بطور مسلمان ہم قیامت کے دن دوبارہ اٹھنے اور محشر میں حساب کتاب چکھنے کے بعد کی زندگی پر یقین و ایمان رکھتے ہیں، لیکن دنیا میں ہندومت، جین مت، اور بدھ مت کی طرح کئی ثقافتوں میں یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ اسی زمین پر اسی دینا میں کئی انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندگی پالیتے ہیں جو کہ انکے پہلے جنم کی سزا یا جزا ہوسکتی ہے۔عیساییت کے چند ایک فرقوں میں بھی یہ عقیدہ ورود کرچکا ہے اور ماضی کے بعض صوفیاء بھی اواگون کے نظریےسے متاثر نظر آتے ہیں، برصغیر میں دیوبندی مکتب فکر میں جب حیات و ممات کے مسئلے پر اختلاف شدیدتر ہوچلا کہ مرنے کے بعد مردے دنیاوی قبر میں سلام دعا سنتے ہیں یا انکی یہ کیفیت آسمانی قبر تک محدود ہے تو کسی نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ دنیاوی قبور میں مردوں کو زندہ ثابت کر کے ہم عقیدہ تناسخ کے اثبات کی طرف تو نہیں جارہے۔
ہپناٹزم اور مراقبہ کے مختلف کورسز میں مجھ ناچیز پہ اس بات کا انکشاف ہوا کہ کسی کو ٹرانس میں لے جاکر اگر اس سے ان کے پچھلے جنم کے بارے میں پوچھا جائے یا سجیشن دی جائے تو عموماً کلائنٹ ایسی باتیں بتادیتا ہے جن کو وہ اپنی ماقبل تولد زندگی سے منسوب کرتا ہے۔ جدید وقوفی نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ انسان ماضی کو حافظہ میں اور مستقبل کو تخیل میں رکھتا ہے، لہذا ٹرانس کی حالت میں کلائنٹ اپنے تخیل سے ایسی باتیں تخلیق کرجاتا ہے جنہیں وہ اپنے پچھلے جنم کے وقعات کا نام دیتا ہے۔ ہندوستان کے مختلف دھرموں اور جوگی اور صوفیاء کے ہاں مراقبہ کی قدیم روایت چلی آرہی ہے اور مراقبہ ایک طرح کا سیلف ہیپنوسس کا کام دیتا ہے تو قرین قیاس یہی ہے کہ انہوں نے پچھلے جنم کا نظریہ مراقبہ کی حالت میں اپنی موضوعی مشاہدات سے اخذ کیا ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں