ڈاکٹر طارق صدیقی مرحوم۔۔۔ڈاکٹر طفیل ہاشمی

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں بہت عرصے سے کوئی وائس چانسلر نہیں تھے. غلام اسحاق خان نے اپنے بیوروکریٹ دوست ڈاکٹر طارق صدیقی کو وائس چانسلر لگا دیا. کئی روز گزر گئے انہوں نے جائن نہیں کیا.

معلوم ہوا بھٹو کے دور میں وفاقی سکریٹری داخلہ تھے. ایک میٹنگ میں کسی مسئلے پر گفتگو جاری تھی، کسی جیالے بیوروکریٹ نے کہا کہ قائد عوام کی یہ خواہش ہے. انہوں نے کہا، ہم قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے.
آگے چلے تو کسی اور آئٹم پر انہوں نے پھر کہا، قائد عوام کی یہ خواہش ہے. انہوں نے جھٹ سے جواب دیا، گولی مارو قائد عوام کو، ہم نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے
شام کو انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا.
جنرل ضیاء الحق بڑی کوشش سے امریکہ سے واپس لائے اور وزارت تعلیم میں سکریٹری لگا دیا. جنرل کی وفات کے بعد غلام اسحاق خان صدر ہوئے تو وہ ان کے دوست تھے. انہوں نے اوپن یونیورسٹی بھیج دیا. ایک دن ا کر جائن کر لیا. لگ بھگ مہینہ ڈیڑھ مہینہ تمام شعبوں سے میٹنگ کرتے رہے. جب سب کچھ اچھی طرح سمجھ گئے تو پھر میٹنگز کا نیا دور شروع ہوا. ہر شعبے سے کہا گیا کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کے سمسٹر وائز شیڈولز بنائیں. لوگ پرجوش ہوتے ہیں اور مہینوں کا کام ہفتوں میں کرنے کی حامی بھر لیتے ہیں لیکن انہوں نے ہر شیڈول کو مزید وقت دے دیا اور اس کے بعد ہر شعبے سے کہا کہ یونیورسٹی آپ کی ہے آپ نے چلانی ہے، میرا کام یونیورسٹی کے لئیے فنڈز لانا ہے. ہر کام شیڈول کے مطابق ہو، میری منظوری کی ضرورت نہیں ہے. جہاں کہیں میری مالی منظوری کی لازمی ضرورت ہوئی تو آپ کام کریں، خرچ کریں، میں جب یونیورسٹی میں ہوا اور آیا تو منظوری دے دوں گا. اس وجہ سے کوئی کام رکنا نہیں چاہئے. اس پالیسی کی وجہ سے یونیورسٹی جو دو سمسٹر پیچھے تھی اپنے مقررہ وقت پر آ گئی. ملازمین کی طرف سے یونیورسٹی کے خلاف لگ بھگ چار پانچ سو کیس تھے. اور انتظامیہ ان کے بارے میں کوئی اقدام کرنے کو تیار نہیں ہوتی تھی کہ Sub judiousہیں. تمام کیسز کی فائلیں منگوائیں. ایک ایک فائل خود پڑھی اور متعلقہ فرد کو بلا کر اسے اس کا حق دے دیا. ایگزیکٹو کونسل کی اگلی میٹنگ میں تمام فیصلوں کی منظوری لے کر نوٹیفکیشن کر دیے گے اور تمام کیسز یکبارگی ختم ہو گئے. رجسٹرار ناراض ہی رہا لیکن اتنی قدآور شخصیت کے سامنے کوئی چوں چرا نہیں کر سکتا تھا. ایک بار مجھے چند ورکشاپس دیکھنے پشاور اور سوات سے لے کر کراچی تک تمام قابل ذکر شہروں میں جانا تھا. وی سی تھے نہیں. میں کسی منظوری کے بغیر سارے ملک کا دورہ کر کے واپس آ گیا اور آکر دورے اخراجات وغیرہ کی منظوری لے لی. سب کے ساتھ یہی برتاؤ تھا کہ کام نہیں رکنا چاہیے. منظوری ہوتی رہے گی.
کچھ تو مجھے کام کرنے کی بہت عادت تھی اور کچھ میرے پاس کام بھی بہت تھا جبکہ انہیں علمی موضوعات پر گپ شپ کا بہت شوق تھا. کبھی میرے گھر ا کر قالین پر لیٹ جاتے کبھی مجھے بلا لیتے. ایک روز مجھے فون کیا کہ ہاشمی صاحب، کیا کر رہے ہیں، آجائیں، میں نے کہا سر، آپ کو تو کام کوئی نہیں ہے مجھے بہت مصروفیت ہے. کہنے لگے.
آئیں آپ کو ایڈمنسٹریشن کا گر بتاتا ہوں. میں چلا گیا، کہنے لگے
پہلا گر یہ ہے کہ
خود وہ کام کرتے ہیں جو دوسرا نہ کر سکے
دوسروں کو کام دو، ان پر اعتماد کرو
یہ بات پہلے سے ذہن میں رکھو کہ اس معیار کا نہیں ہوگا جو تم چاہتے ہو لیکن اسی طرح سیکھیں گے اور بتدریج پرفیکٹ ہو جائیں گے.
ہمیں یونیورسٹی میں مختلف پراجیکٹس کے بجٹ بھی بنانے ہوتے. ایک بار میں نے بجٹ بنا کر بھیجا تو فون آگیا
میں نے کہا آپ کو سلام کر لوں
بیوروکریسی میں اس کا مطلب کسی ماتحت کو بلانا ہوتا ہے
میں چلا گیا
کہنے لگے، یہ جو آپ نے بجٹ بنایا ہے اسے میں اپروو کر دیتا ہوں لیکن ہر بار خرچ کرنے کے لیے آپ کو نئے سرے سے منظوری لینا پڑے گی. اس کو یوں بنا کر لائیں اور اپنی مرضی سے خرچ کرتے رہیں.
اسی دوران میں فاروق لغاری جو ان کے شاگرد بھی تھے، ماتحت بطور ڈپٹی سکریٹری کام کرتے رہے، صدر پاکستان ہو گئے اور خورشید شاہ جو وزیر تعلیم تھے، یونیورسٹی میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتے. بھلا جس نے قائد عوام کو گولی مارنے کا کہہ دیا تھا اس کے سامنے شاہ جی کس باغ کی مولی تھے. درویش صفت وائس چانسلر نے ایک دن فاروق لغاری کو استعفیٰ بھیج دیا کہ آپ اپنی مرضی کا وائس چانسلر لگا لیں. لیکن جب آئے تھے تو یونیورسٹی دیوالیہ ہونے جا رہی تھی اور ایک سال بعد جب چھوڑ کر گئے تو لبالب بھری ہوئی تھی. خود ان کی تنخواہ کئی مہینے بعد یونیورسٹی نے بھیجی. قلندر صفت شخص تھے.
ان کی اہلیہ نگار آپا بہت دانشمند، مضبوط، خواتین کے حقوق کی علمبردار “عورت فاؤنڈیشن” کی بانی تھیں. ڈاکٹر صاحب نے کئی بار مجھ سے ذکر کیا کہ حدود آرڈیننس کے قوانین اسلام سے ہم آہنگ نہیں ہیں. ان کا علوم اسلامیہ کا مطالعہ بہت وسیع تھا. میں نے ٹال دیا کہ بڑے بڑے علما نے بنایا ہے درست ہوگا. آخر ایک بار کہنے لگے کہ ایک مرتبہ پڑھ تو لو، اس میں انسانی قوانین کو الہامی قوانین کا درجہ دیا گیا ہے. ان کے اصرار پر میں نے پڑھا تو معلوم ہوا کہ ان میں خاصے سقم ہیں چنانچہ انہیں کی خواہش پر میں نے اپنی کتاب
حدود آرڈیننس کا جائزہ، کتاب و سنت کی روشنی میں لکھی، جو عورت فاؤنڈیشن نے شائع کی.
اسلام آباد میں ان کا سسرال تھا. آپا نگار کی وفات کے بعد ان سے ملاقات نہیں ہوئی. پہلے وہ اسلام آباد آتے رہتے تھے اور جب بھی آتے تو مجھے ملنے گھر پر آ جاتے تھے

Advertisements
julia rana solicitors london

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
طفیل ہاشمی

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply