جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (1)-حامد عتیق سرور

استاد یوسفی نے آب گم کے پیش لفظ میں اسّی کی دہائی کے اواخر کے حالات پر یہ جملہ لکھا تھا کہ “پاکستان کے حالات کو بہتر بنانا گویا جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ لینا ہے” ۔ یہ اس آدمی کا تبصرہ تھا جو پاکستان بننے سے ٹوٹنے تک ملک کے معاشی حالات براہ راست ایک بینک میں اعلیٰ عہدیدار کی حیثیت سے دیکھتا رہا اور ایک نامور اور حساس ادیب کے طور پر اس معاشرے کے سیاسی اور سماجی ارتقا (زوال) کو محسوس کرتا رہا ۔ بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن کے وقت یوسفی اغلبن یونائیٹڈ بینک کے سربراہ تھے ۔ یہاں سے بے روزگار ہوکر آغا حسن عابدی کے ساتھ بی سی سی آئی چلے گئے اور اس کے کسی سکینڈل کی زد میں آئے بغیر 1990 کے آس پاس واپس پاکستان آگئے اور  اپنی وفات تک زیادہ تر کراچی میں مقیم رہے ۔

اردو ادب میں نثر میں مزاح نگار کی حیثیت میں نظر آنے والا یہ شخص دراصل ہر حوالے سے اردو ادب کا سب سے بڑا نثر نگار ہے۔ جملے کی بنت ، کاٹ اور اثر انگیزی میں کوئی نثر نگار ان کے  پاؤں کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا اور اس میں جب ان کا وسیع مطالعہ ، عمیق مشاہدہ اور بے مثل تجزیہ بھی شامل کر لیں تو تمام اردو ادب میں شعر میں غالب اور نثر میں یوسفی کا کوئی ہمسر نہیں ۔ غالب تو پھر اپنی خانہ ساز اور دیگر غذائی اور سماجی مجبوریوں کے طفیل بادشاہوں اور انگریزوں کے قصیدے لکھتے رہے مگر یوسفی صاحب کو اللہ نے اس سے بھی بے نیاز رکھا ۔

تمہید بے حد طویل ہو گئی کہ یوسفی ہمارے روحانی استاد ، محبوب اور ممدوح ہیں۔ مگر بات پاکستان کے حالات کی ہے جو سدھرنے کی بجائے شاید اس کے قیام سے ہی رو بہ زوال ہیں ۔

پاکستان کے ہندوستان میں واپس ضم ہو جانے کا امکان نہرو ، گاندھی اور آزاد کے ہاں یقین کی حد تک موجود تھا ۔ اس کے بنے رہنے میں شاید کسی حد تک بین الاقوامی طاقتوں( امریکہ ، برطانیہ) کا بھی کچھ کردار رہا ہو گا کہ نہرو کے سوشلسٹ رحجانات کے ساتھ روس اور چین کے کمیونسٹ اور سوشلسٹ ایجنڈا کو روکنے کے لئے انہیں ایسے ملکوں کی ضرورت تھی ( اسی سے ملتا جلتا کام جنوبی کوریا اور جنوبی ویتنام سے بھی لیا جا رہا تھا) ۔ لیاقت علی خان کا امریکہ کے ساتھ ترجیحی تعلقات کا قیام اور پھر بعد میں ہمارا سیٹو اور سینٹو میں جانا انہی وجوہات کی طرف نشاندہی کرتا ہے ۔ پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو واپس اکھنڈ بھارت میں شامل ہونے سے روکنے کی یہ کوشش ہمارے اکابر سیاستدانوں اور اہل حشم کی جانب سے سب سے سہل اور تن آسانی والی آپشن تھی جس کے طفیل ہم 1950 سے 1988 تک کا وقت گزار گئے۔ اس دوران ملنے والی بے شمار فوجی اور مالی امداد کو ہمارے مقتدر لوگوں نے ایسے ہی خرچ کیا جیسے رو بہ زوال مغلیہ حکومت کیا کرتی تھی ۔

پچاس کی دہائی میں ایک اچھے آئینی بندوبست سے انحراف ، من پسند امرا پر عنایات ، عام انتخابات سے فرار اور لیاقت علی خان ، غلام محمد اور اسکندر مرزا ( اور ان سب کے پیچھے ان کے چنیدہ وزیر دفاع کی طاقت ) کی مطلق العنانیت اور اپنے اقدامات کے consequences سے بے پروائی اس بات کی غماز ہے کہ اس زمانے کی سیاست ( اور اس کے بعد آنے والے تمام زمانوں کی سیاست ) صرف ذاتی اقتدار اور اختیار کی consolidation اور توسیع کی خواہش کے علاوہ کچھ نہیں رہی ۔ پاکستان کے دوام کے لئے بطور ایک anti socialist rentier state حاصل کی گئی بین الاقوامی امداد اور تعاون شاید ہمارے تمام بُرے قومی فیصلوں کی بنیادی اساس ہے۔ اس equation میں 60 کی دہائی کے آغاز میں بڑھی انڈیا چائنہ مخاصمت کے  نتیجے میں چین کی امداد بھی شامل کرلیں تو ان بے جا فیصلوں کا جواز اور بھی واضح ہو جاتا ہے ۔

اگر ہمیں اپنے دوام اور بقا کی جنگ اس بین الاقوامی امداد کے steroid کے بغیر لڑنا پڑتی تو شاید آج ہم ایک تن آسان ،امداد کے منتظر ، قرضوں کے متمنی ،صنعت اور حرفت سے نا آشنا اور محمد شاہ رنگیلا جیسے فیصلے کرنے والی قوم کی بجائے شاید تھوڑے سے غریب مگر ذمہ دار فیصلے کرنے والی خوددار قوم ہوتے۔

ہمارے حکمرانوں کے لایعنی اور سمجھ میں نہ آنے والے فیصلے اسی نہ لڑی جانے والی بقا کی جنگ کا شاخسانہ ہیں جو ہماری قوم کی اشرافیہ نے نہیں لڑی (بنگلہ دیش نے یہ جنگ خاص کر اکیسویں صدی میں لڑی اور آج ترقی اور وقار کی راہ پر گامزن ہے ) ۔

ذرا غور کیجیے کہ یہ بقا کی جنگ اگر ہم خود سے لڑتے تو مشرقی پاکستان کے سیاسی اور انٹلیکچوئل ایلیٹ کو معاشی، سماجی اور سیاسی فیصلوں میں اس بُرے طریقے سے نظر انداز کیا جاسکتا تھا؟ کیا ہزار میل کے فاصلے سے بٹے دو حصوں میں 1947 سے 1970 تک عام انتخابات کو avoid کیا جاسکتا تھا ؟ کیا حسین شہید سہروردی، جو متحدہ بنگال کا وزیراعلیٰ رہ چکا تھا ( اور جس کی عوامی مقبولیت مسلم لیگ کے ووٹ بینک کی مرہون منت نہ تھی ) ایک فالج زدہ اور فاتر العقل گورنر جرنل کے فرمان سے وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کیا جا سکتا تھا؟
کیا ہمسائے میں نہرو کے اقدامات کے برخلاف landed elite کی انگریز حکومت کی چاپلوسی سے حاصل کردہ بے شمار رقبوں کو بغیر land reforms کے چھوڑا جا سکتا تھا ؟ کیا 2018 تک ملک میں قبائلی علاقے انگریز کے پولیٹیکل ایجنٹ کے انتظام سے چلائے جا سکتے تھے ؟ کیا بلوچستان کی صوبائی حیثیت 23 سال تک روکی جا سکتی تھی ؟ کیا لائسنس راج سے جنم لینے والی صنعتی ، بینکنگ اور تاجر اشرافیہ کو امیر سے امیر تر ہونے کی اجازت دی جاسکتی تھی ؟ کیا کسی کو مشرقی پاکستان کے ملک کا حصہ ہوتے ہوئے اور کراچی کی demography کو سمجھتے ہوئے پوٹھوہار کی ایک غیر آباد جگہ پر دارالحکومت بنانے کی اجازت دی جا سکتی تھی ؟( کراچی کی وسیع الاقوامی بنت ، اس کی بندرگاہ اور جغرافیائی حیثیت اس بات کی متقاضی تھی کہ یہ ہمیشہ ایک capital territory رہتا ۔ اگر کراچی اپنی بوہیمین اساس برقرار رکھتا اور اگر نیشنلائزیشن نہ ہوتی تو دوبئی ، دوحہ ، ابوظہبی اور بنکاک آج بھی تیسرے درجے کے شہر ہوتے )

پھر بہت سے ایسے مسائل بھی تھے جو بنیادی سماجی اور جمہوری ارتقا کے عمل سے انحراف کے باعث اور بقا کی جنگ لڑنے سے گریز کی وجہ سے ہمارے مقتدر طبقے کے سامنے آئے اور ہمارے کم نظر ، اقتدار کے دوام اور سستی مقبولیت کے خواہاں لوگوں نے وہ فیصلے کیے کہ جس کے نتیجے میں ہمارے سماج میں تھیوکریسی نے اپنی جڑیں مضبوط کیں اور جس کے باعث آج ہم اکثر معاملات میں آج کے سعودی عرب سے بھی زیادہ کٹر ، شدت پسند اور (کمزوری کے باوجود) اپنی رائے کو مطلق سمجھنے اور اس پر عمل درآمد کروانے پر مُصر رہنے والا معاشرہ ہیں جس کے سفر کی سمت ہمیں بین الاقوامی تنہائی کی طرف لے جانے پر گامزن ہے ۔

اگست 1947 سے دسمبر 1971 تک کے غیر ذمہ دارانہ ، لایعنی اور ذاتی اقتدار کو دوام دینے کے “مخلصانہ” فیصلوں کی ایک لمبی تاریخ ہے جن کا مکمل احاطہ اس تحریر میں ممکن نہیں ۔ یہ نہیں کہ اس دور میں زرعی اور صنعتی ترقی ناپید تھی یا عوام اور حکومت کسی حد تک (خاص طور بھارت اور قریبی ممالک کے مقابلے میں ) خوشحال نہ تھی مگر یہ سارا بندوبست شاخ نازک پہ وہ آشیانہ تھا جس کی ناپائیداری کا مرض آج بھی ہمیں کھا رہا ہے ۔ اس سے آگے چلیں تو ایک وقفہ کٹے پھٹے پاکستان کو اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا کرنے کا ہے جس میں 1972 سے 1977 کے اچھے بُرے فیصلے ہیں ۔ پھر ہماری جہد للبقا سے عاری 1979 سے 1988 اور پھر دوبارہ 2001 سے 2007 ، جہاں ہماری فرنٹ لائن خدمات ہمیں درست معاشی، سماجی اور سیاسی ارتقا سے پرے رکھتی رہیں۔ اس میں نوے کی دہائی اور 2008 سے آج تک کا سفر بھی شامل کر لیں جب ہم نے اپنا رہن سہن، فیصلوں کا طریقہ اور قومی عادات وہی رکھیں جو امداد اور قرض کے بگاڑے ، فقرے رئیسوں کی ہوتی ہیں ۔

یاد رہے کہ فیصلوں اور حکومت کے مروجہ انداز سے مختلف نتیجوں کی توقع کو آئن سٹائن احمق ہونے کا ثبوت قرار دیتا ہے ۔ میری رائے میں اس عدم ارتقا اور اس بقا کی جنگ سے انحراف نے آج ہمیں وہ بنا دیا ہے جو ہمیں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ میری نظر میں پاکستان کو مختلف ادوار میں یہ بین الاقوامی امداد کی تن آسانی مہیا نہ ہوتی تو ہم پاک چائنہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچتے ۔ سوئی گیس کے قیمتی ترین ذخیرے کو سی این جی گاڑیوں کی دیا سلائی سے محفوظ رکھتے۔ حکومتوں کے خرچوں کو قابو میں رکھتے ( اس بجٹ میں صوبائی اور وفاقی حکومت کے اخراجات قریب چودہ کھرب ہیں جس میں وفاق اور صوبوں کے غیر دفاعی اور غیر ترقیاتی اخراجات ساڑھے پانچ کھرب کے ہیں ) ۔

یہ تن آسانی نہ ہوتی تو ہم گورننس کی بہتری پر محنت کرتے جس میں سرکاری اہلکار نوٹ لکھنے اور بنانے کی بجائے آبی گزرگاہوں میں عمارتیں بنانے سے روکتے ۔ تعلیم اور صحت ، جس پر سرکار سال کے 1500 ارب خرچ کرتی ہے ، اس گرے ہوئے معیار پر نہ ہوتی جو لوئر مڈل کلاس والوں کو بھی پرائیویٹ سکولوں اور ہسپتالوں کا راستہ دکھاتی ہے ۔ ہمارا ٹیکس کا نظام زیادہ آسان ، منصفانہ اور فعال ہوتا ۔ ہماری انتظامیہ اور پولیس لوگوں کے استحصال پر حکومت کی بجائے ان کی مددگار ہوتی ۔ ہمارے خارجہ تعلقات دشمنی اور بھیک مانگنے کے مواقع ڈھونڈنے کی بجائے تجارت ، سرمایہ کاری اور ہمہ گیر دوستی پر استوار ہوتے ۔ ممکن ہیں اس ترقی معکوس کی اور وجوہات بھی ہوں ( جو یقیناً ہوں گی ) مگر پاکستان کی تاریخ اچھے فیصلے نہ کرنے ، دستک دیتی ہوئی opportunities کو نظر انداز کرنے اور نیوٹن کے inertia سے مشتق جمود یا بے سمت حرکت سے عبارت ہے جو ہمیں اور ہمارے ہم وطنوں کو اسی نیم زندہ نیم مردہ حالت میں حنوط کئے رکھے گی جب تک status quo کے مدار سے نکلنے کی توانائی اور درست سمت کا تعین مہیا نہیں ہوتا۔
فیض کہہ گئے ہیں کہ :
وصال یار بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں

جن لوگوں نے گلزار اور کیفی اعظمی کا غالب پر مشہور سیریل دیکھ رکھا ہے یا خواجہ حالی یا غلام رسول مہر کی غالب کی بائیو گرافی پڑھ رکھی ہے انہیں کچھ اندازہ ہوگا کہ استاد کے خرچوں اور آمدن کا بعد کس قدر زیادہ تھا۔ آمدن کا بنیادی ذریعہ ایک خاندانی پینشن تھی ( سو پشت سے پیشہ آبا سپہ گری والی ) جس کا کیس کلکتے جانے کے باوجود ہار گئے ( کلکتے کا بس یہی احسان رہے گا کہ استاد سے ہائے ہائے کی ردیف والی غزل لکھوا لی ) ۔ اس پہ مستزاد ، استاد نے کام نہ کرنے کی ٹھان رکھی تھی ۔ ریزیڈنٹ بہادر نے فارسی معلم کے طور پر رکھنا چاہا تو اس لئے لوٹ آئے کہ انگریز استقبال کو نہیں آیا ۔ ذوق کی وفات کے قریب تک مغل دربار میں نہیں گئے کہ دوسرے نمبر کی حیثیت قبول نہ تھی ۔ روزانہ خوراک میں ڈھیروں بادام کی سردائی ، بکرے کے سیر ، دوسیر گوشت اور پاؤ بھر بادہ ناب ( خانہ ساز ) سے کم پر گزارا نہیں تھا۔ ملازم اور گھر کا خرچ الگ ۔تین سو کا خرچ اور آمدن ستائیس روپے۔ مزید برآں استاد چوسر اور شطرنج سے بھی شوق فرماتے اور اس میں پیسے لگانے کی نوبت آتی تو اس سے بھی نہ چوکتے ۔ نادہند ہونے پر مقدمے بھی ہوئے اور قمار بازی پر قید بھی مگر مرزا نوشہ نے نہیں بدلنا تھا سو نہیں بدلے ۔ قرضہ حد سے بڑھ گیا تو،کسی خیرخواہ کی کاوش سے سرکار دربار میں مورخ وغیرہ مقرر ہوئے ۔ اس سے پہلے نواب رامپور کا سو روپے کا وظیفہ روزگار کے مسائل وغیرہ حل کرتا رہا۔ غدر میں دو سال گویا گھر میں نظر بند رہے ۔ بعد میں انگریز سرکار سے کچھ رقم ملنا شروع ہوئی ۔ اسی نیم خوشحال اور نیم بدحال طریق سے 72 سال کی زندگی گزار کر،رخصت ہوئے ۔ وہ اتنے عظیم لکھاری تھے کہ ضروری تھا کہ معاشرہ انہیں آلام روزگار سے محفوظ رکھتا اور کسی قدر ایسا ہوا بھی مگر استاد کی زندگی زیادہ تر ایسے ہی کاو کاو سخت جانی میں صبح کو شام کرتے گزری ۔

پاکستان کی ریاست کے حالات دیکھیں تو وہی استاد والا معاملہ دکھتا ہے کہ کام بھی نہ کریں گے اور خرچ بھی کم نہیں کرنا ۔ غالب تو پھر بے بدل شاعر تھے اور اس گاہ عشرت اور گاہ عسرت میں تا حشر دنیا میں رہنے والا دیوان لکھ گئے مگر ہماری اجتماعی زندگی میں استاد جیسے چلن کے باوجود کچھ بھی معرکہ آرا وجود میں نہیں آیا۔

جن اصحاب و خواتین کو معاشی اعداد سے کچھ رغبت ہے ان کے لئے عرض کئے دیتے ہیں جون 2022 کو اختتام پذیر ہونے والے سال میں ہمارے اخراجات کا کیا عالم رہا ۔ صرف وفاقی حکومت پر نظر دوڑائیں تو اپنے ہی لوگوں ( ڈیپازٹ) اور بینکوں کو 2777 ارب کا سود دیا اور بیرونی قرضوں پر 373 ارب کا (ہر چند کہ قرضوں کی بات پر ہمارا دھیان بیرونی قرضوں پر جاتا ہے ) ۔ یہ قرضے کئی سالوں میں ہماری حکومتوں نے ویسے ہی لئے جیسے غالب مہاجن اور کریانہ والے سے لیتے تھے کہ آمدن کم تھی اور خرچ پر سمجھوتہ ناممکن ۔

آگے چلیے ، سول پنشن پر 136 ارب اور فوجی پنشن پر 400 ارب کا خرچ ۔ دنیا میں عمومی طور پر پنشن کسی فنڈ کی آمدن سے دی جاتی ہے جو ماہ بماہ دوران سروس اکٹھا ہوتا رہتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد اسی اصل زر پر منافع سے پنشن کی ادائیگی ہوتی ہے ۔ بہتر طبی اور غذائی حالات کی وجہ سے ہماری اوسط عمر بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ پنشن دینے کی ذمہ داری بھی ۔ ضیا صاحب سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیوہ اور ان بیاہی بیٹیوں کی بھی پنشن مقرر کر گئے ۔ یہ نہیں کہ حکومت کو اپنے ملازمین کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے مگر یہ تو ہو کہ اس ویلفیئر اور سوشل سیکورٹی کے لئے پیسوں اور آمدن کا کوئی بندوبست ہو ۔ اگر ہم پنشن کا یہی نظام رکھنا چاہیں تو اس کے قریب 600 ارب کی فنڈنگ کے لئے کچھ نہیں تو کم از کم 3000 ارب روپے کا پنشن فنڈ چاہئے جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے مگر مستقبل قریب میں پنشن کی مقدار اور طوالت میں کچھ کمی کے امکان پر باریک بینی سے سوچا جائے اور آج کے بعد آنے والے ملازمین اور چالیس سال سے کم عمر کے لوگوں کے لئے پنشن فنڈ میں ملازمین اور حکومت کی باہمی شراکت کا کچھ انتظام ہو ۔ پچھلے دس سال میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اس سلسلے میں بہت سا theoretical کام ہو چکا مگر حتمی انصرام ابھی عمل پذیر ہونے سے کئی فیصلے پرے ہے ۔

دفاع کا خرچ تو شاید ہماری جغرافیائی مجبوری ہے مگر وفاقی حکومت کا گئے سال میں 3100 ارب کا غیر ترقیاتی، غیر دفاعی اور غیر سودی خرچ mind boggling ہے ۔ اس میں 530 ارب تو وفاقی حکومت کو چلانے کا خرچ ہے جس میں بڑا حصہ وفاقی ملازمین کی تنخواہ (ERE) وغیرہ ہے۔ سوچنا چاہیے کہ وفاق میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد اس تعداد میں ملازمین کی ضرورت ہے ؟ کتنے ہی ڈویژن اور ذیلی ادارے اور کارپوریشنز ہیں جن کی شاید اب ضرورت نہ رہی ہو ۔ کتنے ہی پروجیکٹ اور ادارے ایسے ہیں جہاں ابھی کام شروع بھی نہیں ہوا اور تنخواہ اور بلڈنگ کا کرایہ جاری ہو چکا ہے ؟

لازم ہے کہ حکومت لوگوں کو بیروزگاری سے بچانے مگر یہ نہ ہو کہ چند ہزار یا لاکھ ملازمتیں بچاتے بچاتے ملک ہی دیوالیہ ہو جائے ۔ مجھے یاد ہے کہ اکتوبر 20 میں ، ہماری ٹیم نے ایک رات میں پاکستان سٹیل مل کے آدھے ( 4500) ملازمین کو تمام واجبات کے ساتھ نوکری سے نکال کر بے تحاشا بد دعائیں سمیٹیں ۔ معاملہ اب کورٹ میں ہے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ 2015 سے بند اس مل کے 9000 ملازمین کو قرض کے پیسوں سے کب تک تنخواہ ، پنشن ، ترقیاں اور گھر دئیے جا سکتے ہیں ۔ بہت اچھا ہوتا اگر یہ مل منافع میں چل سکتی مگر اگر ایسا نہیں تو کب تک حکومت یہ ذمہ داری نبھانے اور کیسے؟ کہنے کو پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت اور مل کو منافع میں چلانے ، زمین بیچ کر لوگوں کو پیسے دینے کی طرح کے بہت سے حل پیش کئے جاتے ہیں مگر،یقین مانئے یہ سب کچھ بہت پیچیدہ اور مشکل ہے ۔ یہی حال پی آئی اے ، ریلوے اور سینکڑوں اداروں اور کمپنیوں کا ہے جہاں ہزاروں اور لاکھوں سرکاری اور نیم سرکاری ملازم ہر ماہ بغیر کوئی کام کئے تنخواہ بھی پاتے ہیں اور ترقی اور پینشن بھی ۔ مجھے معلوم ہے کہ گورنمنٹ کی رائٹ سائزنگ بے حد مشکل ہے اور اس پر طرہ یہ کہ قوانین اور عدالتی نظیریں سراسر ملازمین کے حق میں ہیں مگر یقین کیجئے اتنا خرچ اٹھانا نہ مرزا نوشہ کے بس میں تھا نہ مملکت خداداد کی دسترس میں ۔

تنخواہوں کے علاوہ صرف وفاقی حکومت نے گزشتہ مالی سال میں 1515 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی دی ۔ بجلی مہنگی خرید / بنا کر سستے داموں بیچی ، فرق 1100 ارب ۔ پٹرول مہنگا خریدا اور سستا بیچا ، فرق 377 ارب ۔ آٹا ، چینی ، دالیں ، گھی فرق 66 ارب ۔ قیامت ہے کہ وفاقی حکومت کو ٹیکس آمدن میں سے وصولی ہو 2500 ارب کی اور مزید نان ٹیکس آمدن ہو 1300 ارب کی اور خرچوں میں 1500 ارب کی گرانٹ اور 1500 ارب سبسڈی میں عوام الناس کو دوبارہ واپس کئے جائیں ۔ ملازمین کو 600 ارب تنخواہ میں دے دئے ، پنشن میں مزید 600 ارب اور 300 ارب احساس/ بینظیر،پروگرام میں ۔ اگر یہ سب واپس ہی دینے تھے تو سوال یہ کہ اکٹھے ہی کیوں کئے ؟
بقول شاعر ؛
سپرد خاک ہی کرنا تھا مجھ کو
تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں

مزید دیکھیے گا ۔ پار سال میں 1000 ارب روپے مزید اضافی گرانٹس کی شکل میں خرچ ہوئے جس 270 ارب روپے ان اداروں کے نادہندہ ہونے پر دینا پڑے جہاں حکومت نے ادائیگی کی ضمانت دے رکھی تھی ( پی آئی اے ، سٹیل مل ، آئی پی پی اور بہت سی سرکاری کمپنیاں ) ۔ 104 ارب روپے اس لئے دینے پڑے کہ ابتدائی تخمینے میں پورے خرچ سے کم ہونے کی آرزو پوری نہ ہوئی ۔ 47 ارب ریلوے کو مزید دینا پڑے کہ قومی ادارہ ہے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی مزید 110 ارب روپے چلے گئے اور احساس پروگرام میں بڑھتی مہنگائی کے کارن مزید 250 ارب ۔ 65 ارب برآمد کنندگان کو ترغیب دینے کے لئے اور 30 ارب HEC کو چلے گئے اور چھوٹے چھوٹے بہت سے اداروں کو باقی روپے ۔

ان اضافی خرچوں کا اثر ترقیاتی یا نئے بننے والے پراجیکٹس پر یوں آیا کہ 900 ارب کے تخمینے کے مقابلے میں 550 ارب ہی خرچ ہوا ۔ مجھ سے پوچھیں تو ہمارا خرچ ہماری آمدن سے اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ناقابل برداشت قرض کے ہاتھوں ہمارا ریاستی وجود خطرے میں ہے ۔ مگر ایک کے بعد دوسری حکومت ان مشکل فیصلوں سے گھبراتی ہے ۔ میرا ڈرائیور کل کہہ رہا تھا میری تنخواہ 35000 ہے اور بجلی کا بل 17000 آیا ہے کدھر جاوں ؟ پوچھا اے سی ،، موٹر۔، استری اور فرج ہے ؟ بولا ہے اور بچوں کی وجہ سے کنجوسی سے چلاتے ہیں ۔

غور کریں تو مسئلہ وہی امداد کی رنگین زندگیوں کا ہے کہ ہمیں نوکری دے تو سرکار مع بعد از مرگ پینشن ۔ بجلی کی قیمت نہ بڑھائی جائے ۔ پٹرول سستا ملے اور اشیائے ضرورت بھلے درآمد کی جائیں مگر سب کو،مناسب قیمت میں دستیاب ہوں ۔ پچھلے سال چینی برازیل سے منگوائی 120 روپے کلو اور بیچی 90 روپے کلو ۔ پوریا کھاد منگوائی 7500 کی بوری اور بیچی 1800 روپے میں ۔ وجہ ڈھونڈو تو میڈیا اور اپوزیشن کا ڈر اور کسی حد تک عوام کو پر امن رکھنے کی خواہش۔

یہ اعداد وشمار جو آپ کے سامنے رکھے ہیں ، ان کے ہوتے ہوئے معیشت پر سیاست اور میڈیا کا بیک لیش اور عوام کا غم وغصہ وہی ہے جو امداد کے دنوں کی حکومتوں میں بگڑے ہوئے طبقوں کا ہو سکتا ہے ۔ درست ہے کہ حکومت بہت کچھ کر،سکتی ہے مگر یقین مانئے کسی بھی حکومت کو یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے جو ہم کر رہے ہیں ، خاص کر اس حکومت کو جو لوگوں سے قومی آمدن کا صرف دس فیصد ٹیکسوں میں لیتی ہے ۔ اس قرضوں کے گرداب سے نکلنا ہے تو سب کو سختی جھیلنی ہو گی ۔ بجلی ، گیس ، پٹرول اور اشیا کی قیمتوں میں کی حکومت کی جانب سے کمی کی امید کو توڑنا ہو گا ۔ سرکاری نوکریوں ، تنخواہوں اور پینشن پر نظر ثانی کرنا ہوگی ۔ اس کے نتیجے میں ہم سب کی عمومی زندگی میں آسائش میں کمی ضرور آئے گی ۔ شاید غریب اور لوئر مڈل کلاس والوں پر یہ تکلیف باقی لوگوں سے بڑھ کر آئے مگر یہ یاد رہے کہ انسانی resilience ہمیشہ adversity میں اپنے جوہر،دکھاتی ہے ۔
تو شب آفریدی ، چراغ آفریدم
مگر یہ نہایت مشکل راستہ ہے جس میں حکومت ، اشرافیہ، طاقت کے دیگر مراکز اور اپوزیشن کو سیاست چھوڑ کر مشترکہ اقدامات لینے ہوں گے جو آج کل کے حالات میں ناممکن نظر،آتا ہے ۔ ائر کنڈیشننگ کے اس کام میں ابھی قومی پیداوار ، صوبائی خرچے ، ٹیکس آمدن اور سماجی ایکتا کے حوالے سے بات ابھی باقی ہے۔
فی الحال مرزا نوشہ کی بتائی گئی قرض کی مے سے حظ اٹھائیے اور امید رکھئیے کہ ہماری فاقہ مستی یا نری مستی ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائے گی ۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply