وُہی بات کُھلتی۔۔۔۔ رفیق سندیلوی

کبھی تجھ پہ مجھ پہ
ازل کی مقفّل
وُہی بات کُھلتی
اوراک ساتھ کُھلتی
کسی رات کُھلتی
کنول جیسی کھڑکی
تو مَیں دیکھتا خود کو تجھ کو
حصارِ تجلّی میں
دو زانو بیٹھے ہُوئے
چاند کی ننھّی کشتی میں
اِک مشترک چوکڑی میں
بہ شکلِ کماں
نیم خوابی میں بنتی ہُوئی
قوس کے نصف ہالے پہ کھینچی ہُوئی
چادرِ ریشمیں میں
لرزتے ہُوئے آبِ سیمیں میں
گرتی ہُوئی
وسط سے ٹوٹ کر
دل نُما پتّیوں کو
تھرکتی ہُوئی
نقرئی انگلیوں
مرمریں پنڈلیوں
دَم بہ دَم ڈوبتی اور اُبھرتی شبیہوں کو
بجتی ہُوئی ایک مِردَنگ کے
موج دَر موج چکّر میں
ہاتھا، پدم ، ویر
سدھ ، سانپ ، ہَل
یوگ تنتر میں
اک سائے  کو
ابروؤں بیچ
کندھوں کے مابین
گردن کی ہنسلی سے آتے ہُوئے
سرسراتے ہُوئے
ریڑھ کی سخت ہڈّی سے
گہرے مدوّر میں
اے مری ہستی کے خُفتہ بدن
عضو دَر عضو
تیرے بھنور میں
کئی لاکھ آسن تھے
اُن آسنوں میں
کبھی ذات کُھلتی
کنّول جیسی کھڑکی
کسی رات کُھلتی
کبھی تجھ پہ مُجھ پہ
ازل کی مقفّل
وُہی بات کُھلتی
اور اک ساتھ کُھلتی!

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:یہ نظم  رفیق سندیلوی صاحب کی فیس بک وال سے لی گئی ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply