورونا سے بڑے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آج سعید غنی کی پریس کانفرنس اس بات کی غماز ہے کہ انہیں اپنی سنگین غلطی کا احساس ہو چکا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں بند کرونا کے مریض اور بہت لوگوں کو متاثر کر چکے ہیں۔ ٹیسٹ نام کی کوئی چیز کا انتظام نہیں کیا گیا۔ لاک ڈاؤن ضرور کرنا چاہیے تھا لیکن لاک ڈاؤن سے پہلے ان غریبوں کی بھوک مٹانے کا بندوبست کرنا چاہیے تھا۔ اور سب سے بڑا ظلم یہ کیا گیا کہ سندھ میں کورونا کے مریضوں کو ٹریس ہی نہیں کیا گیا۔ اﷲ سے رحم مانگتا ہوں۔ لیکن میرا اندازہ ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں کراچی میں کورونا کے مریض لاوہ کی طرح اُبھریں گے۔ ابھی تک تو گورنمنٹ کے انتظامات دیکھ کے یوں لگتا ہے کہ کراچی اب مزید لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس وقت تک لاک ڈاؤن کے متاثرہ لوگوں کی امداد کا کوئی جامع پلان تک نہیں بنا۔

میں یہاں وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو ضرور کریڈٹ دوں گا کہ انہوں نے لاک ڈاؤن کا مینج کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پہ گھر گھر امداد پہنچانے کا ایک جامع پلان مرتب کیا اور آج لوگوں کو امداد ملنا شروع ہو چکی ہے۔ میں نے بہت سی جگہوں پہ غریبوں کو پیسے لیتے دیکھا ہے۔ 12000 غریب کیلئے اچھی رقم ہے۔ اگر وہ سمجھ داری سے خرچ کرے تو دو مہینے تک اپنے گھر کا چولہا جلا سکتا ہے۔ اور غریب آدمی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہمسائے کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا۔ وہ مل بانٹ کے کھاتا ہے۔ اگر حکومت پاکستان 1,40,00,000 لوگوں کو امداد فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو غریبوں کی نفسیات ( مل بانٹ کے کھانا ) کو مد نظر رکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ کم از کم دو کروڑ لوگ ایک مہینہ مزید لاک ڈاؤن برداشت کر سکتے ہیں۔اس معاملے میں حکومت پاکستان مبارک باد کی مستحق ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ کورونا وائرس پاکستان میں بہت مضبوطی سے پنجے گاڑ چکا ہے ۔ پوری دنیا کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت بھی پاکستان میں مریضوں کی تعداد لاکھوں تک ہو سکتی ہے۔ چونکہ ابھی تک ہمارے پاس ٹیسٹ کی سہولت نہیں اس لیے ہمیں صحیح تعداد کا اندازہ لگانا میں دقت پیش آرہی ہے ۔
اس وقت وفاقی حکومت کو سندھ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔۔۔ تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایمرجنسی بنیادوں پہ لوگوں تک فوری امداد پہنچانے کی ضرورت ہے۔امداد کے بغیر کراچی مزید لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور اس وقت کراچی سمیت پورے پاکستان کو لاک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہ بحران سنگین صورتحال میں تبدیل ہو جائے گا اور اسے قابو کرنا مشکل ہو جائے گا۔
اللہ رب العزت آپ سب کو اور آپکے اہل خانہ کو ہر بلا سے محفوظ رکھے، آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply