رات کے صاف تاروں بھرے آسمان میں آپ جو کچھ بھی دیکھتے ہیں، یہ مختلف طرح کے ستارے ہیں۔ ان میں بہت فرق ہیں لیکن ایک چیز ہے جو سب میں مشترک ہے۔ یہ سب گول ہیں۔ اور ہمارے نکتہ نظر سے، یہ سب مکمل گولائی میں ہیں۔ یہ سب کسی اور شکل کے کیوں نہیں؟ چینی کے دانوں کی طرح کیوں نہیں؟ وہ کونسا یونیورسل قانون ہے جو کہتا ہے کہ “تمام معلوم ستاروں اور سیاروں کو کُرّے کی شکل کا ہونا چاہیے؟” اس کا ایک لفظی جواب “گریویٹی” ہے۔
اس کو سمجھنے کیلئے ہمیں ابتدا میں جانا پڑے گا۔ نہیں، اس مضمون کی ابتدا میں نہیں، اس سے تھوڑا سا مزید پیچھے۔ وقت میں ساڑھے چار ارب سال پہلے چلتے ہیں۔ زمین موجود نہیں تھی۔ لیکن مالیکیولر گیس کی گردش جاری تھی۔ ہمارے سیارے اور نظامِ شمسی کی پیدائش کا وقت تھا۔ اینگولر مومینٹم کی کنزرویشن کے قانون کے مطابق گردش کی تیزی کسی چیز کو فلیٹ کرتی ہے۔ گیس کے بادلوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اور یہ نظامِ شمسی کی فلیٹ ہونے کی وجہ ہے۔ اینگولر مومینٹم اور گریویٹی کی وجہ سے اس مظہر کو accretion کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے گیسوں نے جمگھٹے بنانے شروع کر دئے۔ یہ کثافت میں بڑھتے گئے اور بڑھتے گئے۔ اس ماس کے بڑے جمگھٹے نے سورج کو دہکا دیا۔ نوجوان سورج کی شمسی ہواوں نے ہلکے مادوں کو پرے دھکیل دیا۔ (اس سے نظامِ شمسی کے دیوہیکل سیارے بنے)۔ بھاری مادوں کی یہ گیندیں پتھریلے سیارے تھے جن میں سے ایک ہماری زمین تھی۔ لوہے جیسے بھاری مادوں کے اکٹھ سے ہمارے سیارے کا کثیف کور بنا۔ زیادہ لوہا اس کے ساتھ چپکا اور یہ غرق ہو کر سیارے کے مرکز کی طرف چلا گیا۔
دسیوں لاکھ سال گزر گئے۔ خیال ہے کہ ایک سیارہ “تھیا” ہماری زمین سے ٹکرایا۔ اس فلکیاتی تصادم کے وقت ہماری زمین گیند کی شکل میں تھی۔ اس سے الگ ہونے والے مادے سے چاند وجود میں آیا۔ زمین کی طرح چاند نے بھی گول شکل ہی اختیار کی۔ لیکن یہ سب کچھ ہی گول کیوں؟ کسی ڈبے کی شکل میں کیوں نہیں؟ اس کی وجہ استحکام اور مضبوطی ہیں۔ جیومیٹری کے لحاظ سے سفیر سب سے مستحکم اور مضبوط شکل ہے، جس سے نہ ٹوٹنے والے اجسام بنتے ہیں۔ اس میں جسم کے تمام نکات کے درمیان آپسی فاصلہ سب سے کم ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفئیر کی سطح کے تمام نکات اس کے مرکز سے برابر کے فاصلے پر ہوں گے۔ اور یہ اس کے ایکولیبریم کی وجہ ہے۔ اس میں تمام حصوں میں برابر فورس لگ رہی ہو گی۔ فرض کیجئے کہ دو ڈائمنشن والی کوئی مثلث ہو، جس میں مرکز کی طرف کھینچے جانے والی قوت ہو تو طرف سے تین کونوں پر لگنے والی فورس اس کی لکیروں کے درمیان میں لگنے والی فورس سے مختلف ہو گی۔ سب کچھ ایک دوسرے سے ملکر بیچ میں آنے کی کوشش کرے گا تو یہ منہدم ہو کر گولائی کا روپ دھار لیں گے۔ یہ گریویٹی کی قوت ہے جس کی وجہ سے ایسا ہونا ناگزیر ہے۔
لیکن یہ ایسا ہمیشہ کیوں نہیں کرتی؟ زمین پر نشیب و فراز کیوں ہیں؟ یہ تو ہمیں صاف نظر آتے ہیں۔ اور ہر شے گول کیوں نہیں؟ میں اور آپ گول کیوں نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوٹے اجسام میں گریویٹی کی فورس اتنی کم ہے کہ ان کے کیمیکل بانڈز کی قوت پر گریویٹی غالب نہیں آتی۔ مثلاً، میرے خلیاتی اور کیمیائی بانڈ ہیں جن سے بننے والی ہڈیاں اور گوشت مجھے ایک فِٹ انسان کی شکل میں رکھتی ہیں (اگر چھوٹی سی توند کو نظرانداز کر دیا جائے)۔ لیکن میرا ماس اتنا زیادہ نہیں کہ گریویٹی کا جسم کو شکل دینے میں کوئی بھی کردار ہو۔ اس سکیل پر گریویٹی ہر لحاظ سے ناقابلِ ذکر ہے۔ یہ ان بانڈ پر غالب نہیں آ سکتی۔ زمین کی گریویٹی کی اتنی قوت تو ہے کہ ہمیں کھینچ کر ساتھ رکھتی ہے لیکن یہ ہمارے جسم کے سٹرکچر پر اثر نہیں کرتی۔ شکل تبدیل کرنا تو دور کی بات، یہ اتنی کمزور ہے کہ ہمیں کھڑا ہو جانے سے بھی نہیں روکتی۔
اسی طرح چھوٹے شہابیے بھی اتنا ماس نہیں رکھتے کہ وہ پتھر کے سخت بانڈ پر قابو پا لیں اور مختلف شکلوں کے خلائی پتھر پائے جاتے ہیں۔ لیکن دلچسپ چیز یہ ہے کہ اگر آپ شہابیوں کو دیکھیں تو جتنا بڑا سائز ہو گا، یہ شکل گولائی سے اتنی قریب ہو گی۔
اگر ماس 8.958×10^20 کلوگرام سے زیادہ ہو (جو بونے سیارے سیریس کا ہے) تو جسم گول ہو گا۔ تقریبا دو سو سے تین سو کلومیٹر کے نصف قطر کے جسم کی شکل گول ہو گی (انحصار اس کے اجزاء پر ہے)۔ اس کو potato radius(آلو کا نصف قطر) کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس سے چھوٹے فلکیاتی اجسام کی شکل گیند کے بجائے آلو سے زیادہ مشابہہ ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ کے لئے سوال: آپ نے جو اشیا دیکھی ہیں، ان میں سب سے زیادہ پرفیکٹ گول کیا ہے؟ مالٹا؟ فٹ بال؟ بنٹا؟ سنوکر کا گیند؟ گلاب جامن؟ یا پھر کچھ اور؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں