اٹل بہاری واجپائی اور مسلمان ۔۔۔ محمد غزالی خان

سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری (پیدائش 25 دسمبر 1924 متوفی 16 اگست 2018 ) کی موت کے بعد جہاں بھارتی اور بین العقوامی ذرائع ابلاغ میں آنجہانی کو تعریفی کلمات کے ساتھ یاد کیا جا رہا ہے اور انہیں بہترین خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے وہیں ان کے خلاف سوشل میڈیا پر شدید ررد عمل بھی دیکھنے میں آیا ہے ۔ ظاہر ہے بد زبانی اور نا شائستہ زبان کسی کے خلاف بھی استعمال نہیں کی جانی چاہئے اور کسی کی موت پر ایسا کرنا تو بہت ہی گراوٹ کی بات ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنجہانی کے بارے میں اس عام تاثر کے باوجود کہ وہ بہت معتدل ، با اصول اور با اخلاق سیاست داں تھے ، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی پوری زندگی انتہا پسند انہ سیاست میں گزری ۔ اس کے باوجودان کی موت پر سوشل میڈیا پر استعمال کی جانے والی سخت زبان ایک غیر اخلاقی اور قابل مذمت حرکت ہے ۔ البتہ اس کے بر عکس آنجہانی کی تعریفوں میں جو پل باندھے گئے ہیں اور ان کے اعلیٰ اخلاق کی جو توتعریفیں کی جارہی ہیں وہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کی یاد داشت واقعی بہت کمزور ہے۔ بد زبانی کرنا ایک بات ہے اور حقائق کو پس پشت ڈال کر حقائق کو توڑ مروڑ دینا اور مرنے والے کی قابل مذمت سیاست کو نظر اندز کرکے اس کے جرائم پر پردہ ڈالنا دوسری بات ہے۔

آنجہانی کی تعریفیں کرنے والے شاید اس تلخ حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ جس طرح مودی نے گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی لہروں پر سوار ہو کر وزارت عظمیٰ تک کا سفر طے کیا ہے اسی طرح ایل کے اڈوانی کے ذریعے پھیلائی گئی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہروں پر سوار ہو کر اٹل بہاری جی بھی وزارت اعظمیٰ تک پہنچے تھے۔ ایل کے اڈوانی کی اس زہر افشانی اور مسلم مخالف ماحول کے بارے میں اگر ملت کے یہ دانش ور بھول چکے ہیں تو لیجئے پڑھئے اور یاد کیجئے اس ماحول کو اگل بہاری واجپائی کی قیادت میں ان کے معتمد خاص اور نے 80 کی دہائی میں ہندوستان میں پیدا کیا تھا:

’’1929 کے موسم سرما میںیہ جرمنی کی وائمرریپبلک کی ناکامی کے ساتھ تباہ کُن افراط زرتھا جس کی وجہ سے نیشنل سوشلسٹس پارٹی کا عروج ہوا۔ 1990 کے موسم سرما میں اسی طرح کے واقعات نے ہندو بنیاد پرست پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (یا بی جے پی)کو مقبولیت دے دی ہے۔ 1984 کے انتخابات میں بی جے پی کو محض دو نشستیں مل پائی تھیں۔ گزشتہ سال اس نے 88نشستیں جیت لیں۔ جب چندر شیکھر کی بھان متی کا کنبہ والی حکومت گرے گی(اور کم ہی لوگوں کو 1991 کے موسم بہارسے آگے تک اس کے بچنے کی امید ہے) تو اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ شمالی ہندوستان میں بی جے پی سب کو بہا کر لے جا ئے گی ۔۔۔ بی جے پی کیلئے اقتدار تک کا راستہ صاف کرنے کے پیچھے جو شخص ہے اور اس کا نام ایل کے اڈوانی ہے۔۔۔بی جے پی کے اس انقلاب سے پہلے پر اسرار طریقے سے ہزاروں اشتعال انگیزکیسیٹس تقسیم ہوئے تھے۔۔۔ان کیسیٹس کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف کھلے عام تشدد کو فروغ دیا گیا ہے۔ ’ہمارا مادر وطن رضاکاروں کو پکار رہا ہے ، ان جاں بازوں کو پکا ررہا ہے جوقوم کے دشمنوں ] یعنی مسلمانوں[ کو ذبح کر کے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں‘ یہ ایک ایسی کیسیٹ میں کہا گیا ہے جو مجھے اپنے گھر کے نزدیک بازارسے ملا ہے ، ’ہم بابر ] سلطنت مغلیہ کا بانی[ کی اولاد وں کے ہاتھوں مزید ظلم برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر اس کیلئے سڑکوں پر خون بہانے کی ضرورت ہے توپھر ایک مرتبہ سڑکوں پر خون بہا ہی دیا جائے۔۔۔دہلی کے ڈرائنگ رومز میں فسطائیت ایک فیشن ایبل شے بن گئی ہے، تعلیم یافتہ لوگ بلا جھجک آپ سے کہیں گے کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کی تادیب کرہی دی جائے اور یہ کہ وہ گندے اور جنونی ہوتے ہیں، وہ خرگوش کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں۔جہاں ایک طرف زبانی جمع خرچ کرنے والے صرف باتیں کررہے ہیں تو دوسرے لوگ براہ راست اس پر عمل کررہے ہیں۔ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں پرانی دہلی میں آگ لگی ہوئی ہے اور ہند و اور مسلمان یہ کام سڑکوں پرانجام دے رہے ہیں‘‘ (برطانوی جریدے اسپیکٹیٹر 8 دسمبر 1990 میں معروف برطانوی مصنف ، صحافی اور براڈکاسٹر ولیم ڈالرمپل کی ایک طویل تجزیاتی رپورٹ سے ماخوذ)۔

کیا کسی کو یاد ہے کہ واجپائی جی نے کسی بھی موقع پر ایل کے اڈوانی کی ایسا کرنے سے روکا ہو یا کم از کم اس پر تشویش کا اظہار ہی کیا ہو؟

آنجہانی ہی کی زیر قیادت بی جے پی نے جو کام کئے ان کی مزید چند مثالیں یہ ہیں:

اتر پردیش میں1992 میں بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کے دور حکومت میں بابری مسجد شہید کی گئی۔ کلیان سنگھ نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ہندو احیاء پرستی کے دیگر اقدامات کے علاوہ 1997 میں سرکاری اسکولوں میں سرسوتی پوجا اور وندے ماترم کا گایا جانا ضروری قرار دیا۔ اس کے بعد سے آج اس روایت عمل کیا جا رہا ہے جسے کوئی دوسری حکومت ختم نہیں کر پائی۔

واضح رہے کہ سنگھ پریوار نے انتہا پسندی پر سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ کر مسلم دوستی کا پہلا ڈرامہ 1977 میں ایمرجنسی کے بعد ہونے والے انتخابا ت میں کیا تھا جس کے بعد اس کے ارکان بڑے بڑے عہدوں پر فائض ہو گئے اور اڈوانی جیسے شخص کے ہاتھوں وزارت اطلاعات و نشریات لگی۔ سنگھ پریوار نے اس دور کو ہندوتوا کے اپنے ایجنڈے کے اطلاق کیلئے بھر پور طریقے سے استعمال کیا جس کا اثر بی جے پی کی نام نہاد رام جنم بھومی تحریک اور اڈوانی کی رتھ یاتر ا میں ریٹائرڈ اعلیٰ فسران، پولیس اور فوج کے ریٹائرڈ ملازمین کی شمولیت کی شکل میں دیکھنے کو ملی۔ بابری مسجد کی شہادت میں ریٹائرڈ فوجی اہل کاروں کی شمولیت کو حال ہی میں کوبرا پوسٹ نے افشاں کیا ہے۔ نیز ممبئی کے سابق پولیس کمشنر ستیے پال سنگھ اور سابق فوجی سربراہ وی کے سنگھ کی بی جے پی میں شمولیت اس ذہر پر مکل اور افسوسناک تبصرہ ہے جو سنگھ پریوار نے پولس ، فوج اور سرکاری دفاتر میں پھیلا دیا ہے۔

گجرات مسلم نسل کشی 2002 کے بعد آنجہانی کے اس بیان کا با بار حوالہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے مودی کو راج دھرم نبھانے کی بات کہی تھی۔ جی ہاں وہ پریس کانفرنس ہمیں بھی یہ بات یاد ہے اور ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ انھوں نے اسی کی وجہ یہ بتائی تھی : ’’میں شرمندہ ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں جن مسلم ممالک کا دورہ کرنے جا رہا ہوں وہاں کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘ آنجہانی شام کے دورہ پر جانے والے تھے۔ مگر جیسا کہ ہر ہندوستانی مسلمان کو اندازہ تھا کہ شام کیا کسی بھی مسلم ملک میں گجرات کے بارے میں ان سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا شام کے دورے پر بھی یہ یہوا۔، دورہ سے وپسی پر یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سابر متی ایکسپریس کی آنش زنی میں آئی ایس آئی ملوث ہو سکتی ہے تو انھوں نے وہی راگ الاپا جو ایسے موقعوں پر تمام غیر مسلم سیاست داں کرتے آئے ہیں : ’’ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ البتہ بادی النظر میں یہ ایک منصوبہ بند حرکت معلوم ہوتی ہے ۔‘‘

یو ٹیوب پر ان کی ایک نہیں متعدد تقاریر موجود ہیں جن میں اشتعال انگیزی صاف طور پر سنی جا سکتی ہے اور جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بابری مسجد پر نام نہاد کار سیوا پر اڈوانی کے پوری طرح ساتھ تھے۔

خارجہ امور میں کانگریس کے ساتھ ان کے تعاون کو بھی ان کے کھلے ذہن کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک سچے حب الوطن تھے مگر تمام وزرائے اعظم کی طرح ان کی حب الوطنی کی تعریف میں مسلمانان ہند کا کردار اس سے زیادہ نہیں تھا کہ وہ ملک میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہیں۔ واضح رہے کہ نہ یہ کہ وہ بی جے پی اور سابقہ جنگ سنگھ کے بڑے لیڈروں میں سے تھے وہ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ تھے اور اس کے فلسفے سے پوری طرح متفق تھے۔ جی ہاں وہی آر ایس ایس جس کے بانی کیشو بلی رام ہیڈ گوار نے اپنی کتاب We; or, Our Nationhood Defined, Nagpur 1939 میں صاف طور پر لکھا ہے:

Advertisements
julia rana solicitors london

’’ہندو استھان میں موجود غیر ملکی نسلوں کو لازماً ہندو تہذیب اور زبان اختیار کرلینی چاہئے، لازماً ہندو مذہب کا احترام کرنا سیکھنا چاہئے۔ ہندو قوم کی بڑائی کے علاوہ ان کے ذہن میں کوئی بات آنی ہی نہیں چاہئے۔ یا پھر وہ ملک میں ہندو قوم کے تابع رہیں، کسی چیز کا مطالبہ نہ کریں۔ کسی خاص قسم کے برتاؤ کی تو بات ہی کیا انہیں کسی بھی مراعت کا حق نہیں ہوناچاہئے۔ ان کے لئے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہونا ہی نہیں چاہئے۔ ہم ایک قدیم قوم ہیں، آئیے ہم غیر ملکی قوموں سے اسی طرح نمٹیں جس طرح قدیم قومیں غیر ملکی قوموں سے نمٹا کرتی ہیں۔‘‘ نہیں تو، گولوالکر کے مطابق: ’’ہماری نسلی حمیت ہمارے مذہب کی دین ہے اور ہمارا تمام تر تمدن ہمارے مذہب کی پیدا وار ہے۔۔۔نسلی پاکیزگی کی بقا کیلئے سیمیٹک نسل۔یہودیوں۔ کا صفایا کر کے جرمنی نے دنیا کو چونکا دیا۔ یہ حرکت نسلی فخر کی مظہر ہے۔ جرمنی نے یہ بھی ثابت کردیا کہ مختلف نسلوں اور ثقافتوں کا آپس میں ضم ہو نا اور ایک قوم بن جانا نا ممکن ہے۔ یہ ہمارے یاد رکھنے اور فائدہ اٹھانے کیلئے ایک سبق ہے۔‘‘

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply