کھسرے تو اچھے ہوتے ہیں /توفیق بٹ

میں نے اپنے گزشتہ کالم ”ہم تیرے پیار پہ الزام نہ آنے دیں گے“ میں عرض کیا تھا انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے سابق کمشنر لیاقت علی چٹھہ کے انکشافات ملک و قوم کے نہیں کسی اورہی کے مفاد میں ہیں، یہ پریس کانفرنس اگر واقعی ملک و قوم کے مفاد میں ہوتی صرف دو شخصیات کو نشانہ بنا کر اصل لوگوں کو بری الزمہ قرار دینے کی مذموم کوشش نہ کی جاتی ، اپنا تھوکا چاٹنے کی مثالیں ہم نے بہت سنی تھیں اپنا ”گند“ چاٹنے کی مثال پہلی بار لیاقت علی چٹھے نے قائم کی ہے ، ان کا کردار اس ”دھوتی“ کی طرح ہے جو ہوا کے زور سے کبھی آگے سے اٹھ جاتی ہے کبھی پیچھے سے اٹھ جاتی ہے، مجھے ایک کھسرا یاد آرہا ہے، کسی بدمعاش نے اس سے کہا کہ میرے گھر بیٹا ہواہے ،ہفتے کو تم نے ناچنا ہے، وہ بولا ”ہفتے کو میری کہیں اور بکنگ ہے آپ کوئی اور دن رکھ لیں“، بدمعاش غصے میں آگیا، اس نے دھمکیاں دینا شروع کر دیں، جب کھسرے پر کسی دھمکی کا کوئی اثر نہ ہوا، اس نے اسے لالچ دی کہ اگر تم اپنی پہلی بکنگ کینسل کر دو تو میں تمہیں دْگنی رقم دوں گا، کھسرا بولا ”نی باجی توں بھانویں مینوں چوگنی رقم دے میں اپنی زبان توں نئیں مکرنا“، بیوروکریسی کے لیاقت علی چٹھہ کا کردار اس کھسرے سے بھی کم تر نکلا، ایک اور واقعہ مجھے یاد آ رہا ہے ’’میرے بیٹے کی رسم مہندی تھی، نصیبو لعل گا رہی تھی ، میرے ایک دوست نے اس سے فرمائش کی وہ یہ گانا سنائے“ ایویں رسیا نہ کر میری جان سجنا اک دن چھڈ جانا ایں جہان سجنا‘‘، نصیبو لعل نے کہا ”یہ بڑا سوگوار گانا ہے، یہ شادی بیاہ کا گانا نہیں، میں یہ گانا نہیں گاؤں گی“، نصیبو لعل کے انکار پر میرا دوست غصے میں آگیا، اس نے اپنی جیب سے پانچ پانچ ہزار کے نوٹوں کی گڈی نکال کر نصیبو لعل کو دکھائی اور کہا ”تم اگر یہ گانا گاؤ گی میں تمہیں پانچ لاکھ روپے دوں گا“، وہ بولی”میں تیرے پنج لکھ تے تھکدی وی نئیں ، میں اے سوگوار گانا خوشی دے ایس موقعے تے نئیں گانا“، یہ ہمارے معاشرے کے وہ کردار ہیں جنہیں ہم عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ، ان کے مقابلے میں ہمارے افسران کا کردار بہت عزت مندانہ ہوتا ہے، اس کردار پر جو طمانچہ لیاقت علی چٹھے نے مارا اس کا نشان شایدہی اب مٹ سکے گا، ظفر اقبال کا ایک شعر ہے

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے

آدمی تو کیا یہ اس کھسرے جیسا بھی نہیں نکلا جو اپنی زبان پر قائم رہا ، جو کسی دھمکی میں آیا نہ کسی لالچ میں آیا، ”کمشنر“ میں”نر“ ہوتا ہے یہ تو ”مادی“ بھی نہیں نکلی ، لیاقت علی چٹھہ اپنے پہلے جھوٹ پر قائم نہیں رہ سکے مگر اب چونکہ نئی حکومت بن گئی ہے اور فی الحال پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کا کوئی چانس بھی نہیں تو اْمید ہے اپنے دوسرے جھوٹ یا کہہ مکرنی پر وہ ضرور قائم رہیں گے، البتہ پی ٹی آئی کے جو راہنما ان کی پہلی پریس کانفرنس پر خوشیاں منا رہے تھے ان کے لئے سوگ کا اہتمام وہ ضرور کر گئے ہیں، ہم انہیں بہت قابل افسر سمجھتے تھے، اب یہ رازہم پر کھلا وہ صرف اچھی پوسٹنگز لینے کے حوالے سے ہی بڑے قابل تھے، راولپنڈی جیسے اہم ترین ڈویژن میں بطور کمشنر ان کی تعیناتی ہوئی، راولپنڈی میں کوئی بھی تعیناتی ”خاص لوگوں“ سے پوچھے بغیر نہیں ہوتی، لیاقت علی چٹھے نے انتخابی دھاندلی کے خلاف پریس کانفرنس بھی شاید کچھ ”خاص لوگوں“ کی مرضی سے ہی کی ہوگی ، اور اب اپنا تھوکا بھی کچھ خاص لوگوں کی مرضی سے ہی چاٹا ہوگا، یوں محسوس ہوتا ہے ہمارے ’’خاص لوگ‘‘ دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں، ممکن ہے ایک حصے کی باتوں میں آ کر لیاقت علی چٹھے نے پہلا بیان دے دیا ہو، پھر دوسرے حصے کے دباؤ میں آ کر دوسرا دے دیا ہو، دونوں بیانات دیتے ہوئے انہوں نے اپنے ادارے کے اْس تقدس کا زرا خیال نہیں کیا جو پہلے ہی پامالیوں کے بدترین مقام پر پہنچا ہوا ہے، گریڈ بیس کا یہ افسر اس ایس ایچ او کی طرح نکلا جو کسی کی طاقت کے دباؤ یا کسی لالچ میں آنے کو اپنے پروفیشن کا باقاعدہ حصہ سمجھتا ہے، بہت برس پہلے کی بات ہے لاہور میں چاند رات پر دو گروپوں کی لڑائی ہوگئی ، ایک گروپ کا نوجوان زخمی ہوگیا، دوسرا گروپ زیادہ طاقتور تھا ، اس نے اس وقت کے وزیراعظم کے بیٹے سے متعلقہ ایس ایچ او کو فون کروایا تو ایس ایچ او نے الٹا نہ صرف زخمی کے خلاف ایف آئی آر دے دی ، وہاں موجود اس کے والد کو گندی گالیاں بھی دیں ، مجھے پتہ چلا میں یہ واقعہ فوری طور پر اس وقت کے آئی جی کے نوٹس میں لایا ، انہوں نے انکوائری کروائی جس میں ایس ایچ او قصور وار نکلا، آئی جی نے حکم دیا ایس ایچ او کو فوری طور پر ملازمت سے برخواست کر دیا جائے، جس ایس پی کے ماتحت وہ ایس ایچ او کام کر رہا تھا وہ میرا جاننے والا تھا اْس نے مجھ سے رابطہ کیا اور منت ترلے کرنے لگا کہ ”میرا یہ ایس ایچ او بڑا قابل ہے ابھی کل ہی اس نے تین بڑے اشتہاری پکڑے ہیں، آپ اسے معافی دے دیں“، میں نے کہا ”اگر اس نے معافی مانگنی ہے تو زخمی کے گھر جا کر اْس سے اور اس کے والد سے مانگے“، ایس پی کہنے لگا سر آپ بھی وہاں آجائیں میں بھی پہنچ جاتا ہوں اور اسے معافی دلوا دیتے ہیں، کچھ دیر بعد میں وہاں پہنچا میں نے دیکھا ایس ایچ او زخمی کے والد کے پاؤں پکڑ کر اس سے معافیاں مانگ رہا ہے، میں نے غصے میں اْس سے کہا ”جس شخص کو تم نے کل گالیاں دیں آج اس کے پاؤں پکڑے ہوئے ہیں ، تمہیں شرم نہیں آتی ؟“ ، وہ بولا ”سر اس میں شرم والی کون سی بات ہے ، یہ تو ہمارے پروفیشن کا حصہ ہے، کل دوسری پارٹی کا پلڑا بھاری تھا تو میں ان کو گالیاں دے رہا تھا آج ان کا پلڑا بھاری ہوگیا ہے تو میں دوسری پارٹی کو نہ صرف گالیاں دے کے آیا ہوں بلکہ میں نے ان کی ایف آئی آر خارج کر کے ان کے خلاف ایف آئی آر دے دی ہے“۔۔ ممکن ہے اسی ”پروفیشن“ کے مطابق لیاقت علی چٹھے نے بھی پہلے دھاندلی کے خلاف پریس کانفرنس کر دی ہو اور اب اپنا بیان یہ سوچ کر بدل لیا ہو کہ اس میں شرم والی کون سی بات ہے ؟ ، وہ فرماتے ہیں ”انہوں نے یہ پریس کانفرنس پی ٹی آئی کے ایک راہنما کے بہکاوے میں آ کر کی ، ہو سکتا ہے پی ٹی آئی کا یہ راہنما کسی خاص ادارے سے وابستہ ہو جس کا نام لینا انہوں نے مناسب نہ سمجھا ہو ، انہوں نے یہ بھی فرمایا اپنی پریس کانفرنس میں چیف جسٹس آف پاکستان کا نام انہوں نے جان بوجھ کے لیا“، اس کی ضرورت انہیں کیوں اور کس کے کہنے پر محسوس ہوئی ؟ اس بارے میں انہوں نے کچھ نہیں بتایا ، ایک بات مگر ثابت ہوگئی ہے وہ ایک انتہائی مکار بزدل اور جھوٹے شخص ہیں، جو شخص دھاندلی کرنے پر خود کو پھانسی دینے کی بات کر رہا تھا ، چار دنوں کی گرفتاری بھی وہ برداشت نہیں کر سکا ، آپ اس مْلک کی بدقسمتی دیکھئے کیسے کیسے فضول لوگ کیسے کیسے اہم عہدوں پر بٹھا دئیے جاتے ہیں ؟ ہر شاخ پر اْلو بیٹھا ہے انجام گلستاں یہ نہ ہوتا اور کیا ہوتا ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ نئی بات

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply