جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/8

بشالینی کیلاشیوں کا زچہ گھر:
کیلاشیوں میں بشالینی بھی ایک رسم ہے۔ندی یا دریاکنارے ایک زچہ گھر تعمیر کیا جاتا ہے۔یہ مشترک ملکیت ہوتا ہے۔ہر گھرانا اسے استعمال کر سکتاہے۔بچے کی پیدائش ہونے پرآتی ہے تو حاملہ عورت کو بشالینی (زچہ) گھر میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ایک عورت (دایہ)حاملہ کی نگہداشت کرتی ہے۔کھانا بشالینی کے باہر بغیر کوئی آواز پیدا کیے رکھا جاتاہے۔حاملہ چپکے سے کھانا اٹھا کر اندر لے جاتی ہے۔بھوک لگنے پر کھا لیتی ہے۔یہ انتہائی مشکل مرحلہ ہوتاہے۔بچے کی پیدائش کے فوراً بعد دایہ ندی پر جاکر نہاتی ہے۔چاہے موسم کتنا ہی سخت اور ڈراونا ہی کیوں نہ ہو۔
اگر کوئی عورت زچکی کے دوران فوت ہو جائے تو اسے نحس سمجھا جاتا ہے۔دیوتاؤں سے اُس کی بخشش کے لیے پرارتھنائیں کی جاتی ہیں۔اَیسے میں عورتیں ہی اس کی تدفین کرتی ہیں،مر د قریب نہیں جاتے۔

زچہ کی خوراک اور دیکھ بھال خاص طور پر کی جاتی ہے۔بچے کی پیدائش پر دایہ ندی پر غسل کرنے کے بعد اہل خانہ کو مطلع کرتی ہے۔اس خوش خبری پر ہوائی فائر کیا جاتا ہے۔پھر لوگ ایک جلوس کی شکل میں زچہ وبچہ کو گھر لانے چل پڑتے ہیں۔بشالینی کادَور مشکل ہوتا ہے۔اُجاڑ اَور ویران جگہ پر سب لوگوں سے دُور،ایک نئے مہمان کی آمد ہوتی ہے۔مگر کیلاش عورتوں کو بشالینی سے خوف نہیں آتا۔انھیں خالص خوراک کھلائی جاتی ہے۔اس معاملے میں بزرگ خواتین کے مشورے کام آتے ہیں۔مقوی اَور مخصوص غذائیں کھائی جاتی ہیں۔ پہاڑی زندگی میں رہنے والی کیلاشا لڑکیاں صحت مند اَور بیماریوں سے اَبھی بہت دُورہیں۔

کیلاشا جھوٹ نہیں بولتے:

کیلاشا جھوٹ نہیں بولتے۔سچ کی اِنھیں عادت ہے۔جھوٹ اِن کی بستیوں میں نہیں ہے۔اِن کی رسمیں مہنگی ہیں۔مگر وہ انھیں نبھاتے ہیں۔اِن کے ہاں قانون ہے کہ َاگر کوئی خاتون اَپنے شوہر کو چھوڑنا چاہے اَور اَپنی مرضی سے کوئی دوسرا شوہر کرنا چاہے تو دوسرا شوہر،پہلے شوہر کو 100 بکریاں دینے کاپابندہو گا۔پہلا ناراض بھی نہیں ہوگا۔اَیسے ہی ایک دو موقعوں پر کیلاش مردوں نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کیا۔اس کے بعدوہ اپنے پرانے عہدسے پِھر گئے۔کیلاشیوں نے انھیں جھوٹا کہا تو مسلمانوں نے خوش آمدید۔
ہمارے ہاں منشیات کا بہت رواج ہے۔شیر حسن نے کہا۔چرس عام ہے پہلے یہ نہیں ہوتی تھی۔پھلوں سے شراب کشید کرکے پینے کا رواج بہت پرانا ہے۔مگر چرس کا کارواج نہیں تھا۔ہمارے بزرگ بہت پہلے کیلاشا تھے پھر وہ مسلمان ہوگئے۔
میں باہر سے آیا تو محلے میں لوگوں کو ملنے گیا۔کئی جگہوں پر شراب پیش کی گئی۔میں خود پہلے پیتا تھا۔اَب توبہ کرلی ہے۔
یہاں سے آگے دیکھنے کی کوئی جگہ ہے۔؟
مَیں نے پوچھا۔
ہاں نا! ہے۔برون ہے۔
وہاں ہائی سکول ہے۔جس میں تقریباً700 تعداد ہے۔پہلے لڑکیاں اَور لڑکے اکٹھے پڑھتے تھے۔اَب الگ الگ پڑھتے ہیں۔
پار ”یو“ اَور دیا ر کا جنگل،جو گاؤں کے پیچھے پھیلا ہواہے۔پر دُھوپ کب کی اُتر چکی تھی۔شیر حسن نے بتایا جنگل میں چیتے،لومڑیاں،ہرن اَور ریچھ پائے جاتے ہیں۔
یہاں کی جنگلی حیات کے بارے میں شیر حسن کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔جب میں نے کہا آپ کیلاشا لو گ! تو شیر حسن نے مجھے فوراً ٹوک دیا۔”مَیں تومسلمان ہوں یا ر مجھے کیلاشا کیوں کہتے ہو۔“
سکندر کی ایک دیو مالا:
مَیں نے کیلا ش کے ایک سفرنامے میں پڑھا تھا کے یہاں ایک پانی کاایک چشمہ ہے۔جسے لوگ آب حیات سمجھ کر پیتے ہیں۔شیر حسن نے بتایا یہاں سے اَندازاً چھ کلومیٹر اُوپر پہاڑوں میں یہ چشمہ واقعی موجود ہے۔کسی سفرنامہ نگار نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ بیماری کی حالت میں جب وہ ایک رہبر کی مدد سے وہاں پہنچا تو،اس نے ایک غار کے اَندر ایک چشمے کو پایا۔سرخ سیال جیسی کوئی چیز غار کی چھت سے قطرہ قطرہ ٹپک رہی تھی۔رہبر نے ایک پیالا اس قطرہ قطرہ گرتے سیال کے نیچے رکھ دیا۔جب کافی دیر بعد پیالے میں اچھا خاصا سیا ل جمع ہو گیا تو مجھے پلایا گیا۔تھوڑی ہی دیر بعد مَیں مکمل صحت یاب ہوگیا۔کیلاشا اسے آب حیات سمجھتے ہیں۔

کیلاشا خود کو سکندر یونانی کی اَولاد کہتے ہیں۔ایک اساطیری کہانی،حضرت خضرؑ،سکندر اَور آب حیات کے متعلق مشہور ہے۔اَگرچہَ اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ کیلاشا سکندر یونا نی کی اَولاد نہیں ہیں۔ سکندر َاور خضڑ کی کہانی کا تب غالب کو بھی نہیں پتا تھا۔سو یقین کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا۔ ؎
کیا کِیا خضرنے سکندر کے ساتھ
اَب کسے رہنما کرے کوئی
اَیمازون کے جنگلی قبائل کے ہاں پَوِتر پانیوں کی اَیسی ہی مثالیں اَور لوک کہانیاں ہیں۔اَیسے پانی جن کو پی لیا جائے تو انسان ہمیشہ کی زندگی پا لیتا ہے۔اَیسے پانیوں کی حفاظت کے لیے دیوتاؤں نے ناگ مقرر کر رکھا ہے۔
کیا وہ چشمہ واقعی شِفا دیتا ہے۔؟ شیر حسن اس طر ف کبھی نہیں گیا تھا۔وہ جگہ کیلاشا لوگوں کی ہے اَور شفا ء کا یقین بھی انہی کے پاس ہے۔ماضی میں وہ اس چشمے کو عوام سے ہر ممکن دُور رکھتے تھے۔کیلاشیوں کا مذہبی پیشوا ء جب اِس بات کی اِجازت دیتا کہ مریض کا کوئی اَور علاج ممکن نہیں سوائے اِس پانی کے، تو تب مریض کو چارپائی پرڈال کر چشمے پر لایا جاتا۔

کیلاشالوگوں کانکاح مکاح ہماری طرح نہیں ہوتا۔شیرحسن نے کہا اَور میری طرف دیکھ کر آنکھ ماری۔سگریٹ کاکش لگایا اَور پھر کیلاشا لوگوں کی شادی کی تفصیل شروع کردی۔کیلاش لڑکااَورلڑکی پہلے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔اِس بات کی ہوا دونوں کے گھر والوں تک پہنچ جاتی ہے۔یا پھر پہنچادی جاتی ہے۔اِسی ہوا کے دَوران لڑکی،لڑکا بھاگ کر دوسرے گاؤں کسی رشتہ دار کے ہاں چلے جاتے ہیں۔دونوں کے ورثا خصوصاً لڑکی کے والدین اسے آکر پوچھتے ہیں۔تمھارے ساتھ زبردستی تو نہیں ہورہی؟۔کیاتمھیں لڑکا پسند ہے۔؟اقرار پر لڑکے والوں کی طرف سے ایک پُرتکلف دعوت کی جاتی ہے۔بھونے ہوئے بکرے،پھل اَورشراب پیش کی جاتی ہے۔مذہبی پیشوا منتر پڑھتا ہے۔اَور شادی ہو جاتی ہے۔
کیلاشا اَپنے مُردوں کو پہلے دفناتے نہیں تھے۔کھلا چھوڑآتے تھے۔شیر حسن بولے جارہا تھا۔
مگر اَب اَیسا نہیں ہوتا۔
کیوں۔؟
شیر حسن کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ پھر کچھ دیر خاموش رہ کر بولا”کیوں کہ ہمارے مسلمانوں نے اُن کافر مُر دوں کاسامان اَور زیورات چرانا شروع کردیے تھے۔کیلاش لوگ اَپنے مُردوں کے ساتھ ِان کاسارا سامان بھی رکھ آتے ہیں۔جیسے بندوق،کلہاڑی،زیورات اَور استعمال کی چیزیں۔“

نالے (دریاے بمبوریت) کے کنارے جس جگہ ہم بیٹھے تھے،اِس کے مغربی اَور شمال مغربی سمت اَفغانستان ہے اَور اِس کادارلحکومت کابل۔اِسی قبیلے (کیلاش) کے لوگ سرحد کے اُس طرف کسی وقت جبراً قتل کردیے گئے تھے اَور جو باقی بچے تھے مسلمان بنادئیے گئے۔سرڈیورنڈ نے روس کی پیش قدمی کے خطرے کے پیش نظر اُس وقت کے اَفغان حکمران عبدالرحمٰن کو اُکسایاتھا کہ وہ ان قبائل کو زدو کوب کرے۔تاکہ وہ کسی وقت رُوسیوں کے ساتھ مل کر بغاوت نہ کرڈالیں۔

چنانچہ ڈیورنڈ لائن کے اُس طرف کاکافرستان،راتوں رات نورستان بنا دیا گیا۔ڈیورنڈلائن آج بھی شوریدہ سری پرآجاتی ہے۔اِس کی من مرضی نے ہزاروں جانیں لے لی ہیں۔
شیر حسن کو دریا بمبوریت کے پار والے گاؤں میں ایک رشتہ دار کے ہاں جانا تھا۔وقت کافی ہو گیا تھا۔اس نے اِجازت لی،مَیں دوستوں کی طرف چلا آیا۔وہ اِنتظار کررہے تھے۔تیراکی کا عمل بہت پہلے رُک گیا تھا۔ہم برون کی طرف چل پڑے۔جو آگے مغربی سمت تھا۔

تھوڑا آگے چلے تو کچھ مزید اَحباب ملے اُنھوں نے سیلاب کا ذکر خاص طورپر کیا۔ایک بزرگ بتانے کے َانداز میں بولے یہاں بارش نہیں ہوئی تھی۔بَس پیچھے کہیں گلیشئر ٹوٹنے سے سیلاب آگیاتھا۔کسی انسانی جان کو نقصان نہیں ہوا۔مگر مکانات،زمینیں اَور سرمایہ سب ضائع ہو گیا۔

جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے تھے۔تباہی کے آثار تھے۔ایک دکان دار نے ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ جو سامنے آپ بڑے بڑے پتھر دیکھ رہے ہیں نا۔؟ یہ تو کچھ بھی نہیں وہ جو گھر ہے(دومنزلہ گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)۔اس جتنے پتھر تھے، جو توڑ کر کام میں لائے گئے ہیں۔

ہمارے راستے میں اک نوجوان کیلاش دوشیزہ کھڑی تھی۔سفید اُجلے کپڑے،سرپر ٹوپی جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس کی بُنائی شیش ناگ کے پھن جیسی ہے۔ہماری مخالف سمت سے آنے والے سیاحوں کے قافلے میں ایک مولانا حضرت بھی تھے۔کیلاش لڑکی کو سب ہی غور سے دیکھ رہے تھے۔ مولانا تسبیح ہاتھ میں پکڑے،لڑکی کو بھی دیکھے جاتے ،ساتھ ساتھیوں سے اس کے متعلق تبصرہ بھی کرتے جاتے۔لڑکی دیکھنے والوں سے بے نیاز فون کان سے لگائے اپنے کام میں مصروف رہی۔شاید اُس کے لیے سیاحوں کا یوں گھورنا معمول کی بات ہو۔

یہاں کی دکانوں میں شٹر نہیں لگے،لگے ہیں توبہت کم،زیادہ تر دُکانوں کے دروازے دیار کی لکڑی سے بنے ہیں۔چار پانچ کھڑے تختوں کو جوڑ کر دروازہ بنا دیا جاتاہے۔تختوں کے درمیان قبضے لگا لیے جاتے ہیں۔کھولتے وقت یہ ایک دوسرے کے پیچھے تہ ہو جاتے ہیں۔کبھی ہمارے ہاں بھی اَیسی دکانوں کا رواج تھا۔برون میں اَیسی ہی ایک دکان پر کتبہ لگا تھا”یہاں چڑیل،پری،اَور جن نکالے جاتے ہیں۔اَور جادو ٹونے کے لیے حساب کتاب کیا جاتاہے۔

فرنٹیر ہوٹل:
برون میں ہی گول نالے (دریاے بمبوریت) کے ساتھ ایک ہوٹل ہے۔ایک طرف سڑک اَور اس کے دوسری طرف نالا ہے۔یقیناً یہ ہوٹل سیلاب کے بعد بناہوگا۔کیوں کہ سیلاب کے آثار یہاں نہیں تھے۔حالانکہ یہ لب ِ دریا کھڑا تھا۔

صحن چھوٹے چھوٹے قطعات میں تقسیم تھا اَور پھولوں کی قطاریں اِن قطعات کی باڑوں کاکام کررہی تھیں۔اَخروٹ کا ایک بڑا درخت،اِن قطعات میں سے ایک پر کھڑا پھیل گیا تھا۔نیلے پیراشوٹ کے کپڑے کا ایک چھوٹا خیمہ درخت تلے لگاہواتھا۔ اس میں کوئی سےّاح ٹھہرا ہُو ا تھا۔ہوٹل کی دیوار اَور صحن کے ساتھ ہی ایک بینچ نما تختہ پڑا تھا۔اس پر عرفان اشرف،شاہد حفیظ اَور منصور اسماعیل بیٹھ گئے۔شفقت ایک طرف جب کہ وقاص جمیل اَورمَیں لب دریا بیٹھ گئے۔ہماری کرسیاں لوہے کی تھیں جو زمین میں نصب تھیں اِن کا سفید رنگ کچھ میلا پڑگیاتھا۔

مشرقی سمت کے پہاڑ،جس کا نام مالشٹ ہے،سے سورج اُتر چکا تھا۔اس کے پیچھے ایک چوٹی کی دُودھیا نوک نظر آرہی تھی۔یہ دُورسے کسی گلیشئر کا تاثر دے رہی تھی۔مگر یہاں کوئی گلیشئر نہیں تھا۔اس چٹانی نوک پر سورج دیوتا کی کرنیں باقی تھیں۔،شام،پار جنگل، پیچھے سڑک کے پار کیلاش بستی اَو ربستی کے پیچھے سنسان پہاڑ،مشرق میں دُودھیا چوٹی کا چمکتا مینار،ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا،ہمارے آگے پیچھے پانیوں کی آواز،کیف میں ڈُوبا ماحول،بَس یہی فرنٹیر ہوٹل تھا۔
چاے آگئی تھی اَور دوست ایک میزپرآبیٹھے۔یہ چاے بازاری دُودھ کی تھی۔میرے لیے قہوہ آنا تھا۔شیرحسن نے کہا تھایہاں کیلاش لوگ اَور ہم سیکڑوں کے حساب سے بکریاں پالتے ہیں۔پھر بھی یہاں ملک پیک کی چائے تھی۔

لواری سرنگ نے چترال والوں کی دُشوار زندگی اَور سفرآسان کردیے ہیں۔غیر ملکی اَور ملکی مصنوعات یہاں دشوار جگہوں سے گزر کی پہنچ جاتی ہیں۔جیسے انھوں نے ہی اِن دشوار درّوں کو آسان بنانے کااحسان کیا ہو۔منڈیوں پر قبضے کی جنگ،جو ہر لمحہ جاری ہے، یہاں بھی نظر آرہی ہے۔

مَیں وقاص جمیل کے پیچھے آن بیٹھا۔میری نشست کے ساتھ پاکستان کا قومی ہلالی پرچم لہرارہا تھا۔میرے سامنے ٹھنڈا دُودھیا پانی گول گول پتھر،جو اس کی جائیداد تھے،پرسے اُچھلتا بہتاجارہا تھا۔دریاے چترال اس کی منز ل تھی۔یہ ایک نالا کئی برقی مراکز بنا سکتا ہے۔ صرف چترال کوبجلی دینی ہو تو دریاے چترال نہیں یہی نالا کافی ہے۔بس اس کے لیے دماغ،ہمت اَور حُب الوطنی کی ضرورت ہے۔حب الوطنی جو شعوری ہو۔

سٹیل کی چاے دانی میں میرے لیے قہوہ آگیا تھامَیں اسے گھونٹ گھونٹ پینے لگا۔برون گاؤں د و حصوں میں تقسیم ہے۔آدھا نالے کے اِس طرف اور آدھانالے کے پار۔پار گاؤں کے پیچھے چلغوزوں کاجنگل ہے۔یہ جنگل سرکاری ملکیت ہیں۔مگر یہاں کے لوگ مدتوں سے ان سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔صحن میں سیب کا چھوٹا سادرخت پھلوں سے جھکا جارہا تھا۔

شام نے پَرپھیلالیے تھے اَور میری پیالی میں آخری گھونٹ قہوہ رہ گیا تھا۔ہوٹل کے کہیں پیچھے، درختوں سے ایک چڑیا اُڑ کر آئی۔چڑ چڑ کرتی نالے کے ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔کچھ دیر بیٹھی اِدھر اُدھردیکھتی رہی پھر ایک قطرہ پانی پیا اَور اُڑ گئی۔ا ِس وقت اُسے اِس قطرے کی شدید ضرورت تھی۔اتنی بڑی ندی سے صرف ایک قطرہ،بعض اوقات زندگی کے لیے ایک قطرہ بھی بہت ہوتا ہے ۔جب کہ سمندر ودریا غیر ضروری ہو تے ہیں۔ جیسے دریائ ے بمبوریت کاپانی طغیانی کے وقت غیر ضروری ہوگیاتھا۔ اسی لمحے ایک سیاہ رنگ پرندہ بولتے بولتے ہوٹل کے پیچھے سے آیا اَور نالے پار چنار کے درخت پر بیٹھ گیا۔

سورج مغربی پہاڑی سے بھی اُتر گیا تھا۔اِردگرد درختوں پر لگے برقی قمقمے روشن ہو گئے تھے۔ان کے ساتھ فرنٹیر ہوٹل کے درودیوار بھی روشن ہوگئے۔صحن میں لگے گلوب جلنے لگے تھے۔مَیں نے قہوے کاآخری گھونٹ لیا اَور اُٹھ کھڑا ہوا۔اَب منزل سراے تھی۔مَیں اَکیلا تھا،میرے ساتھی کب کے جاچکے تھے۔

ضیا مسجد کی وصیت:
برون میں شام جاگنے لگ گئی تھی۔میرے اِردگرد سرائیں اَور گھر روشن تھے۔کسی نزدیک کی مسجد سے اَذان کی آواز آرہی تھی۔موذن خوش آواز تھا۔اَکثر موَ ذَن اَپنے کام سے بہت زیادتی کر دیتے ہیں۔
شاہد حفیظ اَکیلے مسجد کی طرف آرہے تھے۔باقی چار لوگ موجود نہیں تھے۔مَیں نے پوچھا باقی کدھر ہیں۔؟
جواب آیا کہیں پیچھے ہیں۔
ایک طرف پہاڑ اَور دوسری طرف سڑک سے تقریباً لگ کر کھڑی ضیاء مسجد،برون کی جامع مسجد ہے۔کُشادہ ہے،داخلی دروازے سے صحن میں داخل ہوتے ہیں تو پختہ صحن کے ساتھ گھاس کا قطعہ ہے پھر مسجد کا پختہ حصہ،جہاں سے نیچے راستا وضو خانے تک جاتا ہے۔

وضو خانے کی ٹونٹیاں کھلی تھیں۔ا ن سے پانی بہہ رہا تھا۔ایک آب جو گزر رہی تھی اور اس کے متوازی،بہاو پر نلکیاں لگا دی گئیں تھیں۔ان سے پانی بے حساب بہے جارہا تھا۔پانی گرنے کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں۔ان کی اپنی نغمگی تھی۔وضو خانے کی پچھلی دیوار پر لکھا تھا۔
”یہاں باتیں نہ کرو۔نماز پڑھو اِس سے قبل کہ تمھاری نماز پڑھی جائے“
وُضو کرنے کے بعد میں نے ایک صاحب سے پوچھا، یہ مقامی تھے۔یہ پانی ضائع کیوں ہو رہا ہے۔؟یہ ٹونٹیاں کیوں کھلی ہیں۔؟ بولے ”ضائع نہیں ہو رہا۔یہاں پانی بہت ہے۔“
پاکستان اُن ملکوں میں سے ہے۔جہاں قلت آب ہے۔اَورآنے والے وقتوں مَیں قلب آب اِس ملک کا بڑا مسئلہ ہوگا۔جو لوگ الگ ملک حاصل کرسکتے ہیں اَو ر جو ملک ایٹم بم بنا سکتا ہے۔وہ اَپنے اس آبی سرمائے کو ذخیرہ کیوں نہیں کر سکتا۔؟

بجائے اس پر کام کرنے کے اس ملک کی مساجد،داڑھی،نمازکااختلاف اَورفروعی مسائل کو ذخیرہ کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔حدیث مبارکہ ہے۔”پانی کاکم استعمال کرو۔اگرچہ تمھارے گھر کے سامنے سے نہر ہی کیوں نہ بہہ رہی ہو۔“آخر اس حدیث کے بارے میں یہ مسلمان ملک اللہ اَور رسول ﷺکو کیا جواب دے گا۔؟
مسجد کے کھلے دالان میں نماز باجماعت ہو گئی تھی۔مَیں نے اَور شاہد حفیظ نے مسجد کے ہال میں نماز پڑھی اَور واپس جناح گیسٹ ہاوس کی طرف چل دیے۔واپسی پر ہم سب اکھٹے تھے۔سیاحوں کی چہل پہل تھی۔مقامی لوگ اِن کے ساتھ گھل مل رہے تھے۔

فرنٹیر ہوٹل میں بیٹھنے سے قبل ہم پتھروں کی ایک دکان پرگئے تھے۔چھوٹے چھوٹے ٹکڑے مہنگے دام لیے سجے تھے۔مجھے اَپنے کالج کے پرنسپل عمرعلی خالق صاحب کے لیے پتھر خریدنا تھا۔مَیں پتھروں کی شناخت کا تجربہ نہیں رکھتا۔عرفان اشرف نے اَپنے دستی فون کی ٹارچ پر پتھر لے کرپرکھنا شروع کیے اَور آخر میں علان کیا ”یہ سب جعلی ہیں۔“اگر یہاں سودا ہو بھی جاتا تو بجٹ بہر حال ساتھیوں کا قرض ہوتاجو عمر علی خالق ادا کرتے۔نفیس اَور خوش طبع عمرعلی خالق ان چیزوں کے شوقین ہیں۔

شام اور جناح گیسٹ ہاؤس:

جناح گیسٹ ہاوس میں شام نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔سرائے کی بتیاں روشن تھیں۔قدآدم جتنے بلب (گلوب)باغ میں لگے تھے۔باغ کے بیچ ایک بڑی میز تھی۔اس کے اردگرد تقریباًدس کُرسیاں پڑی تھیں۔ مَیں اورشفقت ان کرسیوں پربیٹھے تھے۔باقی کے لوگ،کمروں میں تھے وہ یا تو آگے کی کوئی منصوبہ بندی کررہے تھے یاپھرگھروں میں گفتگو۔میز پرایک کتابچہ پڑا تھا۔خیبر پختون خواہ کے محکمہ سیاحت نے انگریزوں کے وقت کی عمارات،بُدھ دَورکے آثار کی تفصیل معہ تصاویر شامل کر رکھی تھیں۔

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply