بیر بہوٹی،ریڈ ویلوٹ مائیٹ۔۔۔۔۔ ثنااللہ خان احسن

بچپن کے دور میں جب جولائی  اگست میں کالی  گھٹائیں چھاتیں اور رم جھم ساون برستا تو گھر کے سامنے میدان سے سوندھی مٹی کی مہک کے ساتھ ساتھ جانے کہاں سے یہ ننھی ننھی دلہن جیسی بیر بہوٹیاں مخملی سرخ جوڑا پہنے زمین سے قطار در قطار نمودار ہوتیں۔ بچے انہیں پکڑ کر ماچس کی ڈبیوں یا کسی دوسری چھوٹی سی بوتل میں جمع کر لیتے۔ پکڑے جانے پر یہ اپنی ٹانگیں سکیڑ لیتی تھیں۔
یہ صرف برسات کے موسم میں نظر آتی تھیں اور پھر سال بھر کے لئے غائب۔ ہم ان کو حیرت اور دلچسپی سے دیکھتے تھے۔ اب تو عرصہ ہو گیا کہ یہ ننھی دلہنیں ایسی ناراض ہوئیں کہ عنقا بلکہ ناپید ہی ہو گئیں۔ یہ سب کیا دھرا کھیتوں اور فصلوں پر انتہائی   زہریلی کیڑے مار ادویات کے اسپرے کا ہے کہ جس نے ان نازک کیڑوں کو ناپید کر دیا ہے۔۔

مجھے آج بھی اپنے بچپن کی وہ بارش یاد ہے جب میں نے پہلی مرتبہ بیر بہوٹیاں دیکھی تھیں۔ میرے چچا جان کورنگی ایک نمبر میں رہتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم ان کے گھر گئے تو وہ غالبا” جولائی  یا اگست کا مہینہ تھا۔ گھر کے سامنے ایک بڑا میدان تھا جس کے دوسرے سرے پر مسجد تھی۔ گھر سے چند گز کے فاصلے پر بہت بڑا نالا بہتا تھا جس کے پار دور دور تک کوئی  آبادی نہ تھی بلکہ ریتیلا میدان تھا جس میں بہت دور نیشنل ریفائنری نظر آتی تھی جس کی گزوں اونچی چمنی پر دن رات ایک شعلہ بھڑکتا نظر آتا تھا۔ کورنگی جیسے شہر سے دور اور پرسکون علاقے میں دور نظر آنے والی وی ریفائنری احساس دلاتی تھی کہ ہم کسی بڑے شہر میں موجود ہیں۔

جی تو میں بتا رہا تھا کہ وہ غالبا” اگست کا مہینہ تھا جب سخت گرمی اور حبس کے بعد اچانک کالی گھٹائیں آسمان پر چھا گئیں اور پھر جو روم جھوم مینہ برسا تو گویا زندگی لوٹ آئی ۔ گھر کے سامنے میدان میں بچے بارش میں نہا رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد بارش تھمی تو دیکھا کہ میدان کے ایک حصے میں گویا سرخ مخملی قالین بچھا دیا گیا ہو۔ یہ میرے لئے ایک حیرت انگیز نظارہ تھا۔ قریب سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ یہ پستے کے برابر سرخ مخملی کیڑے تھے جو ہزاروں کی تعداد میں نہ جانے کہاں سے نمودار ہوگئے تھے۔ بہت سے بچے ان کو پکڑ پکڑ کر شیشیوں اور ماچس کی ڈبیوں میں بند کررہے تھے۔ ہاتھ میں اٹھاتے ہی یہ اپنی ٹانگیں سکیڑ کر بے حس و حرکت ہوجاتی۔ یہ میرے بچپن کی ایک بہت حسین یاد ہے کہ اس وقت کی حیرانگی اور ایکسائٹمنٹ میں آج بھی محسوس کرسکتا ہوں۔
بیر بہوٹی شاید کیڑوں میں سب سے زیادہ خوبصورت کیڑا ہے۔ یہ مکڑی کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔ اسے انگریزی red velvet mite میں کہتے ہیں۔ بیر بہوٹی کا مطلب ہوا بھائی  کی دلہن۔ شاید اس کو یہ نام اس کے دلہن کے سرخ لباس جیسے رنگ کی وجہ سے دیا گیا ہے۔

بیر بہوٹی!
بیر بہوٹی Red Velvet Mite مختلف نام : (عربی) کاغنہ (فارسی) کرم عروسک (سندھی) مینھن وساوڑو (انگریزی
پہچان :۔ ایک مشہور کیڑا ہے۔ برسات میں خاص کر ساون بھادوں میں پیدا ہوتا ہے۔
رنگ:۔ نہایت سرخ

اپنے چمکدار سرخ رنگ اور مخملی جلد کی وجہ سے ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا سائز پانچ سے چھ ملی میٹر تک ہوتا ہے۔ آٹھ ٹانگیں اور مکڑی جیسا منہ۔ اصل میں ان کا گہرا سرخ رنگ ان کے شکاریوں کے لئے وارننگ ہوتا ہے کہ یہ زہریلے ہیں لہٰذا ان سے دور رہا جائے۔
بیر بہوٹیاں مٹی میں رہتی ہیں اور سال کا اکثر حصہ زیر زمیں  ہی گزارتی ہیں۔ موسم گرما کی بارش کے بعد یہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں باہر نکل آتی ہیں۔ ان کی خوراک میں دیمک، چھوٹی مکڑیاں اور پھپوندی وغیرہ شامل ہیں۔
بیر بہوٹی کے جنسی ملاپ کا طریقہ بھی انتہائی  دلچسپ ہے۔ سب سے پہلے نر بیر بہوٹی اپنے اسپرمز کو کسی گھاس کے تنکے یا پتے وغیرہ پر خارج کرتا ہے اور ان اسپرمز کے گرد ایک ریشمی دھاگے جیسا تار لپیٹتا جاتا ہے۔ مادہ بیر بہوٹی ان دھاگے جیسے  اروں کی مدد سے نر کا سراغ لگاتی ہے۔ اگر دونوں میں باہمی کشش ہو اور مادہ بھی آمادہ ہو تو یہ دونوں نر کے اسپرم اٹھا لیتے ہیں اور پھر مادہ مٹی میں اپنے انڈے دیتی ہے۔ اگر کوئی  اور نر بیر بہوٹی کو کسی دوسرے نر بیر بہوٹی کے دھاگے اور اسپرمز نظر آتے ہیں تو وہ ان کو تباہ کر کے ان کی جگہ اپنے اسپرمز خارج کر دیتا ہے۔ مکمل بیر بہوٹی بننے تک اس کیڑے کے مختلف مراحل ہیں۔ جیسے کہ انڈا، لاروا وغیرہ۔
بیر بہوٹیاں ماحول دوست اور انسان کے لئے مفید ہیں۔ یہ مٹی میں موجود نقصان دہ کیڑوں کو کھاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اقسام کی بیکٹیریا وغیرہ بھی کھا جاتی ہیں جو کہ پودوں اور فصلوں کے لئے مضر ہوتی ہیں۔
ان کا طبی استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ ہندوستانی و یونانی ادویات میں اس کو مختلف جڑی بوٹیوں کے ساتھ استعمال کر کے تیل بنایا جاتا ہے جو فالج کے مریضوں کے لئے مفید ہوتا ہے۔ اس کا تیل نامردی اور مردانہ جنسی صلاحیت بڑھانے کے لئے بطور طلا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لئے جب یہ برسات کے بعد باہر نکلتی ہیں تو اکثر لوگ ان کر جمع کرنے نکل پڑتے ہیں کیونکہ حکیم اور وید حضرات ان کو اچھی قیمت پر خرید لیتے ہیں۔جدید ریسرچ نے بھی اس کے تیل کو کافی مفید قرار دیا ہے۔آجکل بھی چین اور بھارت اس کو بڑی مقدار میں فروخت کرتے ہیں۔پنساریوں کے پاس یہ خشک شدہ حالت میں ملتی ہے۔یہ اب بھی گائوں دیہات اور کچھ دیگر ممالک میں کثرت سے نظر آجاتی ہے۔۔ہر وہ جگہ جہاں ماحول کی آلودگی نہیں بڑھی ہے اور حضرت انسان كی ریشہ دوانیاں حد سے زیادہ نہیں بڑھی ہیں وہاں اب بھی یہ مخلوق عنقا نہیں ہوئی  ہے۔

بیر بہوٹی کا تیل
بہوٹی oil
Zaitoon Olive Oil 80 gram زیتون کا تیل
Aqaraqarah Pellitory 5 gram عقر قرحا
Jonk Speckled Leech 5 gram جونک خشک
Kechuah Earthworm 5 gram کیچوا خشک
Red Velvet Mite بیر بہوٹی gram5 بیر بہوٹی

Advertisements
julia rana solicitors

سب سےپہلے روغن زیتون کو چولہے پر رکھیں اس میں باقی تمام اشیاء کو ڈال کر آگ جلا دیں اور جب تمام اشیاء جل جائیں تو چولہے سے اتار لیں اور ٹھنڈا ہونے پر چھان کر شیشی میں سنبھال لیں۔ استعمال کا طریقہ کسی حکیم سے پوچھ لیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply