کشن گنگاکی وادی(قسط8)- جاویدخان

گزشتہ قسط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

 

 

 

 

قسط7

مکی اَور مدنی مسجدیں :۔
تنگ سڑک اَب ایک شاداب وادی سے گُزر رہی تھی۔وقفے وقفے سے دومساجد کے تعارفی کَتبے نظر آے۔ایک پر‘مکی مسجد ’ لکھاتھاکچھ آگے دوسرے پر‘مدنی مسجد ’لکھاتھا۔برصغیر میں عبادت گاہیں اُگ رہی ہیں۔یہ اُگنااکثر خودروئی جیساہے۔چاہے مندر ہوں یامساجد۔روح ایک میں بھی نہیں ۔اَگر کہیں ہے بھی توخال خال۔یُوں آج کے ‘مکیوں ’ اَور ‘مدنیوں ’میں ناتومکہ کی روح ہے نامدینہ کاشعور ۔بُت پرستی صرف یہی نہیں کہ آپ کسی پتھر یابُت کے آگے جھُک جائیں ۔چپکے چپکے اَپنے نظریے ،مسلک ،تنظیم اَور فرقے کو پُوجنے کی حد تک آجانا بھی صنم پرستی سے بھی بُراہے۔آپ کے نظریے،مسلک ،تنظیم ،فکر کے سواباقی سب کھوٹے سکے ہیں ،ملیچھ ہیں تو اَیسی گھٹُن زدہ تنگ وادیوں میں توحید کے کسی جھونکے کاگزر تک نہیں ہوا۔جس خوش بو کی کانام توحید ،دین ،مذہب ہے وہ چیزے دیگری ۔

یہ وادی ِلوات اَور اس کے اردگر د کاعلاقہ تھا۔دریا،ندیاں،جھرنے ،ہری ہری گھاس،ڈھلوانوں پہ آباد گھر اَور مکئی کے کھیت دیاروں کے جنگل اَور اُونچے اُونچے پربت ۔اِن کے مل ملاپ سے سجی وادی میں ہم آوارہ تھے اَور اپنی اس آوارگی میں شاداں ونازاں بڑھے جارہے تھے۔طاہر یُوسف ،وقاص جمیل ،منصور اسماعیل ،عاصم نواز اَو ر اصغر روشن صاحب کی کمی لمحہ بہ لمحہ محسوس ہورہی تھی۔کچھ لوگ زندگی میں اَیسے ہوتے ہیں جن کے بنا سفر  پھیکے پڑ جاتے ہیں ۔زندگی بھی ایک سفر ہے۔اس میں جس کو اچھی سنگت اَور مخلص دوستوں کی صحبت ملی وہ دُنیا کادولت مندشخص ہے۔جب ہم عصر ، سننے سمجھنے اَور برداشت کرنے والے ہم رکاب نہ ہوں تو زندگی جیتے جی قبرستان ہوجاتی ہے۔اَصغر روشن میرے استاد ہیں ۔اُن کی سنگت میں ڈانٹ ڈپٹ شفقت کی چائے میں گھلی ہوئی آتی ہے۔میری کتاب ‘عظیم ہمالیہ کے حضور ’ میں اُن کے نام کے ساتھ غلطی سے ‘اَکرم ’لکھ دیا۔جس کاانھوں نے مہینوں بُرامنایا۔پھر نیلی آنکھوں میں وہی شرارت ،محبت اَور ملنساری لوٹ آئی ۔
یہاں جنگلوں میں جگہ جگہ لکڑیاں کٹ کر یاکاٹ کر گری پڑی تھیں۔اَپنی اَور پرائی آنکھیں نباتات سے اس قیمتی ذخیرے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔اَردگرد چوٹیاں دیار کے جنگل سے اَٹی پڑی تھیں۔دُودھ رنگ پانی کے جھرنے اِن چوٹیوں سے لُڑھک رہے تھے اَور چھوٹی چھوٹی آب شاریں بنارہے تھے۔یہ آب شاریں اَور جھرنے دُودھیارنگ بکھیرتے دریامیں آن مل رہے تھے۔ان کی آوازوں سے ایک موسیقی پیداہورہی تھی۔اس میں تال ساتھا اَیساتال جو کسی مغنی کے گلے میں یاکسی سازندے کے سازمیں نہ تھا۔اس بہتی ہوئی موسیقی میں ہماری کاریں سڑک پر دوڑ رہی تھیں۔

خوب صورت پربت:۔
مناظر ہمارے اردگرد بکھرے ہوئے تھے۔پڑے ہوئے تھے اَور دُور دُور تک پھیلے ہوے تھے۔قطروں کاسمندر ہوتاہے،موتیوں کی لڑی ہوتی ہے اَور پھولوں کی بہتات ہوتی ہے۔یہاں فطری مناظرکی بہتات تھی۔اگر کسی کی آنکھ میں خار ہے،ٹیڑھ ہے ،حُسن ِ فطرت کی پہچان برائے نام ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ صرف خود منظری کے لیے ادھر کاسفر نہ کرے۔
اِن بہتات میں پھیلے مناظر میں دومتوازی پہاڑوں کے درمیان ایک خوب صورت پربت کاحسین منظر تھا۔جیسے دومتوازی دیواروں کے سامنے تیسری کسی نقش گر یاکسی مصور نے سنواردی ہو۔بادل کی سفیدٹکڑیاں اِس پربت کی چوٹیوں پر منڈلا رہی تھیں۔گاڑی جُوں جُوں آگے بڑھ رہی تھی۔منظر واضح ہوتاجارہاتھا۔ پہاڑ وضاحت کے ساتھ خود کو بلند اَور بلند پھر اَور بلندکیے جارہاتھا۔جیسے ہمیں دکھانے کے لیے خود کواَپنی خوش قامتی کو ظاہر کررہاہو۔اَب رستے میں ٹیڑھ میڑھ آنے لگی۔یُوں سمتیں لمحہ بہ لمحہ بدلنے لگیں۔اِن بدلتی سمتوں میں باہر کھڑی خوب صورت مصوری کو نظر بھر کر دیکھناممکن نہ رہاتھا۔
آخر کار گاڑی ایک مقام پر رُکی توشیشے سے اِس کے سامنے والی پہاڑی پر درختوں کاہرابھراجنگل کھڑاتھا۔جب کہ وہ مصوری یہاں پس منظر میں چلی گئی تھی۔سڑک کنارے لگے کتبوں سے لگتاتھاکہ یہ لوات کے بعد ‘لوات کھڑی ’اَور اس کانواح ہے۔

دواریاں اَڈہ :۔
ہماری منزل رتی گلی جھیل تھی۔سوراحیل خورشید کو کِسی معاون نے کہاتھا۔دواریاں آجاناآگے مَیں سنبھال لوں گا۔اَور اَب راحیل خورشید اُسے ڈھونڈتے پھر رہے تھے کہ کہاں گیا۔ساتھ سردار عاشق صاحب بھی تلاش میں تھے کہ آے اَور ہمیں سنبھالے۔دواریاں ایک چھوٹاسابازار ہے۔پہاڑوں کے قدموں میں ایک پگڈنڈی نماسڑک کے دواطراف،لب دریااَور ایک پہاڑ ی ندی کے قرب میں آباد ہے۔اِک چھوٹی سی سڑک موڑکاٹ کر مزید دریاکنارے چلی گئی تھی۔اَکثر سیاح اَپنی گاڑیاں یہاں لگاتے ہیں اَور پھر جیپیں انھیں بلندیوں تک لے جاتی ہیں۔

شاہ کار:۔
ہم گاڑیوں سے نکل کر سڑک پر کھڑے ہوئے تو کسی مصور کاتخلیق کیاہوافن پارہ سامنے تھا۔پربتوں نے مل کر جو منظر تشکیل دیاتھا۔وہ دُنیا کے حسین منظرو ں میں سے ایک تھا۔سارے کے سارے پہاڑ دیاروں سے بھرے ہوئے تھے۔سربہ فلک چوٹیاں اَور اِن پرسر بہ فلک دیار۔ایک مقامی آدمی کے مطابق مشرقی سمت ذرابائیں ہاتھ سامنے والی چوٹیاں اَور اِن پر سر بہ فلک گھنے دیاروں کے جنگل ،ان پر بساگاوں ‘لڑیاں ’ہے۔چوٹی کانام ‘لڑی ’جب کہ گاؤں لڑیاں۔لڑیاں ایک ڈھلان نما،سبزے سے رچاگاوں ہے۔کھیتوں میں مکئی لہلہارہی تھی۔ہماری پُشت پر دواریاں ڈنہ تھا۔لڑیاں کی پچھلی طرف والی ڈھلان پر عظیم جمہوریہ ،بندوق تانے زبردستی یوم جمہوریہ بنوانے میں مصروف تھی۔
اس اَڈے سے پُتلیاں جھیل اَور رتی گلی تک الگ الگ رستے جاتے ہیں۔بلکہ رستوں پر چلنے والے جاتے ہیں۔پُتلیاں ایک دلرباء وادی ہے۔اِس وادی میں ایک جھیل رہتی ہے۔اُس کاحُسن اَب نقاب کُشائی کرچکایُوں چرچے دُور دُور تک ہیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اَگر پُتلیاں جھیل خوب صُورت ہے تو پُتلیاں وادی کاحُسن خوب تر ۔راحیل خُورشید کسی سیانے سے پُوچھ رہے تھے بتاؤ  پُتلیاں تک کتناوقت لگے گااَور رتی گلی تک کتنا۔؟

میر سفر سردار عاشق حسین کاکہناتھاکہ ہم نے جانارتی گلی ہی ہے۔دواریاں اَڈہ سے ہم کھسکتے چلتے ذراپیچھے چلے آئے۔نہ سڑک کُشادہ تھی نہ اس کے کنارے۔یہاں پربتوں کا ڈیرہ تھااَور پربتوں کے دامنوں اَور قدموں میں جگہیں زیادہ کُشادہ نہیں ہواکرتی۔اَیسانہیں کہ پربت تنگ دل وتنگ دامن ہوتے ہیں۔بَس پربتوں کارہن سہن ،تہذیب اَور مزاج اَیساہی ہوتاہے۔ہم پربتوں کے بالکل قدموں میں کھڑے تھے۔ہمارے ہمارے قدموں تلے جو زمین تھی ۔اُس سے کچھ قدم نیچے زمین کے فرش پر دریابہہ رہاتھا۔ہردریا،ہرسمندر زمین کے فرش پرسوتاہے اَور چلتاہے۔ہم فرش سے کچھ میٹر اُوپر سڑک کنارے کھڑے تھے۔ہمارے اَردگرد سیاح تھے،چھوٹے چھوٹے ہوٹل تھے ۔درس گاہوں میں پڑھتے لوگ تھے۔جہاں جیون اُمید ،جوش وخروش اَور خوابوں کے گلستانوں میں اُڑتاپھرتاہے۔چند طالبات اَو ر طلباہمارے آس پاس چہل قدمی کررہے تھے۔خوابوں کے بسے نگر ،ان میں اُونچے اُونچے محلات ،رُومانس میں ڈُوبی دُنیا اِن کے چہروں اَورحُلیوں سے چھلک رہی تھی۔شعلہ سالپک جاے ہے ۔اَنداز تو دیکھو۔اَور پُرعظمت پربت اَپنے قدموں میں اُڑتے ٹکراتے ان خوابوں پر متبسم ہورہے تھے۔

علماکرام :۔
سیاح آجارہے تھے۔ایک قدقامت دیار تلے علماء کرام کی مجلس ہورہی تھی۔عصر حاضر کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام ایک چوڑے دیار تلے پلاسٹک کی کُرسیوں پر رونق افروزتھے۔مثلاًحضرت مولانا عمران رزاق ،حضرت مولانا کاشف نذیر،علامہ راحیل خورشید،علامہ اعجاز یُوسف ،علامہ شفقت ستی اَور علامہ ومولانا سردار عاشق حسین ۔علم کے موتی چھماچھم برس رہے تھے کہ یہ طالب علم بھی سہماسُکڑا ایک نشت پرجابیٹھا۔کریمانہ موتیوں کی بارش اچانک تھم گئی۔شاید وقفہ ہوگیاتھا۔عالمانہ مجلس اَب چائے کاانتظار کررہی تھی۔میزپر نیسلے کی بوتل سے پانی کااک گھونٹ لیاتو علامہ عمران رزاق نے انتہائی شائستگی اَور آہستگی سے فرمایا ۔یہ پانی ٹھیک نہیں ہے۔چائے آئی سب نے ایک ایک گھونٹ لے کر واپس رکھ دی ۔یہ کسی اَناڑی باورچی کاابتدائی شغل تھا۔گرم اَور بے ذائقہ پانی پیالیوں میں ہی واپس کردیاگیا۔

کشن گنگایہاں ایک تنگ گزرگاہ ہے۔بڑے بڑے پتھروں کو دیکھ کرنہیں لگتاکہ ان کے درمیان بہنے والاپانی کادھارااپنے ہاں بہت ہی گہرائی چھپاے بیٹھا ہے۔یہاں یہ مکمل ایک پہاڑی دریاکی شکل میں بہے جارہاہے۔رونقیں اَور میلے یہاں سیاحوں کے دم سے ہیں۔ورنہ اس ندی کے کنارے پانی کی گونج اَور ٹھنڈی ہوائیں ہوتی ہیں۔اگست کے مہینے میں ہریالی کاجوبن ہوتاہے۔
علما  کرام نے مختلف موضوعات پر پھر سے لب کُشائی فرمائی۔مولاناراحیل اَور علامہ کاشف نذیر نے میری جیب میں پڑے مسواک اوصاف حمیدہ وجلیلہ بیان فرمائے۔اَیسے فضائل پہلے کبھی کسی عالم باعمل سے نہ سُنے تھے۔

علامہ ومولانا عمران رزاق مدظلہ وعالیہ اَہل کلیساکے ہم مجلس و ہم مشرب رہ چکے تھے۔اَہل فرنگ اَور فرنگانا جلوے ہمارے حضرت کے لیے آج بھی آہیں بھر رہے ہیں۔ہمارے دیگر علامہ جیسے اعجاز یوسف،کاشف نذیر اَور اَنحضرت علامہ عمران رزاق اَہل فرنگ کی خوب روئیاں اَور خوش نمائیاں قسطوں میں بیان فررہے تھے۔

مواعظ حسنہ سے مستفید ہوچکاتھابل کہ سیر ہوچکاتھا۔علم کیمیامیں کچھ اصطلاحیں ہیں ۔غیر سر شدہ،سیر شدہ اَور سپر سرشدہ۔پہلے میں سیری کی بہت گنجائش ہوتی ہے،دوسری قسم میں بعض حالات میں گنجائش آجاتی ہے۔جیسے کھاناکھایا ہو مگر کسی طعام گاہ کے باہر کوئی کھاجا،اُس کی خوش بو آپ کی اشتہابڑھادے تو مزید کچھ لقموں کی گنجائش آپ کاشکم بنالیتاہے۔یہ سُپر سیر شُدہ کہلاتاہے۔یعنی اَیساسیرشد ہ کہ جس میں مزید کسی سیری کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہو ۔اَگر سپر سیر شدگی کے بعد بھی آپ کچھ کھائیں گے تو نتیجہ خطرناک ہوتاہے۔یہاں تک کے طیبیب بھی آپ کی زندگی کے زمہ دار نہیں رہتے۔بس دعاکریں کہتے ہیں۔ یُوں اس سیری کے بعد مزید کسی سیری کی ضرورت نہ تھی۔لِہٰذا وہاں سے اُٹھ کر دریا کے بہاو کو دیکھنے لگا۔دیار کی بڑی بڑی لکڑیاں ،پورے پورے تنے دریامیں کھڑی چٹانوں اَور مشکل کناروں پر پڑے تھے ۔راحیل کامعاون ہمارے لیے جیپوں کاانتظام کرچکاتھا۔قافلہ وہاں سے اُٹھا تو دواریاں چوک میں جاکھڑاہوا۔گاڑیاں نیچے کھڑی کردی گئیں ۔سامان جیپوں میں رکھاجانے لگا۔پھولے ہوے چند بستے دو جیپوں میں لاد دیے گئے۔

وہ حسین چوٹی جسے مَیں بار بار دیکھنے کی تمنا کرتارہاتھامیرے سامنے تھی۔مگر نامکمل حُسن کے ساتھ ۔اُس کاوجود اِک پربت نے آگے کھڑے ہو کر ڈھانپ لیاتھا۔حُسن جب ادھورہ ہو کر سامنے آے تو طلب مزید بے قرار ہوجاتی ہے۔بے قراری کو قرار کی غذا نہ ملے تو بے چارگی ،تڑپ اَور بے چینی جیسی بیماریاں حملہ کردیتی ہیں۔اِس ادھورے حُسن سے نظریں ہٹیں توپالڑی پر بسے گاوں پر نظریں رک گئیں ۔بادل کی سفید ٹکڑیاں اِس کی چوٹی پر آوارہ ہوچکی تھیں۔چوٹیوں پر منڈلارہی تھیں۔پربتوں کے دامن میں سبزے سے بھری وادیاں تھیں ،نیلے نیلے قدقامت اشجار تھے ۔تراشیدہ بدن چوٹیاں حسین تھیں ،بلند تھیں اَور اُن میں سے ایک پر بادل کی ٹکڑیاں اس کے ماتھے کابوسہ لے رہی تھیں ۔یہاں اَیسے مناظر لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہیں ۔آنکھیں انھیں دیکھتی ہیں اَور دیکھنے کی عادی ہیں ۔مگر کسی مصورکی نظر سے یہ کائنات ابھی اوجھل ہے۔جس حُسن پر عاشق کی نظر نہ پڑے وہ حُسن ادھورہ رہتاہے۔یہاں اس وادی کا،اس دیس کا،ان پربتوں کاحُسن ابھی ادھورہ ہے۔
مَیں اس منظر سے سنبھلاتو جیپیں گرک رہی تھیں۔مسافر سوار ہورہے تھے۔ہم چوں کہ پہاڑوں اَور یہاں کی بلندیوں کے بالکل قدموں میں کھڑے تھے۔پہاڑوں کے قدموں میں جگہ تنگ تھی۔دوپربتوں کے درمیان ایک سڑک اُس کے اردگرد بازار اَورساتھ کشن گنگاکاپاٹ حائل تھا، پہاڑوں نے بلندیوں کو چھولینے کاعزم کررکھاتھااَور اَیساہی کیے جارہے تھے۔اَطراف کے یہ بلندقامت پربت اَگر ایک دوسرے پر آن گریں تو کشن گنگاایک بڑی جھیل تخلیق کرنے میں دیر نہ لگائے گا۔پربتوں کی بلندیوں کو دیکھیں تو سورج دیوتا کی چمکیلی کرنیں مشکل پیداکرتی ہیں۔اَگر سر پر ٹوپیاں ہوں تویہاں لازما ً نیچے آ گریں گی۔سامنے کی سمتوں میں ایک طرف ایک اَور چوٹی تھی۔چوٹی کوئی بھی ہو،وہ ایک مشکل اَور مغرور حسینہ ہوتی ہے۔جو اپنے عشاق کو کوہ پیمائی کی دعوت دیتی ہے۔اَپنی مشکل ترڈھلانوں کو اَور مشکل کرتی ہوئی ،اَپنے وجود کوسکڑا کر کھڑی ہوجاتی ہے۔یہی حُسن کی مغرورانہ اداہے ۔جس پر فطرت پرست جان چھڑکتے بازی لگادیتے ہیں۔یہ خوبصورت چوٹی ‘رِچ بانیاں ’تھی۔اس کے اِردگر د اَور آمنے سامنے سے دُودھیاآب شاریں گررہی تھیں اَور مل کر ساز بجارہی تھیں۔فطرت کی گود میں جو حسن ہے،ساز ہے ،نغمگی ہے وہ صنائع گروں میں کہاں ۔یہ چنوتی فطرت کی طرف سے ہمیشہ رہے گی۔

چاروں سمت پانیوں کی آوازیں تھیں۔ٹھنڈی دھیمی ہوائیں تھیں اَور اس بیچ جیپوں کی گڑگڑاہٹ ۔شفقت سوار ہوچکاتھا۔اَب آخری مسافرمَیں تھا۔مجھے مجبور کیاگیاکہ تین لوگوں کے درمیان میں بیٹھ جاوں ۔جب کہ شفقت سامان کے ساتھ سمٹ کر بیٹھ گیا۔یہاں بیٹھنا میری خواہش تھی ۔مگر بعد پتہ چلاکہ مَیں فائد ے میں رہا۔اَگلی نشستوں پراَمیر کارواں اَور ایک مسافر اَور براجمان ہوگیا۔درمیانی نشست پر ایک طرف عمران رزاق دوسری طرف کاشف نذیر بیٹھ گئے اَوردرمیان میں مَیں سمٹ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جیپ چل پڑی ۔دُبلی پتلی اَور سُکڑی سکُڑی سڑک اَور بائیں ہاتھ ایک پہاڑی نالاتھا۔پتھریلااَور گدلا۔اَگردُنیاکی ساری ندیوں میں کہیں کوئی کمی ہے تویہی ہے۔اُن کاگدلاہونااَور پھر پتھریلاہونا۔دُنیابھر کی میدانی ندیوں میں قاتل جانور رہتے ہیں جوچشم زدن میں بڑے بڑے گھوڑے ہڑپ کر جاتے ہیں۔کشمیر کی تمام ندیاں اَورنالے اس آفت سے پاک ہیں۔یہاں ٹراوٹ مچھلیوں کی اقسام صا ف آب رواں ،سونااَور سبزیاں پائی جاتی ہیں۔پتھریلااَور گدلاہوناایک فطری عمل ہے۔یُوں کسی بھی طرح بُرانہیں ۔ہرشفافیت کو گدلے پن سے آلودہ ہوناہوتاہے۔یہ عمل صفائی کاایک خوب صورت مگر پوشیدہ عمل ہے۔جو فطرت ہر ندی ہردریاکے ساتھ کرتی ہے۔ندیوں کاغسل صحت اُن کاظغیانیوں میں گدلاہوکرنتھرنا ہے۔یُوں بھی حضرت اقبال کہَ گئے ہیں ۔
؂
نہیں کوئی چیز نکمی زمانے میں
کوئی بُرانہیں قدرت کے کارخانے میں
جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply