جارج ایلیٹ کے مڈل مارچ میں ایک نا قابل فراموش کردار ایڈورڈ کیسو بون کا ہے جو The Key to All Mythologies نامی ایک کتاب لکھ رہا ہے بلکہ لکھنے کی تیاری کر رہا ہے۔ لیکن یہ کتاب محض ایک تصور ہے ،یہ نا صرف کبھی بھی ختم نہیں ہو پاتی ، بلکہ اس کا تو آغاز تک نہ ہو سکا۔ کیا نا قابل بیان پروشیائی جی ڈبلیوایف ہیگل بھی اتنا ہی نا تواں تھا، جس کی تمام علم کی کنجی کبھی بھی منظر عام پر نہ آسکی لیکن ہر دس ہزار کیسوبون جیسے لوگوں میں ایک ہیگل ضرور ہوتا ہے جو واقعی تمام علم کی کنجی لکھ ڈالتا ہے۔ چنانچہ ہیگل کی روح کی مظہریات ہمارے پاس موجود ہے۔ ہیگل بصیرتوں سے عاری نہیں اور بلاشبہ اس میں عمق بھی پائی جاتی ہے۔ اس کی تصنیف ایک لحاظ سے اس کالی دیوار جیسی ہے جو ویتنام جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی۔ ہم اس پر ماتم کناں ہیں لیکن اس کا احترام کرنا لازمی ہے، تاہم ، ہیگل کی تصنیف اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اسے عزت و احترام دینا لازمی نہیں۔ ہیگل کے مجموعہ تصانیف کے 1832ء تا 1840 ء میں شائع ہونے والے ایڈیشنوں نے اسے زبردست شہرت دلائی۔ حتیٰ کہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب بھی متحدہ جرمن دنیا پر غالب آنے کی کوشش میں مصروف نہیں تھے تو وہ ہیگل سے یہ کام لے رہے تھے۔
بلا شبہ ہیگل اس بدنامی کا بجا طور پر مستحق ہے جو اسے متعدد غیر راسخ العقیدہ لوگوں کے ہاں حاصل ہوئی، ایک مصنف کی حیثیت سے وہ بھی کانٹ کی طرح محض غریب نہیں ،وہ دوسروں کی تحقیر کرنے اور خود کو بہت بڑی چیز سمجھنے والا آدمی تھا۔ وہ اپنی بات کے مفہوم کو چھپائے رکھتا اور پھر آخر میں ایک مہم نتیجہ حرف آخر کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ انسانی تاریخ کا اصل مقصد ہیگل کے نظام فکر کو سمجھنا اور پھر ہمیشہ کے لیے رحمت یافتہ بن جانا ہے۔
آرتھر شو پنہاور نے ہیگل کے خلاف دشنام طرازی کرتے ہوئے اسے ایک ڈھونگیا اور نیم حکیم قرار دیا۔ بہت سوں نے اس رائے کی حمایت کی ۔ شو پنہاور اپنی شاہکار کتاب کے حواشی میں ہیگل پر بار بار حملے کرتا ہے۔ ان حملوں کی وجہ محض شوپنہاور کا ہیگل سے جلنا ہی نہیں تھا۔ وہ اس بات پر غصے میں تھا کہ ہیگل نے بے ایمان انداز میں کانٹ کو بائی پاس کر دیا تھا۔
ہیگل کا قوم پرستانہ فلسفہ بھی اسے غصہ دلاتا تھا۔ تاہم، تاریخ عالم کی ترقی کی منازل کا کھوج لگانے کے عمل میں ہیگل کچھ نہایت دلچسپ صداقتوں اور نیم صداقتوں کی طرف بھٹک نکلا۔
ہیگل 1770 ء میں Stuttgart کے مقام پر ایک ادنیٰ سرکاری افسر کے ہاں پیدا ہوا۔ Tubingen کی یونیورسٹی سے وہ ایک لوتھری پادری بن کر نکلا ۔ کاغذوں کے مطابق تو وہ ساری عمر لوتھری مذہب کا ہی پیروکار رہا تھا لیکن اس کا نظام فکر اس کی نفی کرتا ہے۔ البتہ اس نے فلسفہ کی راہ اختیار کر لی۔ یونیورسٹی میں رہنے کے دوران اس نے رومانی فلسفی فریڈرک فیلنگ (1775ء تا 1854 ء ) اور شاعر فریڈرک ہولڈر لین سے دوستی کی ۔ 1793ء میں گریجوایشن کرنے پر اس کے سرٹیفیکیٹ میں اعلیٰ اخلاقی رویے کا ذکر خصوصی طور پر کیا گیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ فلسفہ میں اس کے نا کافی علم کی نشاندہی بھی تھی ۔ ہیگل نے اس فیصلے کا انتقام لینے کے لیے خود کو اپنے دور کا مشہور ترین فلسفی ثابت کر دکھایا ایسا فلسفی جس نے فلسفہ کو نئے سرے سے ایجاد کیا تھا۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ شروع میں اس کا دوست شیلنگ زیادہ مشہور تھا لیکن اس نے اپنی زندگی کے آخری 40 برس گوشہ نشینی میں گزارے۔
ہیگل کی زندگی میں کوئی بڑے واقعات رونما نہ ہوئے ۔ 1801ء میں اس نے Jena یونیورسٹی میں ایک عہدہ حاصل کر لیا اور یہیں “روح کی مظہریات” لکھی۔ ہیگل نے روح کے لیے Geist کا لفظ استعمال کیا جس کا مطلب ذہن اور روح دونوں ہے (غالباً یہ عربی کے نفس یا ذات کا مترادف ہے۔ ) آج تک اس بارے میں اختلاف رائے موجود ہے کہ ہیگل کی اصل مراد ذہن سے تھی یا روح سے ۔ Battle of Jena (1806ء) کی شام کو مظہریات کے پروف اس کی میز پر پڑے تھے۔ اس جنگ میں نپولین کی فتح کے باعث یونیورسٹی بند ہوگئی اور اسے نیورمبرگ جانا پڑا۔ وہ کچھ عرصہ تک لڑکوں کے نیور مبرگ جمنازیم کا ہیڈ ماسٹر رہا۔ خیال ہے کہ وہاں وہ اپنے گائے جیسے شاگردوں کو اپنا اوٹ پٹانگ فلسفہ پڑھاتا رہا۔
ہیگل 1818 ء سے لے کر 1831 ء میں ہیضہ کی وباء پھیلنے پر اپنی موت تک برلن یونیورسٹی میں رہا ( شو پنہاور اس بیماری سے بچ نکلا تھا ۔) اس نے اپنی زندگی میں ہی چار بنیادی کتب شائع کیں: مظہریات ، منطق (1812ء تا 1815 ء ) انسائکلو پیڈیا (1817ء) اور راستی کا فلسفہ (1821ء)۔ اس کے مسودات اور لیکچر کے نوٹس میں موجود مواد فکری مسائل سے بھر پور ہے۔ اس کے نقاد ہمیشہ با ہم برسر پیکار رہے۔ اس کی تمام تحریریں انگریزی میں ترجمہ ہو چکی ہیں جن کے زیادہ تر حصے نے کوئی خوشگوار تاثر نہیں چھوڑا بالخصوص روح ذہن کے معاملے میں۔ برلن میں قیام کے دوران ہیگل کی شہرت بام عروج پر تھی ۔ وہ ہمیشہ خود کو سب سے بلند درجے پر دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ تکبر اور غرور کچھ حد تک اس کے فلسفے کا بھی حصہ ہے۔ اس نے 1816ء میں شادی کی اور دو بچوں کا باپ بنا۔
اس کا ایک بیٹا کارل مؤرخ بنا۔ یہاں ہم ہیگل کے نام نہاد مکمل اور کامل نظام فکر کا ایک مختصر خاکہ ہی پیش کر سکتے ہیں ۔ کانٹ نے شے بالذات کے علم کے امکان کو مسترد کیا تھا۔ تمام مظاہر کی وضاحت کرنے کا خواہشمند ہیگل اسی تک محدود نہیں رہ سکتا تھا۔ چنانچہ وہ عارضی طور پر برکلے پسند تجربیت پسند بن گیا۔ اس نے دلیل دی کہ کسی شئے کے وجود کا دعویٰ صرف اور صرف شعور کی بنیاد پر دیا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے خیال میں یہ دلیل ایک تکنیکی لحاظ سے ناقص ہے۔ لیکن اس دلیل کے بغیر ہیگل کے نظام فکر کی عمارت تعمیر نہ ہوسکتی کیونکہ اس کا فلسفہ نا قابل معلوم کا ہی بیان ہے۔ اسے غیر دلچسپ قرار دینا حماقت کے ساتھ ساتھ بے ایمانی بھی ہوگا ۔ بہر حال ہم بجا طور پر شوپنہاور کے ساتھ ہمدردی رکھ سکتے ہیں:
اس کا سارا فلسفہ ما بعد الطبیعیاتی توضیح کی ایک مہیب صورت ہے۔ (یعنی خدا کے موجود ہونے کا ثبوت )
ہیگل میں اس قسم کی تنقید کا جواب دینے کی اہلیت نہیں تھی ۔ اس کا کوئی بھی لفظ خندہ زن نہیں اور افسوس کہ اس کے فلسفے کی تشریح کرنے والے لوگ بھی خندہ سے محروم رہے ۔ بلا شبہ اس پر سب سے زیادہ اثر گوئٹے کا ہوا۔ شو پنہاور کی طرح ہیگل نے بھی رنگوں سے متعلق گوئٹے کے نظریے کو نیوٹن کے نظریے پر ترجیح دی۔ جب گوئٹے کے جوہر قابل نے جرمن ادب کو اپنی مضبوط گفت میں جکڑ لیا تھا تو اس عہد کے متعدد جرمن مفکرین کی طرح اس کی اپنی تخلیقی امنگیں بھی غیر تخلیقی راہوں پر چل نکلیں ۔ لیکن ہم سب قیاس آرائی ہی کر سکتے ہیں کہ اس نے گوئٹے کے شہوت انگیز اور مزاحیہ Roman Elegies (1795 ) سے کیا کام لیا تھا۔ بلا شبہ اس نے بعد میں اپنی متوقع بیوی میری واں ٹکر کو یہ پڑھ کر نہیں سنایا تھا،وہ اسے بری طرح مارا پیٹا کرتا تھا تا کہ عین (آئیڈیا) کی طرح اس کی شہوانیت بھی خود آگاہ ہو جائے ۔ ( یقیناً اس کے ایسا کرنے کی کوئی شہادت موجود نہیں، البتہ یہ ایک مفید قیاس آرائی ہے ) ۔ لیکن یہ ہرزہ سرائی عموماً ہیگل کے ساتھی پروفیسروں کو عوام کے سامنے مسائل سے دو چار کر دیتی تھی ۔ وہ اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتے تھے۔
ہیگل کے فلسفے کا مغز یہ ہے کہ ذہن ( یا روح یا خدا ؟ ) کا خود سے آگاہ ہونا ہی تاریخ ہے۔ کا ئنات ایک مطلق خیال کے انکشاف کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مطلق خیال کیسے کام کرتا ہے؟
ہیگل نے روایتی منطق سے گریز کرتے ہوئے اس کی جگہ جدلیات کی منطق سے کام لیا۔ یونانی زبان میں Dialectic ” کا مطلب ”دلیل“ یا وعظ ہے اور سقراط، افلاطون، ارسطو اور روایتی فلسفیوں نے اسے سچائی کی تشریح کے لیے سوال جواب کا طریق کار خیال کیا ۔ کچھ جگہوں پر اس کا استعمال منطق” کے ایک مبہم ہم معنی لفظ کے طور پر بھی ہوا لیکن کانٹ نے اسے سراب کی منطق قرار دیا ۔ وہ کہتا ہے کہ یہ مصنوعی استدلال کا ایک عمل ہے جو نا قابل معلوم کو سمجھنے کی کوشش کا نتیجہ تھا۔ ہیگل نے بعد از کانٹ تحریروں کی مدد سے جدلیات کو مطلق آلہ کار کے درجے پر پہنچا دیا۔ خود تاریخ بھی اس کے تابع ہے۔ ذہن یا مطلق خیال تھیسس، اینٹی تھیسس اور سنتھیسس ( دعویٰ ، رد دعویٰ ، ترکیب) کے عمل کے ذریعہ اپنے آپ سے مکمل طور پر آگاہ ہوتا ہے۔ لیکن ہیگل تک آتے آتے ہر ترکیب ایک نئے تھیسس یا دعویٰ کی صورت اختیار کرتی گئی۔ ہیگل اپنی فکر کو حتمی ترکیب (synthesis) قرار دیتا ہے۔ ” ہستی (being) تھیسس ہے جس کی ضد بلاشبہ لاشے (nothing) ہے۔ لہذا ترکیب ہونا (becoming) ہے۔ قدیم مشرق میں صرف ایک یعنی حکمران ہی ”آزاد“ تھا؛ یونان اور روم میں چند لوگ ”آزاد“ تھے، ہیگل کے پروشیا میں سب لوگ آزاد تھے ( بہر حال یہ آزادی پولیس والے کو پریشان کرنے یا شرانگیز مواد چھاپنے کے لیے ہرگز نہیں تھی ) ۔ ہیگل کی آزادی عام آدمی کی آزادی نہیں ہے۔
افسوس کہ اس مقام پر آ کر ابہام کی دھند دوبارہ چھانے لگتی ہے ۔ ہیگل کی جدلیات کو محض تھیسس، اینٹی تھیسس اور سنتھیسس کے تین مراحل میں ہی محدود نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن Fitche اور شیلنگ نے ایسا ہی کیا۔ ہیگل بھی اپنے بیسویں صدی کے جانشین مارٹن ہیڈگر کی طرح ہمیشہ ان نہایت دلچسپ سوالات کے گرد ہی گھومتار ہا: ذہن میں خیالات کیسے پیدا ہوتے ہیں ، سوچنے کا عمل کیسے کام کرتا ہے آقا خود کو اپنے غلام میں کیسے شناخت کرتا ہے اور انجام کار وہ دونوں اپنے کردار کیسے ادل بدل لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہیگل کی کچھ بصیرتیں نہایت عمیق ہیں لیکن اس کا یہ نظریہ بدسرشت ہے کہ منطق کے ساتھ اتحاد کی جانب ذہن کی ترقی کی حقیقت ریاست کی صورت میں مجسم ہے۔ نہ ہی اس کا یہ خیال درست ہے کہ سکندر، جولیس سیزر ( یا ہٹلر ؟ ) جیسے ہیروز ظالمانہ اور پروشیائی نظریہ اخلاق سے مبرا ہیں۔
شاید اس کے برعکس عین ( آئیڈیا ) زیادہ باطنی قسم کی تاریخ میں خود سے آگاہ ہوتا ہے : یعنی فکر اور کم عوامی لوگوں کی جدو جہد کی تاریخ ۔ ہیگل پسند اکثر کہتے ہیں کہ ہیگل کی فکر کو سٹالن یا ہٹلر جیسے افراد کی سوچ کے ساتھ جوڑنا ناانصافی ہے کیونکہ وہ بھی ضرور ان کی حکومت سے متنفر کا اظہار ہی کرتا ۔ بلا شبہ ہیگل فلسفے کا پروفیسر تھا جس کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ اپنا عظیم الشان فلسفیانہ نظام تشکیل دیتے وقت عام لوگوں کی تکالیف پر بھی توجہ دیتا۔ وہ تو بس فلسفہ کا ایک پروفیسر تھا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ مسئلہ شر کے حوالے سے غیر پروفیسر سپینوزا کا پیش کردہ حل کچھ لحاظ سے محض زیادہ عمیق ہی نہیں بلکہ زیادہ انسانیت پسندانہ بھی ہے ( بشرطیکہ انسانیت کی کوئی اہمیت ہو ) ۔ سپینوزا کی نظر میں شر کی اہمیت زیادہ تھی ۔ یہ اس کی نثر میں اپنی تاب دکھلاتا ہے۔ تاہم، اس کا خدا بھی ہیگل کے عین سے کچھ کم ” ہیبت ناک نہیں۔
کارل مارکس نے ہیگل کے فلسفہ کو اُلٹا کر رکھ دیا مارکس نے بس ہیگل کے ذہن یا روح کو ” مادے کے ساتھ تبدیل کر دیا۔ یہ سادہ سی تبدیلی ممکن ہونے کا مطلب ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ ضرور غلط تھا۔ جدلیاتی مادیت کے علاوہ اور بھی کئی حوالوں سے ہیگل نے بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔ فلسفے پر اس کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ شروع میں برٹرینڈ رسل بھی ایک ہیگلی مفکر تھا۔ نام نہاد پرانے ہیگلی پروٹسٹنٹ ازم پر زور دینے کے لیے ہیگل کو استعمال کرتے تھے۔ تو جوان یا بائیں بازو کے ہیگلیوں (جن میں مارکس بھی شامل تھا) نے اس کے فلسفے کی مدد سے دنیا کو بدلنے کی کوشش کی ۔ جرمنی سے باہر ہیگل کی مطلق عینیت پسندی برطانوی فلسفیوں اے سی بریڈلے اور جے ایم ای مک ٹیگارٹ اور امریکہ میں جو شیاہ رائس کا نقطہ آغاز بنی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں