اپنے گھر میں شکست ۔۔۔محمد احمد

سندھ کے سیاسی پس منظر کو اگر ہم دو لفظوں میں بیان کریں تو بس اتنا کہنا کافی ہوگا یہاں وڈیروں کا راج ہے۔ عوام کو کبھی اپنی مرضی کے مطابق ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو بیشک بڑے عوامی لیڈر تھے، ملک بھر میں انکی سیاست کا ڈنکا بجتا تھا۔ لیکن سندھ میں انکی شناخت وڈیرے کی حیثیت سے تھی۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے مخالفین کو کچلنے کی کوشش کی اور الیکشن میں دھاندلی کا سہارا لیا۔

اس کام کے لیے ان کے چھوٹے وڈیروں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اپنے مخالفین کو ہراساں کرنا اور ووٹروں کو زودو کوب کرنا، انکا پسندیدہ شیوہ رہا ہے۔مثال کے طور پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں :
1970 کے الیکشن میں لاڑکانہ سے جے یو آئی کے امیدوار نواب نبی بخش بھٹو صاحب کے مقابلے میں کھڑے تھے۔ ان کو فارم تک بھرنے نہیں دیا گیا، بلکہ ان کو اغوا کرایا گیا یہ تھی ان کی ماضی میں بوکھلاہٹ کی واضح  مثال، تشدد کی سینکڑوں مثالیں اور بھی ہیں ان کا گنوانا مشکل ہے۔ تاریخ کو مسخ نہیں کیا جاسکتا، مؤرخ دنیا کے سامنے سچ ضرور لائے گا۔
پیپلزپارٹی کا سندھ میں اثر ورسوخ رہا ہے اس کا انکار ممکن نہیں، لیکن سندھ میں پی پی کی انرجی ہمیشہ وڈیروں کی مرہونِ منَّت رہی ہے۔

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں یا جانتے بوجھتے اس کا اظہار نہیں کرتے کہ سندھ میں ظالم، جابر وڈیروں سے اگر  کسی نےمقابلہ کیا ہے وہ مذہبی طبقہ ہے، مسجد اور مدرسہ کے بوریہ نشینوں نے ان کو للکارا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو جیسی  مطلق العنان شخصیت کے سامنے جمعیت علماء اسلام کے نڈر علماء کرام کھڑے ہوئے۔ سندھ کے عوام کو سیاسی غلامی سے نکالنے والے علماء کرام میں مولانا عبدالکریم قریشی صاحب ، مولانا محمد شاہ امروٹی صاحب اور ڈاکٹر خالد محمود سومرو صاحب کے نام سر فہرست ہیں ۔ جنہوں نے عوام کے دلوں سے خوف وہراس نکالا اور مقابلے  کی قوت عطا کی۔حقائق کو بھلانا اور مسخ کرنا اتنا آسان نہیں جمعیت علماء اسلام نے سکھر اور شکارپور سے قومی اسمبلی کی سیٹیں جیتی تھیں  لیکن دھاندلی کے ذریعے وہ سیٹیں پی پی نے اپنے نام کیں،یہ کوئی دل بہلانے کے لیے نہیں لکھ رہا بلکہ معروف قانون دان اور سابق وزیر قانون جناب اے کے بروہی کی گواہی موجود ہے اور ساتھ میں پی پی کے کینڈی ڈیٹ علی حسن منگی نے خود مولانا عبدالکریم قریشی صاحب سے معافی مانگی تھی کہ میں مجبور ہوں۔

اب حالات یہ ہیں  کہ وڈیرہ شاہی کمزور ضرور ہوئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی،ووٹر بڑی حد تک آزاد ہیں۔ پیپلزپارٹی کی لاڑکانہ میں شکست بتارہی ہے کہ   ان کا مضبوط گڑھ ان کے لیے گڑھا بنتا جا رہا ہے۔2018 کے الیکشن میں بھی مخالفین نے پی پی کو بڑا ٹف ٹائم دیا تھا بلاول بھٹو زرداری کے مقابلے میں راشد محمود سومرو صاحب کو پچاس ہزار سے زائد ووٹ پڑے تھے۔ جبکہ صوبائی سیٹ جی ڈی اے نے اپنے نام کی تھی۔ پیپلزپارٹی کی کرپشن، اقرباء پروری، بدترین گڈگورننس اور نااہلی نے سندھ کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ عوام کا جینا محال کردیا گیا ہے۔ بنیادی اور ضروری سہولیات میسر نہیں۔ صاف پانی، تعلیم اور صحت کے لیے لوگ ترس رہے ہیں۔ ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں اگر شفاف انتخابات ہوں تو پی پی بڑی مشکل سے ایک سیٹ بھی جیت پائے گی۔ ps11 کے انتخاب کی کہانی یہ ہے کہ جناب معظم عباسی صاحب نے 2018 میں پی پی سندھ کے صدر نثار کھوڑو صاحب کی بیٹی ندا کھوڑو کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ پھر پی پی کی درخواست پر عدالت نے دوبارہ انتخاب کا حکم دیا۔ بظاہر جیالے بڑے خوش تھے اس بار ہماری حکومت ہے ہم ریاستی مشینری استعمال کرکے سیٹ جیت لیں گے۔ اور انہوں نے پورا پورا زور بھی لگایا، وزراء، ایم این ایز اور ایم پی ایز الیکشن کمیشن کے قانون  کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکشن کمپین چلاتے رہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے خود ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن دال نہیں گلی۔ کیونکہ عوام میں غم و غصہ بہت تھا۔ سندھ حکومت نے لوگوں سے منہ کا نوالا چھینا ہے۔ شہروں کو گندگی کے ڈھیروں میں بدل دیا ہے۔ عوام نے اس کا بدلہ  ps 11 پر ہونے والے الیکشن میں لیا پی پی کے امیدوار جمیل سومرو صاحب جو بلاول صاحب کے سیکرٹری بھی ہیں بڑے مارجن سے ہرایا۔

دوردراز بیٹھے میرے تجزیہ نگار اور کالم نگار بھائی اس کو جی ڈی اے کی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔

دوستو! ایسی کوئی بات نہیں عباسی برادری کا اپنا ذاتی ووٹ بینک ہے، وہ مضبوط سیاسی پس منظر رکھتے ہیں، ان کے عوام سے رابطے مضبوط اور گہرا رشتہ ہے۔ ان کی کامیابی میں جی یو آئی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ اس کا تذکرہ نہ کرنا ناانصافی تصور ہوگی۔ اس کی دلیل مایوس اور کنفیوز سینئر پی پی رہنما نثار کھوڑو کا ویڈیو پیغام ہے، جس میں وہ جی یو آئی قائد سے شکوہ کرتے ہوئے جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔
عباسی خاندان کے بھٹو خاندان سے 1960 سے مراسم ہیں۔ بیگم اشرف عباسی بھٹو صاحب کی تحریک کی اہم رہنما تھی۔ پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر ممبر نیشنل اسمبلی منتخب ہوئی اور دوبار ڈپٹی اسپیکر رہی پہلی بار 1973_1977 میں بھٹو کے دور حکومت میں، دوسری 1988_1990 میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی گورمنٹ میں اس منصب پر فائز رہی۔ بیگم اشرف عباسی ps11 پر انتخابی معرکہ اپنے نام کرنے والے معظم عباسی کی دادی صاحبہ تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

صفدر عباسی اور ناہید عباسی کو سب جانتے ہیں یہ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دست راز، قریبی ساتھی اور پی پی کے صف اول کے لیڈر تھیں ، ناہید عباسی محترمہ بے نظیر بھٹو کی رازداں اور سیکرٹری تھی، محترمہ کو ان پر بڑا بھروسہ ہوتا تھا۔ یہ معظم عباسی صاحب کے چچا اور چچی ہیں۔ منور علی عباسی صاحب جو معظم عباسی صاحب کے والد ہیں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پانچ بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور دو بار صوبائی وزیر رہے۔یہ تھا عباسی خاندان کا  پس منظر۔۔ اب یہ پیپلزپارٹی سے الگ کیوں ہوئے؟بینظیر صاحبہ کے بعد زرداری نے ان کو نظر انداز کرنا شروع کیا بالآخر انہوں  نے تنگ  آکر،  اپنی سیاسی جدوجہد الگ کرنے کا اعلان کیا اور ثابت کرکے دکھایا ،بھٹو صاحب کے حقیقی نام لیوا ہم ہیں اور عوام ہمارے ساتھ ہے۔یہ پیپلزپارٹی کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے وہ اپنے گھرکی سیٹ نہیں بچا پائی بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبائی صدر نثار کھوڑو، میئر خیر محمد شیخ سمیت اکثر رہنما اپنی گھر کی پولنگ اسٹیشن بھی ہار گئے۔ یہ ہے ناقص کارکردگی کی بنا پر ایک عوامی پارٹی کا حشر پیپلزپارٹی ملک گیر پارٹی سے صوبے تک محدود ہوئی اب گھر کی سیٹ بھی بچا نہیں سکی۔ اگر اس طرح صاف شفاف انتخابات ہوتے ہیں تو زرداری اینڈ کمپنی سے وادی مہران کو ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے گی۔ اب یہ فیصلہ ساز قوتوں پر منحصر ہے وہ سندھ کے عوام پر رحم کرنا چاہتے ہیں یا مزید انکا برا حشر دیکھنا چاہتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply