کتاب چھپوانے کا سفر – ایک روداد ( قسط اوّل)-عاطف ملک

نوٹ: کسی فرد یا ادارے سے مماثلت کو زمان و مکان یا اعمال  کااتفاق  جانیے گا۔

استاد بیگ سے ملاقات ہوئی تو  کہنے لگے، پہلے انتشار کم ہے کہ آپ نے مزید  انتشار پھیلایا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ حضرت ، کیا فرما رہے ہیں ،تو بولے، یہ آپ نے “اوراقِ منتشر” کے نام سے کیا بے تکی  کتاب چھاپی ہے۔ معاشرہ پہلے ہی بگڑا  پڑا ہے اوپر سے آپ  مزید بکھراؤ     کے درپےہیں۔ہم نے عرض کی کہ کتاب میں کہانیوں کا تنوع ہے  اس بنا پر یہ نام چنا، کہیں خاکے ہیں جیسے  سب سے نمایاں ” ماں جی” کا خاکہ اور مزاح  میں آپ کا خاکہ، کہیں افسانے ہیں جیسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے 2015 میں  پاکستان میں افسانوں کے ملکی مقابلے میں چنا گیا افسانہ ” پینسل تراش”،  کچھ کہانیاں لکھنے کے تجربات ہیں، مثلاً  سو لفظوں کی کہانی ،    کرونا وائرس کے وقت ایک مختلف خیال کی لکھی کہانی” وائرس سکونا”، تین ای میلز کی کہانی کہ تین ای میلز میں کہانی خود کو بیان کر دیتی ہے، کتاب کے     طنز و مزاح  کے  حصے میں   لکھے گئے ” پھوپھی جان کے نام  خط ” میں  خط کی صورت کہانی مزاح  کے ساتھ بیان کی ہے ۔ کہنے لگے اور  وہ جو آپ نے ایسی کہانیاں لکھیں جن میں روحیں ڈالی ہیں اور اعتراض سنے ہیں کہ آپ روحانی کہانیاں پھیلا رہے ہیں۔   ہم  نے کہا ،  کونسی کہانیاں؟  فرمانے لگا ، کہانی “پرانی کوٹھی ” میں آپ  دو روحیں لے آئےہیں اور “پُراسرار رات” میں ایک جادوئی مینڈھا  راستہ دکھاتا پھرتا ہے۔ ہم نےکہا ، حضرت ہمارے لحاظ سے تو یہ رومانی کہانیاں ہیں، کیا کہانی میں گناہگار کے ذکر سے کہانی بھی گناہگار ہو جاتی ہے؟  جو اِن کہانیوں کو روحانی جان رہے ہیں وہ ایسے سادہ لوح ہیں جو طوائف الملوکی  میں سے  ملک تو نہیں مگر طوائف نکال لاتے ہیں اور دیومالائی کو دودھ کی ملائی کی کوئی قسم سمجھتے ہیں۔ اصل میں تو  ہم نے ان کہانیوں میں میجیکل  ریلزم کا  تجربہ کیا ہے۔  میجیکل  ریلزم  کی کہانیوں میں حقیقی  ماحول میں کہانی کو بڑھاتے  یک دم ایک جادوئی کردار آتا ہے،   اپنا کمال دکھاتا ہے  پھر غائب ہوجاتاہے،  پھر آجاتا ہے، ہر چند کہ کہیں نہیں ہے مگر ہے، کہانی حقیقی ہی بڑھتی  جاتی ہے، سو کہانی کو جادوئی کہانیوں کے زمرے میں نہیں ڈالا جاتا۔   کہنے لگے یہ تو  آپ  پاکستان کی کہانی بیان کررہے ہیں کہ  یہاں حکومت کی تشکیل کے وقت جادوئی کردار یک دم بغیر پاکستانی شہریت کے  اقتدار میں آن موجود  ہوتے ہیں ۔  ہم نے کہا  سادہ لوح اسے بھی روحانی جانتے ہیں اور کچھ چالاک اسے روحانی بیان کرکے دنیا پاتے  ہیں۔

کہنے لگے ہم سے پوچھتے تو  کتا ب کا بہتر نام  تجویز کرتے ،مثال کے طور پر     “بوٹیوں بھری چاول کی پرات”، بوٹی کا ذائقہ فرق ، چاول کا فرق اور پرات کی بنا پر  موسیقی کی دھن بھی  کتاب کے نام میں شامل ہو جاتی۔  ویسے آپ کی کہانیوں میں  چٹخارے دار  مصالحہ کم ہے، اگر ہوتا تو   نام”  بوٹیوں بھری تیز بریانی کی پرات” کر دیتا۔  ویسے اگر  ہم سے مشورہ کرتے تو کتاب میں شامل  “سرکاری تحفے”       کا مضمون ایسا چٹخارے دار ہوتا کہ   تیز بریانی کا ذائقہ  تو ایک طرف  بلکہ   دوسری طرف خوشبو   کتاب کے صفحات سے اُڑ اُڑ   کر پھیل  رہی ہوتی ، ایسی کہ بے ساختہ رالیں ٹپک رہی ہوتیں۔ ہم نے پوچھا، استاد، بریانی پر رالیں ٹپک رہی ہوتیں  یا  کہانی پر ۔ ویسے ایسی کتاب لائبریری میں  ادبی شعبے  میں نہیں بلکہ کھانے پکانے کی تراکیب والے حصے میں رکھی جاتی، اور  ہمارا خیال ہے کہ آپ کے لاشعور میں یادوں کی برات   اور بریانی کی پرات  ہم آغوش  ہیں۔

کہنے لگے کتاب کے نام کے ساتھ انتساب بھی   بیکار  ہے، یہ کیا  کہ  ” بہتے لمحوں، ٹھہری یادوں، گرتے پتوں اور پھوٹتے بیجوں کے نام”، کوئی عامیانہ سا انتساب ہوتا  تو شوقین مزاج خوب خریدتے، مثلاً ” اُس کی چڑھتی جوانی کے نام”یا ” حکیم جیدا چوہدری کے نسخہِ    پھڑپھڑاہٹ و ٹمٹاہٹ کے  نام “۔ ہم نے کہا ، استاد،  ہمیں یقین آگیا کہ کتاب میں شامل آپ کا خاکہ خام ہے، اس پر مزید کام ہو سکتا تھا۔ بولے،  ویسے وہ جو آپ نے میرا خاکہ اس  بیکار انتساب والی بےتکی کتاب  میں شامل کیا  ہے،   وہ درست نہیں ہے۔ ہم نے عرض کی کہ  بالکل، آپ کے گنوں سے کون انصاف کر سکتا ہے، آپ کی  اپنے مفاد کے لیے کھینچا تانی کو دیکھ کہ ایک عاجزانہ خاکہ  کھینچ پایا۔ مگر اس خاکے میں بھی آپ کے کمالات کو ذہن میں رکھتے آپ کےافسر اعلیٰ  کے مسجد میں مہمان خصوصی  کے طور پر شرکت کے موقع پر  آپ کو کارنر پلاٹ کی  نشست دی تھی۔   کہنے لگے وہ تم کیا دیتے، وہ تو ہم نے خود قابو کی تھی، اور ہاں وہ تم نے ٹھیک لکھا کہ اُس دن اُس افسرانہ موجودگی  سےماحول میں اتنی نورانیت آگئی تھی کہ فرشتوں کے پھڑ پھڑانے کی آواز صاف سنائی دیتی تھی۔ہم نے پوچھا ،  آپ صرف آواز سن پا رہے تھے، کچھ اوصاف میں کمی رہ گئی کہ فرشتوں کو دیکھ نہیں پارہے تھے۔  بولے، اُس وقت نظر افسر اعلیٰ  پر تھی۔ ہم نے کہا  ، واہ حضرت ایسی سماعت اورنظر  کوئی استاد ہی پاسکتا ہے  کہ فرشتوں کی آواز  سنے اور شیطان دیکھے۔ کہنے لگے  یہ نظر  نذر نیاز  سے ملتی ہے۔ محکمے سے جن کو کام پڑتا ہے وہ ہمیں نذر پہنچاتے ہیں اور ہم اس کا ایک حصہ اوپر والے کو پہنچاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اوپر والے کی دین نہیں بلکہ اوپر والے کو دین سے گُن اور گِن پائے جاتے ہیں۔

استاد بیگ  نے پھر پانسہ بدلا، کہنے لگےہمارا خاکہ تو کمان کی ڈور کی مانند کھینچا ہے مگر اپنی بابت کچھ نہیں بتایا، کچھ اپنا بھی بتاتے ،  کتاب پر ایک تصویر ہی لگا دیتے۔ ہم نے کہا اپنا کیا بتاتے ہمیں تو اپنا علم  ہی نہیں۔  عرصہ قبل  کہ لوگ اپنی گاڑی کے پچھلے شیشے پر  مختلف اسٹکر لگاتے تھے، انجینئر، ڈاکٹر، وکیل، پائلٹ وغیرہ،  تو ہماری گاڑی کے پچھلے شیشے پر اپنا بنوایا ایک سٹکر   لگا تھا۔یہ اسٹکر چسپاں ہونے  والی ٹیپ پر  خوش خط لکھوا کر تیز بلیڈ سے کاٹ کر لگایا تھا۔ بُلے شاہ  کا مصرعہ تھا، “کیہ جاناں میں کون”۔  کئی سال وہ مصرعہ   جہاں گردی میں متلاشی کے ہمراہ تھا۔ تلاش کا سفر گو ایک اور براعظم لے آیا مگر ابھی بھی پتہ نہیں کہ کون ہوں۔ جب خود کو ہی اپنا  نہ پتہ ہو  تو کسی اور کیا جھوٹ بتائیں ۔ ویسے کتاب میں شامل تحریریں ہی خود  مصنف  کا تعارف ہیں، کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔

فیس بک پر اوراقِ منتشر کا صفحہ بنا یاہے جہاں پر قارئین نے اپنی رائے دینا شروع کی ہے۔   یہ آراء   درج ذیل لنک پر  پڑھی جاسکتی ہیں ۔

https://www.facebook.com/AuraqEMuntashir

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ اس بنا پر کہانیوں کی ایک کتاب "اوراقِ منتشر" کے نام سے شائع کی ہے۔ کچھ تحاریر درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہیں۔ www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply