دوسرا جنم/عثمان سکران خان

بطور مسلمان ہم قیامت کے دن دوبارہ اٹھنے اور محشر میں حساب کتاب چکھنے کے بعد کی زندگی پر یقین و ایمان رکھتے ہیں، لیکن دنیا میں ہندومت، جین مت، اور بدھ مت کی طرح کئی ثقافتوں میں یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ اسی زمین پر اسی دینا میں کئی انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندگی پالیتے ہیں جو کہ انکے پہلے جنم کی سزا یا جزا ہوسکتی ہے۔عیساییت کے چند ایک فرقوں میں بھی یہ عقیدہ ورود کرچکا ہے اور   ماضی کے بعض صوفیاء بھی اواگون کے نظریےسے متاثر نظر آتے ہیں، برصغیر میں دیوبندی مکتب فکر میں جب حیات و ممات کے مسئلے پر اختلاف شدیدتر ہوچلا کہ مرنے کے بعد مردے دنیاوی قبر میں سلام دعا سنتے ہیں یا انکی یہ کیفیت آسمانی​​ قبر تک محدود ہے تو کسی نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ دنیاوی قبور میں مردوں کو زندہ ثابت کر کے ہم عقیدہ تناسخ کے اثبات کی طرف تو نہیں جارہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہپناٹزم اور مراقبہ کے مختلف کورسز میں مجھ ناچیز پہ اس بات کا انکشاف ہوا کہ کسی کو ٹرانس میں لے جاکر اگر اس سے ان کے پچھلے جنم کے بارے میں پوچھا جائے یا سجیشن دی جائے تو عموماً کلائنٹ ایسی باتیں بتادیتا ہے جن کو وہ اپنی ماقبل تولد زندگی سے منسوب کرتا ہے۔ جدید وقوفی نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ انسان ماضی کو حافظہ میں اور مستقبل کو تخیل میں رکھتا ہے، لہذا ٹرانس کی حالت میں کلائنٹ اپنے تخیل سے ایسی باتیں تخلیق کرجاتا ہے جنہیں وہ اپنے پچھلے جنم کے وقعات کا نام دیتا ہے۔ ہندوستان کے مختلف دھرموں اور جوگی اور صوفیاء کے ہاں مراقبہ کی قدیم روایت چلی آرہی ہے اور مراقبہ ایک طرح کا سیلف ہیپنوسس کا کام دیتا ہے تو قرین قیاس یہی ہے کہ انہوں نے پچھلے جنم کا نظریہ مراقبہ کی حالت میں اپنی موضوعی مشاہدات سے اخذ کیا ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply