میری کہانی تنہائیوں کی زبانی۔۔۔۔عابد آفریدی

دو ہزار گیارہ کا سال وہ سال تھا جب کراچی کے حالات کسی جنگل سے بھی بدتر تھے، لیاری گینگ وار ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنان آپس میں ایک دوسرے کا خون پانی کی طرح بہارہے تھے،،صرف یہ ہی نہیں لسانی فسادات بھی عروج پر تھے، پختونوں اور بلوچوں کے لئے لالو کھیت، لائنز ایریا، مہاجروں کے لئے بنارس سہراب گوٹھ، لیاری نوگو ایریاز تھے۔

حالات اتنے خراب تھے کہ ان ایریاز میں مقامی لوگوں کے سوا کوئی غیر مقامی غلطی سے بھی داخل ہوتا تو اس کی پُرتشدد موت یقینی ہوجایا کرتی تھی، مہاجر بلوچوں اور پختونوں کو جان سے مارتے تھے جب کہ بلوچ اور پختون ، مہاجروں کو۔۔

میرے کئی دوست انھی غلطیوں کی وجہ سے جان سے گئے ہیں، نور محمد مہمند، وسیم بلوچ، عادل نیازی، جمشید(مہاجر) سید آفریدی، ان سب کا گناہ یہ تھا کہ یہ لوگ ان نوگو ایریاز میں چلے گئے تھے۔

ان وقتوں میں ایک فتنہ نہیں تھا جن کا ہم ذکر کریں، ہر گلی میں محلے میں ایک سے ایک فتنہ موجود تھا، کچی برادری کی آپس میں گروہ بندی تھی، لینڈ مافیا، منگوپیر اور اتحاد ٹاؤن میں چوہدری اسلم کے بنائے ہوئے طالبان خود چوہدری اسلم کی پولیس گردی، یہ سب کچھ عروج پر تھا۔

ہم جس علاقے میں رہتے تھے، وہاں لیاری گینگ وار کی ایک شاخ کی حکمرانی تھی،اس کے علاوہ ایک افغانی گینگ بھی تھا، جس کے ممبران ہمارے ایریا سے شروع ہوکر میٹرول، میٹرول سے سہراب گوٹھ اور سہراب گوٹھ سے کوئٹہ کے مختلف علاقوں تک پھیلے ہوئے تھے، جبکہ دوسری جانب بلدیہ ٹاؤں اور اورنگی ہریانہ کالونی میں ایم کیو ایم کا راج تھا۔

ہم محلے والے ہر وقت ایک جنگ کی کفیت سے دوچار رہتے تھے، بالخصوص ہمارے علاقے کے نوجوان جن کا زیادہ تر تعلق جماعت اسلامی سے تھا،، ہمارا کام علاقے میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنا ہوتا تھا گیٹرون سمیت متعدد غیر ملکی کمپنیوں کی گاڑیاں جو اردو بولنے والوں سے اکثر بھری رہتی تھیں، وہ خراب حالات میں جب بھی ہمارے علاقے سے گزرتیں تو انہیں بحفاظت نکالنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہوا کرتی تھی، صرف ہماری۔۔۔

ایک دن حالات انتہائی خراب تھے، گیٹرون کمپنی کی دو گاڑیاں ایسی جگہ آکر پھنس گئیں کہ ان کے لئے نہ تو پیچھے جانا ممکن تھا نہ آگے آنا،ہمارے ایک دوست کو فون آیا کہ ان گاڑیوں کو بحفاظت نکالنا آپ کی ذمہ داری ہے اس نے تمام لڑکوں کو اکٹھا کیا ہم سب ان بسوں تک پہنچ گئے اندر جھانک کر دیکھا تو مرد اور عورتیں سیٹوں سے اتر کر بس کے  فرش پر لیٹے ہوئے تھے ہم جیسے ہی بسوں میں داخل ہوئے تو سب نے چیخنا چلانا شروع کردیا ہاتھ جوڑے، ہم نے ان کو سمجھایا کہ ہم آپ لوگوں کی حفاظت کے لیے آئے ہیں۔

ان گاڑیوں کو وہاں سے نکالا، لیاری گینگ وار کے علاقے سے نکالا یہ وقت بہت مشکل وقت تھا کیونکہ اس طرح کی گاڑیوں پر ایسے مواقعوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی جاتی تھی۔

یہ ہی نہیں ایک دن ہمارے محلہ کے ایک آدمی جمیل خان کو ایم کیو ایم والوں نے بلدیہ کے علاقے سے اٹھا لیا، پولیس والوں نے ہمارے مشیر سید خالد شاہ کو اطلاع دی کہ اگر آپ لوگ ایک گھنٹے میں کوئی سورس لڑا کر چھڑوا لیں تو ٹھیک ورنہ آدھے گھنٹے بعد اس کی لاش ہی ملنی ہے، ایسا کوئی سورس نہیں تھا، سب محلے والوں نے فیصلہ کیا کہ اسلحہ لیکر سیکٹر آفس پر دھاوا بولا جائے ان دنوں کراچی میں عام شہریوں کو اسلحہ رکھنے کی مکمل اجازت دی جاچکی تھی، ہم سب گاڑیوں میں بیٹھ گئے، مگر راستے میں رینجرز والوں نے ہمیں روک دیا ہم نے ان کو سب کچھ بتادیا، اس وقت رینجرز والوں کے اختیارات محدود تھے، انہوں نے کہا آپ میں سے صرف تین افراد ہمارے ساتھ چلیں ہم چھڑا کر لاتے ہیں،رینجرز والوں نے سیکٹر آفس سے بات کی ،اس آدمی کو چھڑوا لیا، جمیل کو انہوں نے ڈکیت سمجھ کر اٹھایا تھا، اگر اس دن وہ رینجرز والے درمیان میں نہ  آتے تو بڑی خونریزی کا خطرہ تھا جس سے اللہ نے ہمیں محفوظ رکھا۔

کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ہمارے محلے کے حبیب اللہ کو لیاری گینگ وار نے دوکان خالی کرنے کی دھمکی دی، اس نے انکار کردیا،جس آدمی نے دھمکی دی تھی اس کی ہیڈ منی اس وقت سندھ حکومت نے پچاس لاکھ روپے مقرر کی تھی، وہ شخص لگ بھگ سو سے زائد قتل کے ایف آئی آر میں مطلوب تھا، محلے والوں نے  حبیب اللہ کا ساتھ دینا ہم سب پر فرض کردیا، گینگ وار نے ایک دن مقرر کردیا کہ اس دن تک دوکان خالی کردو ورنہ ہم اسی دن آئیں گے اور دکان خالی کروالیں گے، اس دن ہم سب جاکر اس کی دکان کے  سامنے بیٹھ گئے، گینگ وار کو اطلاع ملی کہ دکان کے باہر بہت سارے لوگ موجود ہیں، اس اطلاع کے بعد انہوں نے بھی جگہ جگہ سے گینگ وار کارندوں کو اکٹھا کیا، اور ہماری جانب روانہ ہوگئے، وہ پہنچ گئے ہم سب بھی سینہ تھان کر ان کے سامنے کھڑے ہوگئے، اسلحے سب نے لوڈ کردیے، گینگ وار سربراہ اور ہمارے مشیر کے مابین مکالمہ شروع ہوا، حالانکہ وہ گینگ وار لیڈر اور ہم سب ایک ہی سرکاری اسکول کے فارغ التحصیل تھے، ایک دوسرے کو بچپن سے جانتے تھے، شاید اسی وجہ سے ہم میں کوئی پہل کرنے کی ہمت سے قاصر تھا، بھلا ہو ہماری مرکزی مسجد کے مولانا صاحب کا جو خود بھی بلوچ تھے اس دوران وہ بیچ میں آگئے، ایک زوردار قسم کی تقریر کی پٹھانوں اور بلوچوں کو آپس میں ماموں بھانجے کے رشتے میں باندھ دیا سب کو سمجھا بجھا کر پیچھے ہٹا دیا۔

ایک دن اچانک خبر آئی کہ ہمارے علاقے کے ایک لڑکے مسلم خان کو گینگ وار نے چھریاں ماری ہیں، اس کی حالت دیکھ کر ہم سب نہتے گینگ وار کے مرکز میں داخل ہوگئے اور جو ہاتھ آتا گیا اس پر مکے برساتے گئے، ہم تعداد میں بہت کم تھے، کچھ دیر لڑ لئے مگر پھر وہاں بڑے بزرگ سامنے آگئے ہمیں بیٹا بیٹا بول کر روک دیا، ہم سے بات کرنے لگے، وجہ پوچھی،ہم نے ان کو سارا ماجرا سنایا مگر یہ جانے بغیر کہ  اس دوران وہ سب بہت بڑی تعداد میں ہمارے اردگرد جمع ہوچکے تھے، ہمارے کچھ ساتھیوں نے عقلمندی دکھائی اور اس دوران وہاں سے نکل گئے ہم تین ہی دوست رہ گئے ان کے درمیان، بات ابھی چل ہی رہی تھی کہ انہوں نے ہم پر ہلہ بول دیا، کیا مرد کیا عورت سب نے ہم پر دل کی بھڑاس نکالی، میں ان کے پاؤں میں فٹبال بن گیا سب سے زیادہ میری حالت خراب ہوئی تھی، وہ مجھے جان سے مارچکے تھے،،جب میں بالکل بے خود پڑا تھا تو انھی میں سے کچھ جاننے والوں نے اٹھا کر مجھے میرے محلے میں لاکر پھینک دیا، تقریباً پندرہ دن تک میں بستر پر پڑا رہا، خنجر کا ایک بھاری گھاؤ میرے جسم پر موجود تھا۔

ہمارا علاقہ ہر حوالے سے بدنام ہوچکا تھا لوگ اس علاقے کو جہنم سمجھتے تھے،منشیات فروشوں کا گڑھ، ڈکیتوں کے گروپس، بھتہ خوری، گینگ وار دہشتگردی۔

فسادات کے اس زمانے میں افغانی گروپ بھی ہمارے محلے میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکا تھا،انتہائی منافق قسم کا گروہ تھا انصاف اور اخلاق سے ان کو دور دور کا تعلق نہیں تھا، ہر وقت شراب کے نشے میں دھت، کبھی ٹھیلے والے کو لوٹتے تو کبھی کسی غریب کے گھر میں گھس کر اس کا سب کچھ لے اُڑتے، ان کا سربراہ بش نامی شخص تھا جو چوہدری اسلم کو بھتہ دیتا تھا، بدلے میں چوہدری اسلم نے اسے چھوٹ دے رکھی تھی، ہمارے محلے کے سیاہ و سفید کا مالک بنا کر رکھ دیا۔

ایک دن میں اپنے گھر کے باہر کھڑا تھا، ایک لڑکی جو اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی کے ساتھ اکیلی رہتی تھی تین افغانی لڑکوں کو اس کا پیچھا کرتے دیکھا وہ لڑکی بہت خوبصورت تھی، ان تینوں نے گھر تک اس کا پیچھا کیا، میں نے ایک افغانی لڑکے سے پوچھا کہ یہ لوگ اس لڑکی کا پیچھا کیوں کررہے ہیں اس نے بتایا کہ یہ لڑکی ان کے باس بش کو پسند آئی ہے اور عنقریب وہ کسی رات کو ان کے گھر کا دورہ کرے گا۔

آپ لوگ یقین مانیں، میرے پاؤں تلے سے  زمین نکل گئی میرا دل چاہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر رونا شروع کروں اور خدا سے پوچھوں کہ کیا آپ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔۔

اللہ گواہ ہے یہ سننے کے بعد میں نے اس گلی میں جہاں یہ لڑکی اور اس کا چھوٹا بھائی اور معذور ماں رہتی تھی ان کو بتائے بغیر کئی راتوں تک چوکیداری کی، یہاں تک کہ اس معذور عورت کا بھائی پنجاب سے آیا اور ان سب کو وہاں سے لے گیا۔

میرا یہ عمل ان افغانی غنڈوں پر سخت ناگوار گزرا، اب میں پہلے سے زیادہ ان کی آنکھوں میں چھبنے لگا تھا، ایک دن میں اپنے کمرے میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا کہ میرا ایک بھتیجا خون میں لت پت  گھر میں داخل ہوا، پوچھنے پر معلوم ہوا ،اس کو افغان لڑکوں نے مل کر مارا تھا، اور اس مار کی وجہ میں سمجھ گیا تھا، میں اور میرا بڑا بھائی اور ایک بھتیجا ہم تینوں گھر سے نکلے، وہ لڑکے سامنے ہی موجود تھے جنہوں نے میرے بھتیجے کو مارا تھا ہم تینوں ان سے لڑ پڑے، وہ سب گھات میں بیٹھے تھے، ہم تین تھے وہ تقریباًبیس افراد تھے خوب لڑائی ہوئی میرے بھائی کا سر پھٹ گیا میرا سر بھی پھٹ گیا ہم تینوں شدید زخمی ہوئے، اسی دوران ہمارے دوست بھی آگئے وہ بھی ہمارے لئے لڑے ہمارا ایک دوست علی اصغر شہید بھی ان سے لڑ پڑا جو بعد میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کانشانہ بنا۔

میں دوبارہ بستر پر دراز ہوگیا۔۔۔

اپنا سر پھڑوانے کے یہ چند واقعات نہیں ہیں، بلکہ متعدد ہیں جس کی صحیح تعداد اس وقت معلوم ہوتی ہے جب میں سر پر استرا پھیرواتا ہوں۔

میں یہ بات قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی مظلوم کمزور پر ہاتھ نہیں اٹھایا ہے، ظلم کا ایک تھپڑ کسی کو نہیں مارا، یہ اللہ کی خصوصی رحمت ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ مجھ پر جماعت اسلامی کا بھی احسان ہے، کیونکہ اس تنظیم نے ہمارے علاقے میں اس وقت درس و تدریس کا کام جاری رکھا تھا جب ہر آدمی بہ آسانی کسی کو بھی لوٹ سکتا تھا، ظلم کرسکتا تھا، جماعت والے اپنا کام حالات کے مطابق تیز کرتے جاتے تھے، جس قدر فسادات میں اضافہ ہوتا اس قدر اس تنظیم کے ذمہ داران ہمارے علاقے میں دروس قرآن بڑھ چڑھ کر کرواتے، حدیث اور اخلاقیات پر پروگرامات منقعد کرتے، نوجوانوں کی تربیت کرتے ان کو لٹریچر دیتے، ان کو سمجھاتے کہ یہ لسانی فسادات، یہ غنڈہ گردی سب بربادی ہے اس سے خود کو دور رکھیں۔

میں سابقہ ایم کیو ایم اور لیاری گینگ وار کے خلاف ہر احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا، ان کے خلاف تقاریر کرتا تھا، اس لئے ان کی نظروں میں ہم رہتے تھے۔

ایک دن بجلی کے بل بھرنے غنی چورنگی ہارون آباد” کے الیکٹرک ” کے آفس گیا یہ رمضان کا مہینہ تھا ذولفقار مرزا ان دنوں سندھ کا وزیر داخلہ تھا، حالات سخت کشیدہ تھے، میں رکشے سے اُترا دفتر میں داخل ہونے کو تھا کہ اچانک ا یک ہائی روف گاڑی پر میری نظر پڑی وہ گاڑی میرے قریب آکر رکی اس کا ڈرائیور مجھے گھور رہا تھا، میں نے اگنور کیا اور دفتر میں داخل ہوا، اندر گیا تو معلوم ہوا کہ آفس میں نماز کا وقفہ ہوچکا ہے، میں بھی دفتر سے نکلا سوچا نماز پڑھ کر واپس آونگا، مگر یہ بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ جیسا میں سوچ رہا ہوں میری قسمت ویسا نہیں سوچ رہی، مسجد کی تلاش میں باہر نکلا، مین روڈ پر پیدل چل رہا تھا کہ وہی ہائی  روف انتہائی تیز رفتاری میں مجھ پر چڑھنے کے لئے آگے بڑھی، میں نے خود کو بچایا، خود کو سنبھالا اور غصے کی حالت میں اسی ہائی روف کی جانب بڑھا، ڈرائیور کے ساتھ سیٹ پر ایک آدمی بیٹھا تھا میں ان سے یہ پوچھنے کو ہی تھا کہ کیا مسئلہ ہے کہ اسی دوران اس گاڑی کے تینوں دروازے کھلے اور چار آدمی جو صحت میں مجھ سے کئی گنا بہتر تھے اترے اور مجھ پر ٹوٹ پڑے میں ان سے لڑ پڑا ٹکر سے ایک آدمی کی ناک پھوڑ دی، اس کے ہاتھ میں پستول تھی وہی ہاتھ میں نے پکڑے رکھا تھا، مگر اسی دوران ان میں سے ایک نے میرے گلے میں رسی ڈال دی اور زور سے کھینچی اتنا زور دیا کہ میرے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے، مجھے قابو کرکے گاڑی میں ڈال دیا اور اونچے والیم میں بچے کی آواز میں نعتیہ کلام چلا دیے
” نور والا آیا ہے”

میں نڈھال ہوگیا تھا انہوں نے مجھ سے کہا ہم سی آئی ڈی والے ہیں آپ سے صرف کچھ پوچھ گچھ کرنی ہے، لہذا اچھلنے کی کوئی ضرورت نہیں، میں سمجھا کہ شاید یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں، اگر کوئی اور ہوتا تو اسی جگہ گولی مار دیتا، لیجانے کی کیا ضرورت ہے، مگر میں غلط تھا،وہ ایم کیو ایم والے تھے اور مجھے عبرت کا نشان بنانا چاہتے تھے۔

کچھ دیر بعد گاڑی ایک گودام میں داخل ہوگئی مجھے گاڑی سے نیچے اتارا اتارتے ساتھ وہاں سات سے اٹھ مزید بندوں نے مجھ پر ہلہ بول دیا، لاتیں گھونسے مارتے ہوئے، کونے کے ایک کمرے میں لے گئے ایک آدمی کی لاش وہاں پہلے سے موجود تھی اس کے ہاتھ بندھے ہوئے اور جبڑا کھلا ہوا تھا، جیسے کسی نے کلہاڑے کےوار سے مارا ہو اس کمرے میں ایک وہ آلہ نسب تھا جس میں لوگ لوہے کے پائپ پھنسا کر اس کی چوڑی بناتے ہیں اور کچھ لکڑیاں پڑی ہوئی تھیں، مجھے الٹا لٹکا دیا، سریوں اور ڈنڈو سے مارنا شروع کردیا، گالیاں دیتے جاتے اور مارتے جاتے میری قمیض اتر گئی، یہاں تک وہ رسی بھی ٹوٹ گئی جس سے باندھ کر مجھے لٹکایا گیا تھا، جو چیز ان کے ہاتھ لگتی اس سے مجھے مارتے،یہاں تک کہ میرے جسم کی آدھی سے زیادہ ہڈیاں کریک ہوگئیں، میرے پیروں میں کیل ٹھوک دیے، جس کے نشان آج بھی موجود ہیں۔۔

جب خوب تھک گئے، تو انہوں نے اپنے کسی ساتھی کو فون ملاکر میرے بارے میں بتایا اس نے ہدایات دی کہ مجھے اس وقت تک جان سے نہ  مارا جائے جب تک وہ خود آکر یہ کام نہ کرے،، مجھے بتایا کہ افطاری کے بعد “تمھاری ڈولی اٹھے گی” افطاری میں کچھ ہی وقت رہ  گیا تھا۔

وہ سب اس کمرے سے نکل گئے جہاں میں اور ایک لاش موجود تھی، مجھے معلوم تھا کہ افطاری کے بعد یہ لوگ میرے جیتے جی میری آنکھیں نکال کر میری مٹھی میں بندھ کروائیں  گے، بدترین تشدد جو جاری تھا اس کے ساتھ اذیت ناک موت بھی دینگے۔

میں نے پڑے پڑے ہی یہ فیصلہ کرلیا کہ مجھے گولی کھا کر مرنا ہے نا کہ اس آدمی کا انتظار کرنا ہے جس نے مجھے اذیت ناک موت دینی ہے، مجھے اب خود سے ان پر حملہ کرنا تھا کسی بھی صورت تاکہ وہ اپنی دفاع میں مجھ پر گولی چلا دیں، بہت مشکل سے میں زمین سے اٹھا کمرے کے گیٹ کے پاس آیا گیٹ کے سامنے دیوار کے ساتھ پرانی ٹیبل کرسیوں کا انبار لگا ہوا تھا تاکہ دور سے دروازے کے اندر کا ماحول کسی کو دکھائی نہ دے، ان ٹیبل کرسیوں کی آڑ لیکر میں نے صحن کی جانب نظر دوڑائی تو قدریں دور گیٹ کے پاس کرسیاں لگا کر چار سے پانچ افراد بیٹھے ہوئے تھے، باقی جاچکے تھے، اسی دوران یہ خیال آیا کہ گولی کھانے کو میں راضی تو ہوچکا ہوں، کیوں نہ  بھاگنے کی ایک کوشش کرلی جائے اگر پکڑا گیا تو بھی گولی ہی ماریں  گے۔

میں نے ان کرسی ٹیبلوں پر چڑھنا شروع کردیا جو دیوار سے لگی ہوئی تھیں اور دیوار کے اس جانب سڑک تھی۔

نجانے کیا بات ہوگئی وہ لوگ اندھے ہوگئے تھے، یا پھر کوئی اور مصلحت ہوگئی، میں دیوار کی دوسری جانب گر کر سڑک پر آگیا سڑک عام سی سڑک تھی بالکل خالی ،سامنے ایک دکان تھی اور اس کے باہر ایک لمبا اسٹول جس پر دو ایک لڑکے بیٹھے ہوئے  تھے،انکی نظر مجھ پر پڑ گئی وہ سب گھبرا کر کھڑا ہوگئے، پاس ہی ایک رکشہ کھڑا تھا میں لنگڑتے ہوئے اس رکشے والے کے پاس گیا اور اس سے کہا مجھے نکالو یہاں سے، اس نے مجھ سے یہ نہیں کہا کہ بیٹھ جاؤ! میں خود ہی بیٹھ گیا۔

دیوار سے نیچے گرنا اور پھر اٹھ کر رکشے تک چلنا اس دوران جو تکلیف میرے انگ انگ کو محسوس ہوئی تھی وہ تکلیف ان تمام تکالیف سے بڑھ  کر تھی جو انہوں نے مجھے دی تھی۔

رکشہ ڈرائیور خاموشی سے رکشہ چلانے لگا، جیسے ہی سڑک سے گلی میں مڑ گیا اس نے رکشے کی اسپیڈ بڑھا دی اور سیدھا مجھے لیاری میں ایک بیکری کے سامنے اتار دیا، کچھ لمحوں میں وہاں ڈھیر سارے لوگ جمع ہوگئے،میں ان سے بس ایک ہی اپیل کررہا تھا کہ مجھے میرے گھر لیکر چلو، اور انھوں نے وہی کیا مجھے گھر لاکر چھوڑ دیا۔

اس کے بعد جو ہمارے علاقے خاندان گھر میں ہنگامہ ہوا وہ ناقابل بیان ہے، سیاسی رہنماوں نے ہمارے گھر کا رخ کیا، سب آتے رہے، جماعت اسلامی بالخصوص منور حسن نے میرے علاج کی ذمہ داری اٹھائی۔

وقت گزر گیا آپریشن ہوگیا، بہت سارے برے لوگ مارے گئے لیاری گینگ وار میں  بڑے بڑے نام مارے گئے وہ گینگ ان کا وہ سربراہ بش بدترین موت کا شکار ہوا، اس گینگ  کے  اور بہت سے کارندے مارے گئے، ایم کیو ایم کے بڑے بڑے نام لاپتہ ہوگئے،اس تشدد کے کچھ اثرات آج بھی مجھ سے جڑے ہیں

اب کراچی میں کوئی گینگ نہیں ہے ایسا معاشرہ بھی نہیں ہے کہ جہاں انسان انسانوں کے لئے سر کی بازی لگا سکیں، اس لئے ہم نے بھی اب کراچی چھوڑ کر فاٹا کا رخ کیا ہے یہاں سر کی بازی لگانے کی جگہ ہے، فرش کے بہت سارے خدا موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انسانوں کی تقدیر کا فیصلہ ہم ہی کرینگے، اور ہم ہیں  کہ ہمیں یہ منظور نہیں کہ انسان خدا بن جائے، کیونکہ ہمارا خدا ایک ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(یہ سب کچھ اس لئے قلمبند کیا کہ میں جہاں بیٹھا ہوں وہاں اس وقت گھر سے نکلنا منع ہے، علاقے کی بجلی، اور نیٹ ورک سب غیر موجود ہے، ایک کمرہ ہے کمرے میں اندھیرا، کچھ اور کرنے کو نہیں تھا سوچا یہی لکھ لوں)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply