18 اپریل 1992
بغداد اسٹیسن
سطح سمندر سے بلندی 393 فٹ
سمہ سٹہ جنکشن سے بہاول نگر، امروکہ آنے جانے کے لیے ٹرینوں کی واحد گزرگاہ پر 1835 میں بغداد الجدید کا اسٹیشن تعمیر ہوا تو نہ صرف بہاول پور کے مضافات میں بسنے والوں کو سہولت میسر آئی بلکہ ریاست کے نواب کو عراق سے باہر اپنا ایک اور بغداد بسانے کا موقع بھی مل گیا ۔
اس اسٹیشن سے کئی لوگوں کا روزگار بھی چمک اٹھا تھا جن میں جندو پیر کوچوان بھی شامل تھا۔ دن میں وہ گھر کے کام نبٹا کے شام کو یہاں آ جایا کرتا تاکہ ان کوچوانوں کی کمی پوری کر سکے جو شام ہوتے ہی اپنی اپنی بستیوں کو نکل جاتے تھے۔
اب یہاں رات گئے صرف ایک تانگہ سواریوں کے لیئے موجود ہوتا تھا جس کی قدر و قیمت سواریاں خوب جانتی تھیں۔ ٹرینوں کے آنے جانے سے ٹھیلے والے بھی جاگتے رہتے تھے سو بغداد الجدید میں زیادہ نا سہی کچھ رونق تو لگی رہتی تھی۔
26 نومبر 2023
عراق کا بغداد تو تہس نہس ہونے کے بعد پھر آباد ہو گیا تھا مگر نواب صاحب کا بغداد ریلوے اسٹیشن اب اجڑ چکا ہے۔ نہ یہاں کوئی جندو کوچوان نظر آتا ہے اور نہ ہی کوئی ٹھیلے والا۔
سگنل اور کانٹے بدلنے کا سسٹم تو موجود ہےمگر نہ وہ ریل گاڑیاں ہیں نہ ہی اسٹیشن ماسٹر۔ البتہ سرکار کی طرف سے حفاظت پہ معمور دو لوگ نظر آ جاتے ہیں۔
اب تو شہری بھی پٹڑی کنارے بیٹھے ریلوے لائن کو اداس آنکھوں سے تکتے ہی رہ جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
6 اگست 1988
ریلوے اسٹیشن چشتیاں
سکول کھلنے میں ابھی چند دن باقی تھے سو پرائمری سکول ٹیچر قمرالزماں نے چند دوستوں کے ساتھ مری گھومنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اور سامان سمیت ڈاہرانوالہ سے چشتیاں ریلوے اسٹیشن آن پہنچا۔
اُس دور میں ریل ہی سفر کا سب سے آسان اور سستا ذریعہ تھی۔ پھر چشتیاں جیسا شہر جو مرکزی راستوں سے ہٹ کر تھا، ریلوے لائن سے جڑا ہوا تھا۔ سو یہاں کی عوام ریل کو زیادہ پسند کرتی تھی۔
قمر الزماں نے بھی سفر کی ترتیب کچھ اس طرح بنائی تھی کہ چشتیاں سے بہاول پور پہنچ کر گاڑی بدلنی تھی اور اگلی گاڑی سے براستہ لاہور پنڈی پہنچ کے بس پہ مری نکل جانا تھا۔
چشتیاں اسٹیشن پہ چائے کا گھونٹ بھر کے قمر نے اپنے اور دوستوں کے سامان کو دوبارہ چیک کیا اور کچھ دیر میں اسے بہاولنگر ایکسپریس آتی دکھائی دی۔ سمہ سٹہ جنکشن سے ٹرین بدلی ہونی تھی جس کے بعد ان کی منزل راولپنڈی اور ملکہ کوہسار مری تھا۔ مسافر خانے سے اٹھ کے وہ پلیٹ فارم پر آیا اور خود اپنا سامان ٹرین میں رکھا۔ چار منٹ کے سٹاپ کے بعد ٹرین نے سیٹی بجا دی اور سب دوستوں کے چہرے مسکرا اُٹھے۔
26 نومبر 2023
شہر کی مصروفیت کے بیچوں بیچ چاپ چاپ کھڑا چشتیاں ریلوے اسٹیشن اپنی بربادی کی داستان سنا رہا ہے۔ میں یہاں قمر بھائی کے ساتھ آیا ہوں۔
مرکزی عمارت کسی خاندان کی رہائش بن چکی ہے جبکہ درجہ دوم کے مسافر خانے میں اس ملک کے درجہ دوم شہری جوا کھیلنے میں مشغول ہیں۔ برآمدے کی محرابوں سے بندھی ایک تار پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے گئے ہیں۔
کیکر کے درخت تلے چستیاں کا بورڈ اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے پیچھے بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
اچانک ایک چائے کا خالی کپ پاؤں سے ٹکراتا ہے، اوہ قمر بھائی شاید اٹھانا بھول گئے ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
21 جنوری 1873
تخت محل
سطح سمندر سے 499 فٹ بلند
جاڑے کا اختتام چل رہا تھا لیکن پنجاب میں سردی کی شدت اب بھی کم ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ تخت محل کے چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن کے باہر تین چھکڑے 218 ڈاؤن کے منتظر تھے جس میں خانقاہ شریف سے عبد الوہاب تخت محل کی فاطمہ بی بی کو بیاہنے آج کی ٹرین سے پہنچنے والا تھا۔
پانچ بوگیوں کو کھینچتا انجن دور سے دھواں اڑاتا نظر آیا تو چھکڑے والے بھی ہوشیار ہو گئے۔ دن کے گیارہ بجے یہ چھوٹی سی بارات دولہے کو لے کر اسٹیشن پہ اتر چکی تھی۔ دولہے کے باپ نے اسٹیشن ماسٹر کو دیسی مٹھائی کا ڈبہ پکڑایا جو چار لوگوں پہ مشتمل عملے میں تقسیم ہونا تھا۔
بارات میں دولہا کے قریبی عزیز ہی شریک تھے جنہوں نے شام کی گاڑی سے دلہن کو بیاہ کے ساتھ خانقاہ شریف لے جانا تھا۔ ریل اپنی منزل کو جا چکی تھی جبکہ یہاں بارات بھی چھکڑوں پہ سوار ہوئی اور تخت محل کے مضافات کو ہو لی۔
اُدھر اسٹیشن ماسٹر کمرے میں بنے آتش دان کے سامنے بیٹھا اور مٹھائی سے دو دو ہاتھ کرنے کے بعد ڈبہ آتش دان پہ چھوڑ، باہر جا چکا تھا۔
26 نومبر 2023
مُسافر گاڑی سے اترا اور لمحے بھر کو آنکھ اٹھائی تو سامنے گندم کی ”پرالی” سے اٹی خنک زمین پر ایک تخت بچھا تھا جس کے ماتھے پہ لکھا تھا؛
تَخت محل
سطح سمندر سے بلندی 499 فٹ
تعمیر شدہ 1897
آہ۔۔۔۔۔۔ بخت کے تخت سے یک لخت اتارا گیا تخت محل۔
کسی سہاگن کی اجڑی مانگ جیسا تخت محل مجھے اپنی جانب شدت سے کھینچ رہا تھا۔ اس خالی عمارت میں بلا کی کشش تھی جس کے محرابی دروازے میں دکھنے والے دو کھجور کے درخت شاید کسی کے منتظرتھے۔ دو کمروں، محرابی گزرگاہ اور ایک ٹکٹ گھر پہ مشتمل دور دراز کا یہ اسٹیشن، نجانے کتنی ریل کی سیٹیاں سن چکا ہو گا۔ دیوار پہ بنا بورڈ بہت کچھ بتا رہا تھا۔
317 اَپ اور 318 ڈاؤن کے اوقات کار،
بہاولنگر، چشتیاں، بخشن خان، حاصل، پور، شیخ واہن اور مدرسہ تک کا کرایہ،
ضروری اطلاع کہ یہ اسٹیشن گاڑی آنے سے ایک گھنٹی پہلے کھلتا ہے اور گاڑی آتے ہی بند ہو جاتا ہے۔
پیچھے کی طرف چھوٹی اینٹ کا ایک راستہ دور بنے ایک کمرے تک لے جاتا ہے جو شاید عملے کی رہائش گاہ رہی ہو گی۔ دھند میں چھپا یہ کمرہ کچھ حد تک اپنی پراسراریت کا بھرم قائم رکھے ہوئے تھا۔
اسٹیشن کے کمروں میں مسافر کو کچھ دروازے، کھڑکیاں اور انگریز دور کے خوبصورت آتش دان ملے۔
ایک آتش دان پر کسی شادی کی مٹھائی کا ڈبہ نظر آیا۔۔۔۔۔۔ شاید کوئی بھول گیا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
16 مئی 1935
بہاول نگر جنکشن
سطح سمندر سے بلندی 514 فٹ
فجر پڑھتے ہی بہتر سالہ باریش، واحد بخش اپنا ٹی سٹال کھول چکا تھا جو بہاول نگر ریلوے جنکشن کے پلیٹ فارم نمبر 2 پہ واقع تھا۔ یوں تو یہاں دو سٹال اور بھی تھے لیکن وہ صرف ٹرین کے اوقات میں ہی چالو ہوتے تھے جبکہ محنت کا رسیا واحد بخش، مسافروں سمیت اسٹیشن کے عملے اور یہاں آنے والے ہر بندے کے لیئے چائے تیار رکھنے کو ہمہ وقت موجود رہتا۔
دلی سے آنے والی گاڑیاں ہوں یا کراچی سے جانے والی، بہاولنگر جنکشن پہ اکثر رش لگا رہتا تھا۔ انتظار گاہیں مسافروں سے بھری رہتی تھیں، اسٹیشن ماسٹر ادھر ادھر دوذڑ رہا ہوتا تھا، ٹینکیاں وقت پہ بھری جا رہی ہوتی تھیں، ورکشاپ پہ انگریز افسروں کے ڈبوں کی مرمت کی جا رہی ہوتی تھی جبکہ انجن بھی رُخ بدلنے کو لوہے کی گول پٹڑی پہ گھوم رہے ہوتے تھے۔
اسٹیشن کا بجلی گھر ہو یا کوئی اور دفتر، سب ملازمین کی چائے کا آرڈر واحد بخش کے پاس ہی آتا تھا۔ بلکہ اکثر تو ڈانس کلب میں تعینات ملازم بھی اس کے پاس چائے پینے نکل آتے تھے۔ بہاولنگر اسٹیشن ہی تو تھا جس نے اس بوڑھے کی دونوں بیٹیوں کی شادیاں ٹھیک ٹھاک طریقے سے کروا دی تھیں، وہ اِسے کیسے چھوڑ سکتا تھا۔
اچانک فقیر والی، ہارون آباد اور ڈونگہ بونگہ کے مسافروں کو اٹھا کے ریل جنکشن پہ رکی تو واحد بخش چائے کا آرڈر لینے بھاگا۔ داڑھی میں پھیرنے والی اس کی چھوٹی سبز کنگھی اچھل کہ کہیں گر گئی تھی لیکن اس وقت وہ گاہکوں کی سروس میں کوئی خلل نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔
26 نومبر 2023
مسافر کا خواب پورا ہونے والا تھا۔ بس ایک موڑ کے بعد ریاست بہاولپور کا مصروف اور بہترین جنکشن اس کے سامنے آنے والا تھا۔
اور وہ سامنے تھا۔
سفیدے کی ایک لمبی قطار اور آدھی ٹوٹی اینٹوں والے راستے پہ گرے سفیدے کے خشک پتے،
اکھڑی ہوئی پٹڑیاں، سنسان پلیٹ فارم، تالہ بند مسجد، ایک خوبصورت لمبا محرابی برآمدہ، لکڑی کے مقفل دروازے، باہر جانے کا راستہ جس پہ تعمیر کا سال 1894 لکھا تھا، 13 اپریل 1995 کو وزیراعظم بینظیر بھٹو کی منظوری سے بحال ہونے والے بہاولنگرفورٹ عباس سیکشن کی افتتاحی تختی، خالی ٹینکیاں جن کے پائپوں پر اب بھی نارتھ ویسٹرن ریلوے لکھا ہے، ریلوے ورکشاپ کے زنگ آلود دروازے و تالے اور پرانا بجلی گھر جس کے راستے کو خشک لکڑیوں سے بند کیا گیا تھا۔
یہ کون سا بہاولنگر تھا۔۔۔؟؟؟
یقیناً واحد بخش کا بہاول نگر تو نا تھا۔
پلیٹ فارم پر سبز رنگ کی ایک چھوٹی کنگھی پڑی ملی، شاید جلد بازی میں کسی کی جیب سے گر گئی ہو گی۔
روجھانوالی کے اسٹیشن پر ایک ہُو کا عالم تھا اور اس پرانے اسٹیشن کو یاسیت نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ برآمدے خالی اور راستے بند ملے۔ اجڑی ہوئی ورکشاپ کے ایک حصے سے لوہے کی چھت تک اتار لی گئی ہے۔ لوہے کے پائپوں کو زنگ لگ چکا ہے۔ ٹینکیوں کی چھت تک جاتے زینے اپنا وجود کھو رہے ہیں۔ جا بجا جھاڑیاں اور کائی اُگ چکی ہے۔ کسی کونے میں بِھڑوں کے چھتے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ البتہ شیڈ مین انچارج کا کوارٹر اور اس کے باہر لگے ہرے بھرے پودے اس بات کی چغلی کھاتے ہیں کہ یہاں کوئی اب بھی رہتا ہے۔
دور ایک طرف انجن کا رخ بدلنے والا لوہے کا گول چکر کچھ بہتر حالت میں ہے۔
یہ جگہ اسٹیشن کم اور کوئی گودام زیادہ لگتا ہے جہاں جگہ جگہ لوہا بکھرا پڑا ہے۔
اسٹیشن کے باہر ٹکٹ گھر اور مسافر خانہ ہے جبکہ کچھ دور انگریزوں کا بنایا ناچ گھر بھی اپنی حالت پہ ماتم کناں ہے۔
خوبصورت ہال ، لکڑی کے چھجے، اونچی چھتیں، قطار در قطار دروازے اور آتش دان، یہ ڈانس کلب اب بھی اپنے ماضی کی داستان سنا رہا ہے۔ بس چند ماہ میں ہی یہ بھی ختم ہو جائے گا۔
کاش کے ریاست پاکستان کے کسی وزیر مشیر کو اس مظلوم اسٹیشن کی آہ سنائی دے جائے اور اس کے بھاگ جاگ اٹھیں۔
جاری ہے
ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں