کشن گنگاکی وادی(قسط7)- جاویدخان

گزشتہ قسط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

 

 

 

 

قسط6

کیرن اَور کیرن کی اِک پگڈنڈی :۔
دُھوپ اُجلی وادی پر پڑرہی تھی اَور ہم وادی ِکیرن جاپہنچے۔یہاں بھی دریاکے پار اَور آر دونوں جانب کیرن ہے۔دریا پار عظیم جمہوریہ یوم آزادی کی تیاریاں کررہی تھی۔جمہورت تھی کہ اِس یوم پر اِٹھلاتی جارہی تھی۔جمہوریت دُور کسی نگر سے دوڑتی ہانپتی پار دریاکنارے آن کھڑی اِدھر دیکھ رہی تھی۔سانسیں پھولی ہوئیں ،نسیں تنی ہوئیں اَور تھکن سے ٹانگیں کانپتی ہوئیں ۔جمہوریت کی گھوڑی بدمست تھی ،بے لگام تھی اَور بے لگامی میں یہاں تک چلی آئی تھی۔اَور اَب سوچ رہی تھی کہ دریا پار کرنا چاہیے یانہیں کرناچاہیے تو کیسے ۔؟ کب اَور پھر اس کے بعد کیاکوئی کھونٹا مل پاے گا یابدمستی ہی رہے گی۔بے قابوگھوڑیاں جتنی ہی لاڈلی کیوں ناہوں ۔؟ اَپنے ہی سواروں کو سر کے بل اُچھال دیتی ہیں۔مستیاں ہمیشہ نہیں رہتی ۔سواَیسی گھوڑیاں لاڈ میں پالی جائیں یامجبوری میں خطرہ موجود رہتاہے۔

بہت پہلے مَیں اپنے طلبا کے ساتھ یہاں آیاتھا۔تب دریا کے چوڑے پاٹ کے کنارے شام ڈھل رہی تھی۔اس طرف سیاح تھے جو دریاکوبہتادیکھ رہے تھے اَور دریا پار وادی ،گاؤں ،گھروں اَور گھروں میں بسے لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔پار دریاکنارے لوگ گھروں کے صحن میں بیٹھے اِس طرف سیاحوں کودیکھ رہے تھے۔پھر شام گہری ہونے لگی ،دریاپار گھروں سے دُھواں اُٹھنے لگا۔ایک لڑکی پگڈنڈی پر پانی کاگھڑا سر پر اُٹھائے چل رہی تھی۔زندگی چل پھررہی تھی۔بہ ظاہر سب ٹھیک تھا۔پہرہ گاہیں نظروں سے اوجھل تھیں۔البتہ تاروں اَورسلاخوں کی ایک باڑ سلگتی پگڈنڈیوں میں گُم ہوگئی تھی۔یہ اَمن قائم کرنے اَور پہرے کو دوام بخشنے کے لیے لگائی جارہی تھی۔رات اَور دن اس میں برقی روئیں دوڑیں گی۔اَور اَب یہ برقی روئیں ساری کنٹرول لائن پردوڑ رہی ہیں اَور اَمن قائم کرکے خوش ہورہی ہیں۔اس طویل باڑ میں جگہ جگہ کھمبے گاڑھے گئے ہیں جو شام ہوتے ہی روشنی بانٹنے لگتے ہیں۔یہ برقی لکیر ،ایک روشن لکیر، جو رات کوبڑی بڑی آنکھیں روشن کیے پہرہ دیے جارہی ہے۔میرے گھر سے بھی پیر پنجال کے نیچے ایک ٹیکری پر بل کھاکرگم ہوجاتی ہے۔

ہر روشن آنکھ میں روشنی نہیں ہوتی ،جیسے ہر کُھلی آنکھ میں بصارت نہیں ہوتی ۔جیسے نہ ہی ہر بصارت کے پردے میں بصیرت ہوتی ہے۔بالکل ایسے ہی ہر اَمن میں شانتی نہیں ہوتی۔ جبر اَور پہرے کے ساے میں بیٹھااَمن ،کسی بھی وقت بداَمنی پہ آمادہ ہوسکتاہے۔جبرکی چھتری تلے پالاہوااَمن کسی بھی لمحے بغاوت کرسکتاہے۔بالکل اَیسے ،جیسے کِسی فاختہ کو،طوطے کو،جنگلی تیتر کو پنجرے میں سالوں رکھا جائے اَور کسی دن مان لیاجائے کہ اَب یہ پرند پالتو ہوگیاہے ،پالتو نہیں تو باعزت نام میں اَب گھریلو ہوگیاہے۔اَور پنجرہ کھُلتے ہی وہ کھُلے نیلے آکاش میں چہکتاہو ااُڑان بھر لے۔قید کاپنچھی کبھی گھریلو نہیں ہوتا۔یہ بصیرت بھری حکائتیں مثنوی مولائے روم میں بھی ہیں۔بَس مثنوی میں قیدی پرندوں کو ایک داناپرندہ کام آتاہے۔وہ سوداگرکو جس نے ان پرندوں کو قیدکررکھاہے ، رمزیہ پیغام بھیجتاہے۔سوداگر یہ رمزیہ پیغام قید میں پنچھیوں کو پہنچاتاہے۔پرندے پیغام سُنتے ہی پنجرے میں گِر جاتے ہیں اَور مر جاتے ہیں ۔پشیمان سوداگر اَفسردہ اَفسردہ پنجرے کادروازہ کھولتاہے اَورمُردہ ہوئے پرندوں کو باہر پھینک دیتاہے۔مُردوں میں ایک دم زندگی آجاتی ہے اَوروہ پُھر سے اُڑکردرختوں پر جابیٹھتے ہیں ۔چہچہاتے ہیں اَور خوش ہوتے ہیں ۔تب لالچی سوداگر حیران ہوتے ہوئے پوچھتاہے کہ یہ کیا۔؟تب ایک ذرا جلد باز اَور باتونی پرندے سے رہانہیں جاتااَور وہ علان کرتاہے ۔اَئے بے وقوف سودہ گر۔۔! تمھاراپیغام دراَصل ہمارے بزرگ اَور مُرشد کی طرف سے ایک ترکیب تھی ۔جو تمھارے ذریعے سے ہی سمجھائی گئی تھی ۔ہم نے مرنے کاناٹک کیا اَور تو نے ہمیں مُردہ سمجھ کر باہر پھینک دیا۔لواَب ہم آزادہیں ۔

پگڈنڈی پرگھاگراٹھاگے لڑکی اَب گھر پہنچ چکی تھی۔شام ڈھلے گھاگریں اٹھاے پگڈنڈیوں سے گزر کر پانی بھر لانا ۔دیہاتوں اَور پہاڑوں کارواج ہے۔اَور اس رواج میں ایک تہذیب ہے ایک حُسن ہے ،ایک اَدا ہے۔ڈھلتی شاموں میں ،گھاگروں میں پانی بھرنا ،اُنھیں خالی نہ چھوڑنا ،لبالب بھر کر رکھنا،کھاناپکانااَورکھاناکھلانا۔یہ تہذیب صرف وصرف پہاڑوں میں ہے،کھیت کھیلیانوں میں ہے،نخلستانوں میں ہے ،دیہاتوں میں ہے اَورصرف وصرف اِنسانوں میں ہے پھر انسانوں میں صرف و صر ف لڑکیوں میں ہے۔ کسی دیہاتن ،کسی دوشیزہ اَورکسی الہڑ کہساری دوشیزہ کاپاکیزہ ،الوہی حُسن شام ڈھلے گھاگرا اُٹھاکر پگڈنڈی پر چل کر گھر آنے میں ہے۔یہ حسن ،یہ ڈھلتی اَور ڈھلکتی شامیں اَب بہت سے دیہاتوں اَور کہساروں کے دامن سے رُخصت ہوچکی ہیں۔

کہسار،پربت،کھیتوں کی مینڈیریں ،اَور بہت سارے دیہات اَب اُداس ہیں کہ اک تہذیب اُن کے دامن سے رُخصت ہوگئی ہے یعنی فطرت سے الہڑ دوشیزگی رُخصت ہوگئی ہے۔
سالوں پہلے جب مَیں یہاں آیاتھاتو دریاپار ذرا بائیں ایک مسجد تھی اَور پھر کچھ دیر بعدوہاں سے اَذان ِمغر ب کی آوازبلندہوئی ۔بالکل کنارے دریا ایک کھیت کٹاؤ کی زدمیں تھا۔اس سے اُوپر گھر تھاجس کی ملکیت یہ کھیت تھا۔گھر کے صحن میں لوگ بیٹھے تھے۔دیکھتے دیکھتے گھور اندھیرا اُتر آیااَور پھر گہراہوتاگیا۔پار گھروں میں بتیاں جل اُٹھیں ۔تب وہ دن اَمن کے تھے۔اَمن کے دنوں میں باڑو ں کے سامنے وہ ایک دن تھا،وہاں ایک شام ہوئی تھی،وہ شام اَب بھی میری یادوں کی بیاض میں پڑی ہے۔وہ کٹاہواکھیت ،وہ دریاکاچوڑااَور سرد پاٹ ،اُس کنارے پر بساہواگاؤں میری یادوں کی بیاض میں پڑے رہیں گے۔

اَمن کی ساعتوں پر بھی جب پہرے کڑے ہوں تواَمن کتنااُداس ،مُرجھایا ہوااَور سہماہواہوتاہے۔جیسے ایک جنگلی کبوتر ،ایک فاختہ ،ایک قُمری ،ایک بُلبُل سلاخوں کی قید میں خوش نہیں رہ سکتے اَیسے ہی اَمن پہروں کے درمیان سانس تو لیتاہے،مُسکرانہیں سکتا۔

کٹاؤ والے کھیت کے نزدیک اَب ایک چوکی تھی۔گاڑی سے سارے نظارے ممکن نہ تھے۔مگر اُس طرف پہاڑ کے پیچھے سے ایک سڑک آکر دریا پار کنارے پر اختتام کررہی تھی۔چوکی کے گرداگرد سفید ی پھیری گئی تھی۔بڑی سی سیمنٹ کی سل پر ترنگارنگاگیاتھا۔اسی سل پر ایک لوہے کی سلاخ آسمان کو بلندہوئی ،ہوئی تھی۔سلاخ کے سرے پر بھی ترنگاپھڑپھڑارہاتھا۔اَمن کااَوراس زمین کااپناترنگاگُم تھا۔انا،خودسری ،زورازوری کے ترنگوں کی عمریں زیاہ نہیں ہوتیں ۔وہ کسی دن یاد رہنے والی دھتکار اپنے پیچھے چھوڑ کر اُتر جاتے ہیں یابوسیدہ ہوکرگر جاتے ہیں ۔کل یہاں جمہوریت کی کنیاکنواری ناچ کرنے آرہی تھی ۔یوں یہ رنگ،روغن اُس کا استقبال تھا۔

‘صحر اکاشیر’نامی انگریزی فلم میں عمرمختار کے گوریلوں اَور میسولینی کی فوج کے درمیان ایک جھڑپ کے بعد جب میسولینی کاساراقافلہ گوریلوں کے ہاتھوں مر جاتاہے ۔توصرف ایک کم عمر لیفٹیننٹ بچتاہے۔اُسے عمر مختار کے پاس لایاجاتاہے۔عمر مختار زمین پر پڑے اِٹلی کے جھنڈے کو اٹھاتاہے جھاڑتاہے اَور دشمن کے بچے آخری سپاہی کو پرچم تھماتے ہوئے کہتاہے۔‘‘لڑکے یہ جھنڈااپنے شاہ کودے دینااَور کہہ دینا کہ یہ جگہ تمھارے لیے نہیں ہے۔’’

عمر مختار کوپھانسی دے دی گئی ۔لیبیاپر میسولینی کاقبضہ ہوگیا۔مگر آج بھی ناولوں اَورفلموں کاہیرو عمرمختار ہے میسولینی نہیں اَور پھر وہی ہوا۔میسولینی کاقبضہ بھی انجام کوپہنچا۔عمرمختار کاکردار زندہ ہے۔میسولینی کانہیں۔ترنگے اَور جھنڈے گاڑناکب ناممکن رہا۔مگر وقت بدلتارہتاہے ،ہوائیں رخ پھیر لیتی ہیں اَور کبھی اتنی زور سے چلتی ہیں کہ نیم جان ترنگے پہلے لہراکر، پھر پھڑاتے ہیں پھر پھڑپھڑاکر پھر بے رنگ ہوکر پھٹ کر زمین پر آن گرتے ہیں ۔وقت کی عدالت سب محفوظ کرلیتی ہے۔اَور اچانک فیصلہ سنادیتی ہے۔فلم‘ صحراکاشیر ’میں میسولینی بھی ہے اَور عمرمختار بھی ۔مگر عنوان نے فیصلہ عمرمختار کے حق میں دے دیا۔وقت کافیصلہ بھی یہی ہے۔کیرن سے آگے ہی کشن گنگا کاحُسن شروع ہوتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply