“مثل برگ آوارہ”سے
اس شام میں نینا کو ساتھ لے کر مولوی مشتاق کے ہاں دعوت میں چلا گیا تھا۔ معلوم یہ ہوا کہ مولوی صاحب نے مقامی ایم این اے کو پہلے سے مدعو کیا ہوا تھا، مجھے انہوں نے شاید نینا کی وجہ سے دعوت دی تھی تاکہ ایک تو “انگریز” عورت سے اپنی بیبیوں کو متعارف کروائے، دوسرے ایم این ے کو متاثر کرے کہ ان کے ہاں غیر ملکی مہمان بھی آتے ہیں۔ جہاں تک تعلق تھا مولوی مشتاق کی خوشی کا تو کوئی ایسی بات نہیں تھی، میں نے سوچا تھا لیکن مولوی نے جب ایک بار پھر منافقت سے کام لیتے ہوئے ایم این اے کو بتایا کہ نینا ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ ہیں تو مجھ سے نہیں رہا گیا تھا میں نے کہا تھا،” مولوی صاحب میں پہلے بھی آپ کو بتا چکا ہوں کہ یہ خاتون میری بیوی نہیں بلکہ میری دوست ہے” مولوی کی تو سٹی گم ہو گئی تھی، اس نے خجل مسکراہٹ مسکرانے پر اکتفا کیا تھا۔ دروازے کے پیچھے اس کی “پاکباز” بیبیاں بھی سن رہی تھیں کہ ایک مرد کی “غیرمحرم” دوست عورت ان کے ہاں بیباکی کے ساتھ چلی آئی ہے۔ میں دل ہی دل میں ہنس رہا تھا۔
لفظ انگریز بھی خوب رہا۔ جب قصبے میں بچے گوری عورت کو دیکھ کر کہتے تھے “انگریز ہے انگریز” تو نینا نے پوچھا تھا کہ یہ انگریز کیا ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ ویسے تو انگلستان کے رہنے والے کو انگریز کہا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں گوری رنگت والے ہر غیر ملکی کو عموماً انگریز کہہ دیتے ہیں۔ اس پر وہ جز بز ہوئی تھی اور کہا تھا کہ وہ انگریز نہیں روسی ہے۔ مجھ سے کراچی میں جس بھی انجان شخص نے اس خاتون کی شہریت سے متعلق پوچھا تو یہی بتایا تھا کہ یونانی ہے۔، نینا کے نقوش یونانی تھے۔ اس کے والد یونانی النسل تھے۔ میرا ایسا کرنے کی ایک وجہ تھی۔ ان دنوں کراچی میں عام لوگ، روس سے آنے والی ہر عورت کو بلا تخصیص سن و سال بدکار عورت خیال کرتے تھے۔
دلچسپ امر یہ تھا کہ ان دنوں کاروبار کی آڑ میں بدکاری کرنے کی خاطر آ کر صدر کراچی کے ہوٹلوں یا کراؤن پلازہ ہوٹل میں قیام کرنے والی بیشتر خواتین روس سے نہیں بلکہ روس سے علیحدہ ہونے والی وسط ایشیا کی ریاستوں سے آیا کرتی تھیں چونکہ ان کی اکثریت روسی النسل ہوتی تھی اس لیے لوگ انہیں روسی سمجھتے تھے۔
نینا نے صبح بیدار ہونے کے بعد جو پہلا کام کیا تھا اس نے نہ صرف گھر کے سبھی افراد کو حیران کر دیا تھا بلکہ ان کی نظروں میں اس کی توقیر بڑھ گئی تھی۔ اس نے جھاڑو اٹھا کر صحن صاف کرنے کی کوشش کی تھا جو ظاہر ہے میری بہنوں نے کرنے نہیں دیا تھا لیکن اس عمل سے سب اس کے ساتھ گھل مل گئے تھے۔ چونکہ میں نینا سے اس کے بیٹے ساشا کے توسط سے مانوس ہوا تھا، اس لیے میں ساشا کی طرح اسے “ماما” پکارتا تھا۔ ظاہر ہے مطلب ساشا کی ماما ہوتا تھا، چنانچہ گھر میں سبھی کم عمر افراد نے اسے “ماما” کہہ کر ہی پکارنا شروع کر دیا تھا۔ اب اس لفظ “ماما” کو بھی مشرف بہ پاکستان و اسلام کرنے کی خاطر میری بہنوں کو ہمسائیوں سے کہنا پڑا تھا کہ “ماما” اس خاتون کا نام ہے۔ یقیناً انہوں نے یہ بھی کہا ہوگا کہ روسی خاتون میری بیوی ہے تبھی تو محلے کے ایک حاجی نے مجھ سے کہا تھا،”بھائی شادی کرنی تھی تو اس کی بیٹی سے کرتے، ہم عمر سے شادی کرنے کی کیا تُک تھی” مجھے اس کی اس بات پر غصہ تو بہت آیا تھا لیکن میں چپ رہا تھا۔
میرے آبائی گھر میں نینا کا بہت اچھا وقت گذرا تھا۔ میرے اگلے پروگرام میں نینا کو بس کے ذریعے قصبے سے براہ راست لاہور لے جانا شامل تھا۔ اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ لاہور میں مقیم اپنی دونوں بہنوں میں سے کسی کے ہاں قیام نہیں کروں گا بلکہ نینا کے ساتھ غزالہ نثار کے ہاں ٹھہروں گا۔ میں نے اس سلسلے میں غزالہ سے فون پر بات بھی کر لی تھی جو انہیں ٹھہرانے پر بخوشی رضامند ہو گئی تھی۔
بس کا سفر رات بھر کا تھا۔ درمیان میں بس ساہیوال رُکی تھی وہاں میں نے نینا کو “کڑک چائے” پلائی تھی۔ صبح تڑکے لاہور میں بند روڈ پر واقع اڈے میں بس سے اترے تھے، رکشہ میں سوار ہو کر ٹاؤن شپ، بڑی بہن کے ہاں پہنچے تھے، جہاں ہمیں ناشتہ کروایا گیا تھا۔ بڑی بہن نے مسکراتے ہوئے مجھ سے پوچھا تھا، ” تم دونوں کو ایک ہی کمرہ دینا ہوگا یا علیحدہ علیحدہ کمروں میں سوؤ گے؟”
میں نے بہن کے طنز بھرے استفسار کا جواب انتہائی سنجیدگی سے یہ کہہ کر دیا تھا کہ “ہم آپ کے ہاں قیام نہیں کریں گے بلکہ غزالہ کے ہاں رہیں گے” بہن یہ جواب سن کر چپ ہو گئی تھیں۔
دو گھنٹے بہن کے ہاں گذارنے کے بعد ہم دونوں کو میرا بھانجا اپنی کار میں غزالہ کے ہاں چھوڑ آیا تھا۔ غزالہ ہمارے پہنچنے پر بہت خوش ہوئی تھی۔ میں نے نینا کو لاہور کے قابل دید مقامات، گلیاں، لوگوں کا رہن سہن دکھائے تھے۔ میرا بس نہیں چلتا تھا ورنہ ہیرا منڈی بھی دکھا دیتا۔ جہانگیر کے مقبرے سے شاہدرہ تک تجربے کی خاطر ایک عام مسافر بس میں سفر کروایا تھا۔ اپنے دوست چوہدری الیاس کے قصبے مریدکے لے گیا تھا۔ بڑے زمیندار گھرانے کی زندگی سے لے کر صنعتی مزدوروں کی زندگی تک میں اسے شامل ہونے کا موقع فراہم کیا تھا۔ چوہدری الیاس نینا اور مجھے اپنے مربعوں پر لے گیا تھا جہاں نینا نے گنا چوسا تھا۔ زراعت پر جی بھر کے اپنی رائے دی تھی۔ میں ترجمہ کرتا رہا تھا۔ زراعت سے متعلق اس کی معلومات سے حیران ہو کر چوہدری الیاس نے کہا تھا، “بئی لگدا اے، بی بی ارین اے”۔ میں ہنس پڑا تھا اور کہا تھا کہ ارائین ہے تو نہیں مگر ارائین میزبان کے ہاں ٹھہری ہوئی ہے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں