سوتیلی ماں جیسی ریاست۔۔ایم اے صبور ملک

سوال اس بات کا پیدا ہوتا ہے کہ بالآخراہل مذہب کا مقدمہ کیا ہے؟یہ کیوں خود کو ایک مخصوص خول میں بندکئے ہوئے ہیں اور بضد کہ لوگ ان کی خواہشات کے مطابق چلیں،ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے،دُنیا میں اور بھی مسلم ممالک ہیں،جہاں مولوی کا ادارہ نجی کی بجائے سرکاری ملکیت میں ہے اور وہاں ریاست کو سرکاری احکام کی بجاآوری کے لئے صرف ایک سرکاری حکم جاری کرنا پڑتا ہے اور اہل مذہب ہو ں یا اقلیتی،ہر ایک خاموشی سے اس پر عمل کرتا ہے،کہیں سے ایک آواز تک نہیں بلند ہوتی،اور ایک ہم ہیں جو ہر بات کرنے سے پہلے ان کے ناز اُٹھاتے ہیں،اور یہ ایسے ہیں کہ پھر بھی مان کر نہیں دیتے،جس ریاست کے قیام کی تحریک کے دوران بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ پاکستان ایک نان تھیا کریٹک سٹیٹ ہوگئی،وہاں ریاست کا اہل مذہب کے ہاتھوں یرغما ل بن جانا ریاست اور ریاستی اداروں کی کمزوری ہی شمار ہو گئی،اصل میں اس کی ابتداء اُسی وقت ہوگئی تھی جب پاکستان کے قیام کے مخالف کانگریسی علما ء نے جناح کی آنکھیں بند ہوتے ساتھ اور سیاستدانوں کی اقتدار پر کمزور گرفت اور آپس کی سرپھٹول ہوئی،اور کوئی متفقہ آئین نہ ہونے نیز قیام پاکستان کے محض 9سال بعد ہی پہلے مارشل لاء کے نفاذکے بعد پاکستان عملاً ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا،1962کے آئین کے نفاذ اور عائلی قوانین کے بننے پر بھی اس ادارے کی جانب سے مخالفت سامنے آئی،ایسا صرف ہمارے ہاں نہیں ہوتا،بلکہ یہ اہل کلیسا کے ہاں بھی صدیوں سے رائج ہے،ابھی جو اٹلی میں کورونا وائرس سے تباہی ہوئی اس کے پیچھے بھی اہل مذہب کی ہی ضد کارفرما تھی جو لاک ڈاؤن کے دوران چرچ کھولنے پر مصر تھی،ابھی کل کی بات ہے چرچ کی جانب سے گلیلیو کے ساتھ کیا سلوک ہوا،وہ تو صنعتی انقلاب آیا اور مغرب میں چرچ کو ریاست کے معامات سے الگ کردیا گیا،ورنہ یورپ آج بھی تاریک ہوتا،لاوڈ سپیکر کی ایجاد ہویا ریل گاڑی،کیمرے سے تصویر کا معاملہ ہویا پتلون کوٹ پہننے کا مولوی کا ادارہ ہر جگہ مخالفت میں سرفہرست رہا،ان کی اسی ضد اور زمانے کو اپنی اپنی فقہ اور 1400سال پہلے کے رسم ورواج کے مطابق چلانے کا نتیجہ ہے کہ آج پوری مسلم دُنیا کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے لئے مغرب کی جانب دیکھ رہی ہے،وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب ہے،لوگ کورونا سے مر رہے ہیں،پوری دُنیا میں ہر مذہب کی عبادت گائیں بند ہیں،مکہ اور مدینہ میں کرفیو کا سا سماں ہے،لیکن قربان جائیے پاکستان کے مولویوں کے کیا مفتی تو کیا دوسرے حضرات بس ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ رمضان میں تراویح،نماز اور جمعہ کے اجتماعات نہیں رکنے چاہیئیں،یعنی ان کا اسلام باقی دُنیا اور اہل حرم سے الگ ہے،سمجھ سے بالاترہے،اور ریاست بیچاری بھی ڈر کے مارے ایوان صدر میں ان کو بلا کر انہی کی شرائط مان کر سرکاری اعلان کردیتی ہے،یعنی ریاست بجائے اپنی رٹ قائم کروانے کے اُلٹا ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے،جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی یہ لوگ پاکستان کے ٹھیکیدار بن گئے تھے،اور ان کو بڑھاوا ہمیشہ دور آمریت میں ملا،جیسا کہ ایک جنرل نے محض اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مذہبی کارڈ کا خوب استعمال کیا اور اہل مذہب نے بھی اس دور میں خوب ترقی کی اور اس میں چند ہمسایہ ممالک نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا،پاکستان کو مسلکی اور فروہی گروہوں میں تقسیم کرنے اور اپنے اپنے فرقے کوپروان چڑھانے کے لئے جابجا مساجد اور مدرسے کھولے گئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے،مذہب کے نام پر کاروبار اور اپنے کارربار کو مذہبی رنگ دینا تو کوئی ہم سے سیکھے،اس سے منافع بخش کاروبار اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا،بس کسی بھی جگہ پر دواینٹیں رکھ کر مسجد بنائیں،ایک چندہ بکس رکھیں،دو تین معصوم بچے لے آئیں جن کو چندہ اور مولوی کی روٹی پانی اہل علاقہ سے اکٹھی کرنے کے کام پر لگائیں اور چند دن بعد چل سو چل،نہ کوئی این او سی نہ کوئی تجربہ نہ کوئی ٹیکس،مسجد مدرسہ کھولنا سب سے آسان کام ہے،انسانی زندگی کے اہم ترین اور ہر شعبے کا احاطہ کرنے والے دین کا کام ہمارے ہا ں ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے اور صدیو ں پہلے لکھی گئی لایعنی کتابوں کو پڑھ کر مولوی بننے والے کے سپرد ہے،آج تک اہل مسجد ومدرسہ سے صدیاں گزر گئیں کوئی اہل ہنر پیدا نہیں ہوا،کوئی کوپرنیکس کوئی گلیلیو،کوئی مادام کیوری اور کوئی سٹیفین ہاپکنز پیدا نہیں ہوسکا،اور آج بھی ہمارے ہاں اس مولوی کی وجہ سے انگریزی تعلیم حاصل کرنا کفر میں شمار کیا جاتا ہے،ایسے میں کورونا وائر س کی اس وبائی دور میں جب کہ مذہب کا ادارہ اس کے سامنے بے بس اور ناکام ہو چکا ہے،بجائے ان کو سدھارنے کے ان کی بے بجا ضد کے آگئے لیٹنے پر مجبور ہیں،اور کل کیا اُمید کی جاسکتی ہے کہ یہ لوگ مسلم دُنیا کی ترقی کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنا حصہ ڈالیں گئے؟یہ اکیسویں صدی ہے،بارہا لکھا کہ اب یہ روایتی مذہب نہیں چلنے والا،اگر دُنیا میں ترقی کرنی ہے تو یہ صدیوں سے بے کار حاصل کیا جانے والا علم ترک کرکے زمانے کے ساتھ چلنا ہو گا،یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔لوگ سوال اُٹھاتے ہیں کس کس کا منہ بند کرو گے،یہ تو ایک بہتا دریا ہے جس کی روانی کے آگئے بند باندھا گیا تو یہ اپنے ساتھ ان سب کو بہا لے جائے گا،تروایح کی نماز تو ویسے بھی فرض نہیں پھر اس پر اتنا زور اور رمضان میں مساجد کھولنے پر زور دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مسئلہ مذہبی یا دینی نہیں بلکہ مالی ہے کیونکہ رمضان میں عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ چندہ جمع ہوتا ہے،لہذا اپنی روزی روٹی کے لئے خدارا باقی ملک اور شہریوں کو موت کے منہ میں مت دھکیلیں،اس کا نتیجہ اتنا ہولناک اور تباہ کن نکل سکتا ہے کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے،ریاست کا بھی فرض ہے کہ وہ بجائے ان کی ضد اور انا کے سامنے سرنڈر کرنے کے سختی سے کام لے،اگر ملک اور دُنیا میں باقی ادارے کاروباری مراکز ایک سرکاری حکم سے بند ہو سکتے ہیں تو ان پر وہ
قانون کیوں نہیں لاگو ہوتا؟یا پھر یوں کہنا چاہیے کہ ہماری ریاست سوتیلی ماں بن چکی ہے جو ان کے ساتھ ملکر اپنی سوتیلی اولاد کو جان بوجھ کر مارنا چاہتی ہے۔سوچئے گا ضرور۔۔۔؟؟؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply