گھر کا منظر :شادی کرنے کے بعدکیا ہو گا؟۔۔محمد عامر چیمہ

کسی نے کہا ہے شادی ایسا لڈو ہے جو کھائے وہ بھی پچھتائے جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے اس لیے کھا کر پچھتانا بہتر ہے۔ہمیں اس شخص کی عرصے سے تلاش ہے جس نے شادی کو لڈو جیسی خوش ذائقہ چیز سے تشبیہ دے کر نہ جانے کتنے معصوم نوجوانوں کی زندگی بد ذائقہ کی ہے۔ ہم اپنے تجربے کی رو سے اس میں ترمیم کر چکے ہیں اور ہمارے مطابق شادی ایک ایسا کریلا ہے جو کھائے وہ بھی پچھتائے جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے ،اس لیے کھا کر منہ کڑوا کرنے کا کیا فائدہ۔اس مضمون میں ہمارا اپنی دکھ بھری داستان سنانے کا مقصد خوش نصیب کنوارے بھائیوں کو شادی کے کریلوں سے دور بلکہ بہت دور رکھنا ہے۔ گزارش یہی ہے کہ اسے خود بھی پڑھیے اور دوستوں میں بھی تقسیم کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شادی کے بعد آدمی کئی مصیبتوں میں پھنس جاتا ہے ان میں سے سب سے کٹھن مصیبت کو ”بیگم“ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کے مطابق حقیقی زندگی اور ویڈیو گیمز میں فرق یہ ہے کہ ویڈیو گیمز میں خوفناک بلا والے سب سے کٹھن راؤنڈ کے بعد آپ کو شہزادی ملتی ہے جبکہ حقیقی زندگی میں شہزادی ملنے کے بعد “بلا” والا راؤنڈ شروع ہوتا ہے۔

ہماری شادی کے دن مولوی صاحب نے پوچھا ”آپ کو شبو سے نکاح قبول ہے؟“ ۔
نہ جانے ہمارے منہ سے کیوں بے اختیار نکل گیا ”مگرہمارا قصور کیا ہے؟“۔
ہمارے دوست نے ہمیں ٹہوکا دیا ”ابے قبول ہے بول“۔
ہم بولے ”مگر خود کشی حرام ہوتی ہے“۔
مولوی صاحب اپنے نئے شکار کو مزاحمت کرتا دیکھ کے دوبار ہ بولے ” آپ کو شبو سے نکاح قبول ہے“
ہم برہمی سے بولے ” جناب کی بھول ہے“۔
نہ جانے ”جناب کی بھول ہے“ کو لوگوں نے کیسے ”جناب قبول ہے“ سمجھ لیا اور ہر طرف سے مبارک ہو مبارک ہو کی آہ و فغاں سنائی دینے لگی۔ وہ دن اور آج کا دن ہم بغیر کسی دفعہ کے عمر قید با مشقت و ذلت وذلالت کاٹ رہے ہیں۔

شادی کی تقریب ختم ہوئی تو ہمارا ایک تجربہ کار دوست ہمیں ایک طرف لے گیا اور بولا ”بھئی اس عمر قید کو سہل بنانا ہے تو بلی تو مارنی ہی پڑے گی“۔ ہم کچھ نہ سمجھتے ہوئے کچھ پوچھنے ہی والے تھے کہ اس نے وضاحت کی ”دیکھ! اس کہاوت کے پیچھے ایک داستان ہے۔ایک آدمی اور اس کی نئی نویلی دلہن شادی کے اگلے دن بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ ایک بلی کمرے میں چلی آئی، اس آدمی نے بلی کو دھتکار ا اور بولا میں صرف ایک غلطی معاف کرتا ہوں۔بلی کمرے سے بھاگ گئی۔تھوڑی دیر بعد جب بلی دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی تو اس آدمی نے تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا اور غراتے ہوئے بولا میں نے کہا تھا نا کہ میں صرف ایک غلطی معاف کرتا ہوں۔کچھ دن بعد کھانے میں مرچیں زیادہ ہو گئیں تو وہ شخص اپنی بیگم سے بولا کھانے میں مرچیں زیادہ ہیں اور میں صرف ایک غلطی معاف کرتا ہوں۔وہ چونکہ بلی کا حشر دیکھ چکی تھی اس لیے ساری زندگی اس شخص کی فرمانبردار رہی۔بس میری جان! ایک دفعہ تو نے بلی مار دی تو ساری زندگی مزے میں گزرے گی ورنہ بس پھر چھیچھڑوں کے خواب ہی دیکھتے رہنا۔“ ہمیں یہ ترکیب بہت پسند آئی اور ہم اسے گلے لگاتے ہوئے رقت بھری آواز میں بولے ”میرے یار تو نے دوستی کا حق ادا کر دیا ہے“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کے اگلے دن ہم بازار گئے اور ایک بلی خرید لائے۔ہم بستر پہ لیٹ کر اخبار پڑھنے کی اداکاری کرنے لگے، ہماری بیگم پاس بیٹھی فیسبک پر شادی کی تصاویر پر لائکس گننے میں مگن تھیں ۔ بلی نئے گھر سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے چہل پہل کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی اور ہم نے رٹا رٹایا ڈائیلاگ انتہائی با رعب انداز میں دھرایا ”اے بلی! چلی جا۔ہم صرف ایک غلطی معاف کرتے ہیں۔“
بلی بے چاری کچھ نہ سمجھنے والی نظروں سے ہمیں دیکھنے لگی اوراپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلی ہم خفت چھپاتے ہوئے بولے ”ہش!ہش! ہم صرف ایک   معاف  کرتے ہیں، ہمارا مطلب ہے ایک غلطی معاف کرتے ہیں“۔
بلی بے شک ہماری بولی نہ سمجھتی تھی لیکن “ہش” کا مطلب اسے خوب پتہ تھا۔اس لیے ڈر کر بھاگ گئی۔ہماری بیگم مسکرا کر طنزاً بولیں ”بلیوں سے کافی گپ شپ معلوم ہوتی ہے آپ کی“۔
ہم خلاف معمول تھوڑا سا شرمندہ ہوئے مگر پھر اخبار منہ کے آگے کر لیا اور سوچنے لگے کہ بیگم ابھی تھوڑی دیر بعد بلی کو کمرے میں آنے دیں پھر آپ سے بھی”گپ شپ“ کریں گے۔اب ہم لگے بلی کا انتظار کرنے مگر وہ معصوم بہت ہی چھوٹے دل کی نکلی اور کافی انتظار کے بعد بھی کمرے میں نہ آئی۔رات کا ایک بج گیا بلی کو نہ آنا تھا نہ آئی۔بیگم بولیں ”اجی! آدھی رات ہو گئی ہے، اب اخبار کو رکھ دیں اور سو جائیں“۔ ہمارے منہ سے نکلا ”مگر وہ بلی۔مم مم میرا مطلب ہے وہ بل جمع کرانا ہے تو۔۔۔“
بیگم گرجیں ”کیا حبیب بینک چل کر آپ کے پاس آئے گا کہ بھائی جان بل جمع کرا دیں۔صبح جا کر کروا آئیے گا۔ اب سو جائیں “۔ ہم نے انتہائی فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا اور فوراً چادر تان کر سو گئے۔
ہمت ہم اب بھی نہ ہارے تھے۔پہلا تاثر بھلے ہی غلط پڑا تھا مگر اتنی آسانی سے ہم بھی ہار نہیں مانا کرتے تھے (شادی سے پہلے کے دنوں میں ). خیر اگلے دن ایک بلا لے آئے۔ بلی ہم اس لیے نہیں لائے کہ  صنف نازک سے ہمار ا اعتبا ر مکمل طور پر اٹھ چکا تھا اور ہمیں یقین تھا کہ یہ بلا اپنی جان کا نذرانہ ایک”صنفِ سخت“ کی برتری کے لیے ضرور پیش کرے گا۔ ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اس دفعہ ہم ایک تلوار بھی خرید لائے۔لیں جناب! بلے کو کمرے کے دروازے پر چھوڑ کر ہم کمرے میں داخل ہوئے اور تلوار سینے سے لگا کر بستر پہ بیٹھ گئے۔ہماری بیگم نے ہمیں عجیب سی نگاہوں سے دیکھا مگر نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ سیلفیاں لینے میں مصروف ہو گئیں۔ہم لگے بلے کا انتظارکرنے۔وہ بے چارہ کچھ زیادہ ہی بھلا مانس نکلا اور کمرے کے باہر ہی کھڑا رہا۔سوچتا ہوگا بغیر اجازت کسی کے کمرے میں داخل ہونا بری حرکت ہے۔جب کافی دیر تک وہ نہ آیا تو مجبوراً ہمیں پچکارنا پڑا ” پُچ پُچ “۔ ہماری بیگم نہ جانے کیوں شرما سی گئیں ۔ خیر اپنی توجہ ہم نے اپنے مشن پہ مرکوز رکھی اور تلوار کو مضبوطی سے تھام لیا۔بلا اندر داخل ہوا اور ہم اپنی آواز میں شاہانہ گھن گھرج پیدا کرتے ہوئے بولے ”اے بلی! ہمم ہمم ہمارا مطلب ہے اے بلے! چلا جا اس کمرے سے۔ ہم صرف ایک غلطی معاف کرتے ہیں“۔

بلا انتہائی فرمانبردار نکلا اور ٹہلتا ہوا باہر چلا گیا۔ ہمیں ڈر تھا کہ بلی کی طرح کہیں وہ بھی ہمارے مصنوعی جاہ و جلال کو دل پر لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہ چلا گیا ہو۔ مگر ہماری دعائیں رنگ لائیں اور وہ تھوڑی دیر بعد دوبارہ اند ر داخل ہوا ، ہم غرائے ”تجھے کہا تھا نا ہم صرف ایک غلطی معاف کرتے ہیں۔“
یہ کہہ کر ہم نے تلوار سنبھالے اس پر چھلانگ لگائی اور نعرہ بلند کیا ”نعرہ تکبیر، اللہ اکبر“۔

کامیابی ہم سے دو قدم پہ تھی مگر عین موقع پر بلا نہ جانے کیوں اچھل کر پرے ہو گیا اور ہم چاروں شانے چت زمین پر پڑے ہانپ رہے تھے۔آنکھ کھولی اور بلے پہ دوبارہ حملہ کرنے کا ارادہ کر کے اٹھے تو کیا کرب ناک منظر دیکھتے ہیں۔ ہماری بیگم ہاتھ میں بیلنا لیے خونخوار نظروں سے ہمیں گھور رہی تھیں اور قریب ہی بلے کی لاش ان کے بیلنا چلانے کی مہارت کا ثبوت دے رہی تھی۔ وہ کڑکتے لہجے میں بولیں ”اجی کان کھول کر سن لو۔میں پہلی غلطی بھی معاف نہیں کیا کرتی“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دن اور آج کا دن، ہم ایک انتہائی شریف النفس،خاموش طبع اور فرمانبردار خاوند کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ہر کام اپنی بیگم کی اجازت سے کرتے ہیں۔
ویسے تو کہتے ہیں اکثر عورتوں کا حساب کتاب کمزور ہوتا ہے مگر ہماری بیگم کا حساب اتنا کمزور ہے کہ بس اللہ ہی ان کا حساب لے۔ایک دفعہ ہم ان سے پوچھ بیٹھے ”دو اور دو“۔
کہنے لگیں ”اور دو“۔
ہم بولے ”آپ کی قسم، مہینے کی پہلی تاریخ کو ساری تنخواہ آپ کی ہتھیلی میں رکھ دینے کے بعد ہمارے پاس کچھ بچتا ہی کہاں ہے کہ آپ کو کچھ دیں۔آج آپ ہی کچھ دیجیے نا ہمیں“۔
ہماری بیگم نے کمال فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ہمیں وافر مقدار میں طعنے دئیے اور بولیں ”کچھ اور چاہیے ؟“
ہم گڑگڑائے ”جی۔معافی “۔
خیر اب آپ کہیں یہ بھی نہ سمجھیے گا کہ ہماری بالکل بھی نہیں چلتی. ہماری بیگم کو ہمارے غصّے اور ضدی پن کا بخوبی اندازہ ہے ۔ابھی پرسوں کی ہی بات ہے، ہماری بیگم ہمیں رات کے کھانے کے بعد بولیں کہ برتن دھو دینا، ہمارا پارہ چڑھ گیا اور ہم نہایت غصّے سے بولے “ہم بھی انسان ہیں آپ کی مان مان کر تھک اور پک چکے ہیں ، صبح اٹھ کر دھوئیں گے ” . ہماری بیگم دبک گئیں اور مجال ہے انہوں نے چوں بھی کی ہو. اور ہم بھی اپنی ضد کے اتنے پکے کہ صبح ہی دھوۓ . کہنے کوتو ہم ہزار دلیلیں دے کر آپ کو شادی کرنے سے باز رکھ سکتے ہیں مگر ہم ذرا جلدی میں ہیں۔وہ کیا ہے کہ ہمیں برتن اور کپڑے دھونے کے بعد منے کا فیڈر بناکر گھر کی صفائی ستھرائی کرنی ہے اور اگر ہم آپ سے باتوں میں ہی لگے رہے اور بیگم گھر آ پہنچیں تو یہ تو آپ جانتے ہیں کہ وہ ہمیں سمجھا چکی ہیں کہ وہ پہلی غلطی بھی معاف نہیں کیا کرتیں۔لہٰذا ہم تو چلے مگر جانے سے پہلے ذیل میں دیا گیا ٹی وی اور بی وی کا موازنہ ضرور پڑھیے گا
بیوی اور ٹی وی:
بیوی اور ٹی وی کبھی کسی دوسرے کی نہیں سنتے ہمیشہ اپنی ہی ہانکے چلے جاتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ موخرالذکر رنگین ماڈلز میں بھی مل جاتا ہے۔بیوی چاہے بلیک ہو یا وائیٹ آپ کی زندگی کو بلیک اینڈ وائیٹ ضرور بناتی ہے۔ٹی وی اور بیوی میں ایک اور فرق یہ ہے کہ ٹی وی کبھی کبھی اچھے پروگرام دکھا دیتا ہے۔ٹی وی اگر ناچ دکھاتا ہے تو بیوی ناچ نچاتی ہے ٹی وی اگر ڈرامے دکھاتا ہے تو بیوی ڈرامے کرتی ہے۔ہو سکتا ہے آپ نے٣٤ انچ کا ٹی وی لیا ہو اور کچھ سالوں بعد اس کا ڈسپلے کم ہو کے ٣٠ انچ رہ گیا ہو جبکہ بیوی کا ڈسپلے کبھی کم ہوتا نہیں سنا گیا۔کم از کم ہم نے تو ہمیشہ ٣٤ انچ کی کمر کو ٥٤ کا کمرہ ہوتا ہی دیکھا ہے۔ٹی وی کا ریموٹ عموماً مرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور مرد کا ریموٹ ہمیشہ بیوی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ٹی وی کی آواز پڑوسیوں تک نہ جائے اس کے لیے ٹی وی کا والیم بٹن کام آتا ہے اور بیوی کی آواز پڑوسیوں تک نہ جائے اس کے لیے بھی ٹی وی کا والیم بٹن کام آتا ہے۔ٹی وی اگر رات کو فرمان الٰہی لگا کے آپ کو سونے پہ مجبور کرتا ہے تو بیوی فرمان شاہی چلا کر آپ کی نیند اڑانے کا انتظام کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ضروری وضاحت: اس افسانوی مضمون کے تمام کردار اور واقعات خیالی ہیں ، کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی . اور اگر آپ سمجھ رہے ہیں یہ وضاحت ہم سے ہماری بیگم نے بیلنے کے زور پر لکھوائی ہے ، تو ہاں لکھوائی ہے ، جو کرنا ہے کر لیجیے.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply