حرام خور۔۔آصف اقبال/افسانہ

 جب سے سڑک سامنے کی سڑک بنناشروع ہوئی تھی ۔ گاڑیوں کی آمد و رفت بہت کم رہ گئی تھی۔ رانی چادر پر پڑے اپنے تینوں بچوں کو دیکھ دیکھ کے سوچ رہی تھی  ان کمبختوں میں اضافہ ہی نہ ہو جائے کہیں۔۔ یہ تینوں پے در پے آن پڑے تھے۔بچے تو اس کے پہلے بھی دو تھے لیکن بشیرےنے جب اسے گھر سے نکالا تھا   تو بچے خود رکھ لئے تھے۔۔ اس کو کسی نے بتایا تھا کہ اس کی بیٹی اب کسی امیر گھرانے میں صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہے  اور بیٹابشیرے کی گدھا ریڑھی  چلانے کے قابل ہو گیا ہے ۔ وہ اس آس پر بھی بعض اوقات گاڑیوں میں بیٹھ جایا کرتی تھی  کہ کسی بڑی گاڑی میں کہیں کسی دن بیٹی ہی مل جائے۔ لیکن جب بھی کسی گاڑی کا دروازہ کھلتا  کوئی اکیلا سیٹھ ہی ملتا۔ منہ   سے بدبو آتی  اور باتیں ایسی کرتا کہ جیسے رانی اصل میں رانی ہے۔۔
رانی کی بسر اوقات رات کے پچھلے پہر گزرنے والی گاڑیوں پر ہی تھی۔۔ بشیرے نے جب اسے گھر سے نکالا تھا۔ تو اس کے پاس جانے کو کوئی گھر نہیں تھا۔ تبھی ایک بوڑھے نے اسے مشورہ دیا کہ یہاں اس فٹ پاتھ پہ مسواک رکھ کے بیٹھ جایا کرے رات کے پچھلے پہر۔۔ اور اس کے بدلے میں باقی وقت اس کی جھگی پہ گزار لیا کرے۔ رانی کو اپنی ماں کی بات یاد آئی کہ جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا خدا ہوتا ہے اور وہ مسواک بیچنے وہاں بیٹھ گئی۔۔۔ دو چار دنوں میں ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ پیسے کہاں سے کمانے ہیں اور بوڑھے کو کتنے دینے ہیں۔ رانی کو اس سارے عمل میں کسی بات پہ اعتراض نہیں تھا۔ اس کو بس سونے  کو جگہ چاہیے تھی۔ جو بڈھے کی جھگی کی صورت اسے مل گئی۔
یہاں بیٹھتے ہوئے اب اس کو کچھ سال ہو گئے تھے۔اس کے بیٹھنے کے اوقات بدلتے رہتےتھے۔جب اس کو بچہ ہونے والا ہوتا تو وہ دن میں بیٹھتی تھی۔ورنہ رات کے اسی پہر۔  فٹ پاتھ کئی دفعہ ٹوٹ کے دوبارہ بنی تھی۔ سڑک کئی دفعہ بدحال ہوئی تھی۔ کئی دفعہ خوشحال ہوئی ۔ اب احباب پوچھیں گے۔۔ سڑک کیسے خوشحال ہو سکتی۔ رانی کے لیے سڑک کی خوشحالی کا مطلب یہ تھا کہ گاڑیاں زیادہ گزرنا شروع ہو جائیں، چہل پہل ہو جائے ۔سامنے جو دکان تھی، جس میں کبھی بیکری کھل جاتی، کبھی دہی بڑوں کی دکان، کبھی لانڈری۔۔ وہ دکان چلنا شروع ہو جائے۔۔ تو سڑک کی حالت بدلتی رہتی ۔
ایک دفعہ وہاں ایک عجیب سا ہوٹل بھی کھل گیا۔ جہاں وہ دیکھتی  کہ صرف لڑکا لڑکی اندر جاتے  اور کئی گھنٹوں بعد باہر آتے۔ کبھی ان کے ساتھ کوئی بچہ یا بوڑھا نہ ہوتا، تو بس جب وہ سامنے والی دکان آباد ہوتی تو رانی کے لیے سڑک خوشحال ہو جاتی اور جب اس دکان میں کوئی گاہک نہ آتا  اور مالک بدلتے رہتے تو رانی کے لیے سڑک بدحال ہوتی ۔
رانی کے ساتھ بیٹھنے والے فقیر بھی بدلتے رہتے۔ کبھی کوئی ہٹا کٹا ٹانگ بازو پے پیلا رنگ مل کر بیٹھ جاتا تھا۔ کبھی کوئی بچہ بازو پر پٹی باندھ کر اوپر لال رنگ ڈال کر بیٹھ جاتا تھا ۔لیکن اس کی بکری صرف اسی صورت متاثر ہوتی جب اسی جیسی کوئی اور آ کر بیٹھتی۔ اس نے دیکھا تھا کہ اس کی دن کی  بکری اس وقت بہت زیادہ ہوتی جب اس کو بچہ ہونے والا ہوتا ۔ اور رات کی اس وقت جب مسواک رکھ کے پچھلے پہر بیٹھتی۔
لیکن اب جب سے یہ تیسرا دنیا میں آیا تھا اور سڑک بھی بننا شروع ہو گئی تھی۔ رانی کو کسی قدر پریشانی لاحق تھی۔ ایک تو گاڑیاں چلنا کم ہو گئی تھیں۔ دوسرے سامنے والی  دکان بھی بند ہو گئی تھی، تیسرے،یہ تینوں اب خوراک بھی مانگتے تھے۔ رانی کو اپنے کھانے پینے کی کوئی فکر نہیں تھی  وہ تو اسی سڑک پہ کوئی ہوٹل ڈھونڈتی۔۔۔ رات کا انتظار کرتی  اور جو وہ رات کو باہر پھینکتے اس میں سے کچھ ڈھونڈ کے کھا لیتی۔۔ حالانکہ اس کی ضرورت کم ہی پڑتی تھی۔ لیکن وہ کھانے پینے کے معاملے میں بابے کو زیادہ تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کیونکہ بابا ٹیکوں کا شوقین تھا۔ اس لیے رانی کی کوشش ہوتی کہ بابے کو خرچہ پانی دیکر بھی اتنے پیسے اس کے پاس بچ رہیں کہ بابے کو ٹیکے کی تنگی نہ ہو۔
لیکن اب مسلہ ان تینوں حرام خوروں کا آن پڑا تھا۔
“نیں رانی۔۔۔ ان کو حرام خور نہ کہا کر۔۔۔  ” ایک دن ساتھ بیٹھی۔۔ ایک موٹی فقیرن نے اسے سمجھایا۔۔۔
” لے تو اور کیا کہوں۔۔۔ میرے بھلا کس کام دے۔۔۔۔  الٹا بابے کے ٹیکے کے پیسے بھی ان پہ لگنے لگ گئے ہیں۔۔۔ کسی دن ان کے پاروں جھگی سے نکال دے  گا مجھے وہ “
” کملی۔۔۔۔ اللہ کی دین ہوتے ہیں یہ “
” میں نے کب کوئی اللہ سے مانگے تھے۔۔۔ اس نے خود دیے ہیں۔۔۔ ان کے دال دلیے کا انتظام بھی کر دیتا ساتھ”
موٹی فقیرن نے توبہ استغفار پڑھی اور اپنی جگہ بدل لی۔۔۔۔ اتنی سخت کافر عورت کے ساتھ  بیٹھنے سے اس کو لگتا تھا  بھیک  ملنا تو درکنار کوئی پاس بھی نہیں پھٹکے گا ۔۔۔
اور ایک دن وہی ہوا۔۔ ان تینوں کے کھانے پینے کے مسئلے میں بابے کے ٹیکے کے پیسے نہ بچے۔ سڑک بے آباد پڑی تھی۔ رانی نے ساری کوششیں کر لیں  پر نہ کوئی مسواک والا آیا نہ گاڑی والا۔ صبح جب بابے کو ٹیکے کی ضرورت چڑھی تو وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اور اب وہ اسی فٹ پاتھ پہ بیٹھی سوچ رہی تھی کہ ابھی تو رات ہے کل دن میں وہ کدھر جائے گی۔ اور اگر وہ اسی فٹ پاتھ پہ بیٹھی رہے گی تو نہائے دھوئے گی کہاں سے۔۔۔ اور صاف ستھری نہ ہوئی تو اس کو ساتھ بھی کوئی نہیں لے کر جائے گا ۔ ویسے تو اس کو بابےنے ایک دفعہ سمجھایا تھا کہ رات کو  جس پہر گاڑیوں والے آتے ہیں انہیں صفائی کی ہوش نہیں ہوتی۔۔ جیسے تمھیں بھوک میں نہیں ہوتی۔ جو ملے چٹ کر جاتی ہو۔ باسی ہو یا تازہ۔۔ کوڑے سے اٹھایا ہو۔ یا ہوٹل والے نے پھینکا ہو۔تمھیں کبھی ٹھندٰی مرغی اور ہوٹل والے سالن میں فرق محسوس ہوا ہے۔۔ ؟ نہیں نا۔۔۔ ؟کیوں کہ بھوک بھوک ہوتی ہے۔ جب لگ جائے تو اسے مٹانے کے واسطے ذات ۔دھرم ۔۔ نخرہ ۔۔ سب بھول جاتا ہے۔ ۔ویسےہی یہ گاڑی والے بھوکے ہوتے ہیں۔۔۔  اس پہر انہیں۔۔ فٹ پاتھ پر بیٹھنے سارا دن دھول مٹی میں گندھنے والی کی والی بو اور شام کو گھنٹہ بھر جھگی میں جا کر نہا دھو کر چمبیلی کا تیل لگانے والی کی خوشبو میں فرق تھوڑی پتا ہوتا۔ ۔۔ انہیں تو کھانا چاہیے ہوتا، مرغی ٹھنڈی ہو پچاس روپے والی  یا گرم ہو تین سو روپے والی۔۔۔ اس سے کوڑے کی بدبو کے بھبھکے اٹھیں۔۔۔ یا تازہ کلیوں ایسی مہک آئے ۔ دونوں صورتوں میں وہ بھنبھوڑی جاتی ہے۔۔۔ دانتوں تلے۔۔۔ کچا کچ۔۔ کچا کچ۔۔۔
لیکن پھربھی رانی کا خیال تھا۔ کہ چمبیلی کا تیل اس کی گاہکی بڑھاتا ہے۔ اور اب مسئلہ درپیش تھا ۔۔ بابے نے اسے جھگی سے نکال باہر کیا تھا۔ اور اوپر سے تینوں فٹ پاتھ پر پڑے بلبلائے جا رہے تھے۔۔ وہ ایک کو چمانٹ مار کر چپ کراتی۔۔ تو دوسرا سر آسمان پر اٹھا لیتا۔۔ تھوڑی دیر پہلے کوئی موٹر سائیکل سوار جاتا جاتا دس روپے پھینک گیا تھا تو اس نے ایک گھر جاتے ہوئے سٹہ فروش سے  سٹہ لیکر اپنی اور تینوں پسلیوں پےسیئے ماسوں کی بھوک مٹانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ بس بھوک سے بلبلائے جا رہے تھے۔۔ آخر اسے یاد آیا۔۔۔ کہ اس کی ماں نےایک دفعہ کہا تھا  جب کچھ نہ سوجھے تو دعا مانگنی چاہیے۔۔ خدا سب کی سنتا ہے۔ وہ سب راستے پیدا کرنے والا ہے جب کوئی راستہ نہ ہو۔ اس نے فوراً  چادر اٹھائی اوردعا مانگنا شروع کر دی۔
اللہ میاں بھیج دے کوئی بڑی گاڑی والا۔۔۔اتنی بڑی ہو کہ میرا ۔۔۔۔ ان تینوں حرام خوروں کا  اور بابے کے ٹیکے کا پیٹ بھر جائے۔۔ اللہ میاں تیری مہربانی اللہ میاں۔۔۔
اور دو گھنٹے میں ایک گاڑی والا آ گیا۔۔۔ اس نے تینوں کو ہلنا نہیں۔۔ یہیں رہنا ۔۔ کی دھمکی لگائی اور لپک کے گاڑی میں جا گھسی۔ یہ دھمکی ویسے بہت اوپری ہوتی تھی۔ اس کی تو دلی خواہش تھی کہ وہ خود ہی کہیں ادھر ادھر ہو جائیں  یا کوئی انہیں اٹھا کر لے جائے۔ اور دوبارہ ان منحوس ماروں کی شکل نہ دیکھے۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔۔
پو پھٹنے میں کچھ ہی وقت تھا جب وہ واپس آئی۔۔۔ پلو سے نوٹ بندھے تھے۔۔۔ اسے ساری حیاتی میں دوپٹے کا استعمال بس اب ہی سمجھ آیا تھا۔ کہ اس کے پلو سے نوٹ باندھے جا سکتے ہیں۔ ورنہ وہ ساری عمراس کپڑے کے استعمال کو غیر ضروری ہی سمجھتی رہتی۔ اس نے تینوں کو ہاتھ لگا کر دیکھا ۔ بے سدھ سو رہے تھے۔۔ ایک دوسرے کی پسلیوں میں جکڑے۔ اس نے تینوں کو باری باری چوما۔چھوٹے والے کو اٹھا کر سینے سے لگایا  اور چادر اچھی طرح ان کے اوپر   لپیٹ دی۔ جیسے تین مردوں کو کوئی اکٹھا کفن دے دے  اور کچھ دور ہو کر بیٹھ گئی۔۔۔ گاڑی والا،جو اسے اتار کر گیا تھا۔ تھوڑی دور سے گھوم کر واپس آیا۔۔۔ اور ایک دم فٹ پاتھ پر گاڑی چڑھا دی۔ رانی کو صرف اتنا نظر آیا کہ گاڑی کا پہیہ اتنا بڑا تھا اس کے تینوں حرام خور ایک ہی پہیے کے نیچے پورے  آ گئے۔
صبح ۔۔ اس کے پلو سے بندھے پیسوں سے  بابے نے کفن خریدے  اور ان کو دفنا دیا۔ موٹی فقیرن چند اور ساتھ بیٹھنے والیوں کو لیکر افسوس کرنے آئی۔ تو رانی بابے کی جھگی میں بیٹھی چولہا جلانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
“رانی  اللہ کا مال تھا ۔۔ اس نے لے لیا۔۔۔ “
ہاں ۔۔ چھیمو۔۔۔۔۔ اللہ سب کے راستے بنانے والا ہے” رانی نے کہا۔۔ اور چولہے کو دھونکنی سے ہوا دینے لگی۔۔ جہاں دھوئیں کے غبار سے اس کی آنکھیں ابلی پڑی تھیں!!

Facebook Comments

Asif Iqbal
محمد آصف اقبال تعلیم : ایم فل مارکیٹینگ مینجمینٹ۔۔ یو ایم ٹی لاہور پیشہ : دو یونیورسٹیز میں پڑھاتا ہوں ۔۔۔۔ پڑھنے پڑھانے کے علاوہ زندگی میں کوئی دوسرا شوق نہیں پالا۔۔۔ اکنامکس پے دو کتابیں لکھ رکھی رہیں ۔۔۔ جو اے لیولز کے بچے پڑھتے ہیں ۔۔۔ابھی بزنس پر ایک کتاب پریس میں ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply