• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہم کیوں ”پیٹرو کٹھ پُتلی“ بنے رہیں؟ پرویز ہودبھائی/ترجمہ اشرف لون

ہم کیوں ”پیٹرو کٹھ پُتلی“ بنے رہیں؟ پرویز ہودبھائی/ترجمہ اشرف لون

اب جبکہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے قطر کا حقہ پانی بند کیا ہے، پاکستان کو ایک بار پھر اس پر نظر ثانی کرلینی چاہیے کہ کیوں وہ 14  سُنی ممالک والے سعودی قیادت والی ’اسلامی فوجی اتحاد‘میں شامل ہے۔عمومی طور پر اسلامی نیٹو سے جانا جانے والا،اسلامی فوجی اتحاد (IMA) کے سربراہ سابق ہیرو جنرل راحیل شریف ہیں۔بظاہر داعش (اسلامک سٹیٹ) کے خلاف ایک انسداد دہشت گرد تنظیم، اصل میں اسلامی فوجی اتحاد ایران کے خلاف ”سعودی، امریکی اور اسرائیلی“اتحادی گروہ ہے۔

’اسلامی فوجی اتحاد‘ کی غرض و غائیت پر منڈلاتے شکوک و شبہات ریاض (سعودی عرب) میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی تقریر کے ساتھ ہی غائب ہوگئے۔سعودی عرب کو 110 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کے ساتھ ہی ٹرمپ نے ایران کو دنیا میں دہشت گردی کو تعاون دینے والا ملک قرار دیا۔ٹرمپ کے الفاظ:”لبنان سے عراق اور یمن تک، ایران دہشت گردوں اور دوسرے انتہا پسند گروہوں کو پیسہ، ہتھیار مہیا کرتا ہے جو پورے علاقے میں تباہی پھیلا رہا ہے۔کئی دہائیوں سے ایران فرقہ وارانہ تنازعات اور دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے“۔اسے اسرائیل کی خوش بختی کہیے کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی ’سی آئی اے‘ کے ڈائریکٹر مائک پائمپو بھی اس سے متفق نظر آتے ہیں۔ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعے تقرری کے بعد سے ہی، سی آئی اے کے ڈائریکڑ نے ایران کو”امریکہ کو تباہ“ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا اورٹویڑ پر کہا کہ وہ اوباما کا ایران کے ساتھ اوباما کی نیوکلیر ڈیل پر نظر ثانی کرنے جارہا ہے۔وہ تہران میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے۔اس کے الفاظ ہے:”کانگریس کو ایران کے رویہ میں تبدیلی لانے کے لیے اقدام کرنے چاہیے اور بالآخر ایران کی حکومت کی تبدیلی کے لیے بھی۔“
یہاں پر  ہم دیکھتے ہیں کہ کیوں ’ اسلامی فوجی اتحاد‘میں شمولیت پاکستان کے لیے غلط ہے اور کیوں پاکستان کو اس اتحاد سے فوراََ الگ ہو جانا چاہیے۔
پہلے تو یہ کہ ہمارے لیے اس میں کوئی مفاد نہیں۔جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ٹویٹ کے مطابق قطر کو الگ تھلک کرنے سے ”دہشت گردی سے چھٹکارا“ ملنے کا آغاز ہوگا،سعودی عرب کو خوش کرے گا، مگر ہم پاکستانیوں کا نظریہ اس سے مختلف ہے۔جیسا کہ سعودی عرب کے کٹھ پتلی تابعدار مال دِوس اور موریطانیہ نے قطر کے ساتھ اپنے رابطے ختم کیے ہیں لیکن یہ ہمارے لیے بے وقوفی ہوگی اگر ہم قطر کی ہوائی پروازوں کی پاکستان کی ہوائی حدود میں پابندی لگا دیں۔عرب کے خانہ بدوش قبیلوں اور اندرون عرب جھگڑے سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں۔یہ سعودی عرب کے لیے معنی رکھتا ہے   کہ قطر کی راجدھانی دوہا میں قائم سب سے بڑی مسجد، ”شیخ محمد ابن عبدالوہاب مسجد“ کے نام سے موسوم ہے۔نہ ہی ہمیں اس سے کچھ لینا دینا ہے کہ بنا نام کے قطری شہزادہ عبدالوہاب کو اپنا دادا قرار دینے میں غلط ہے یا صحیح۔
پاکستان نے یہ بہت اچھا کیا جب اپریل میں پاکستانی پارلیمنٹ نے کامل رضامندی سے سعودی عرب کے ایک نہایت غریب ملک یمن کے خلاف جنگ میں حصہ لینے سے انکار کیا۔اگلے 18 مہینوں میں سعودی اتحاد بشمول برطانیہ اور امریکہ نے کم سے کم دس ہزار مسلمانوں کو مار ڈالا۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ”اتحادیوں نے غیر قانونی طور پر گھروں، بازاروں، ہسپتالوں، سکولوں، تجارتی اداروں اور مسجدوں پر حملے کیے ہیں۔“ زیادہ تر casualities کی وجہ اتحادی افواج ہے۔
بدقسمتی سے مختصر مدت کے بعد ہی ہماری حکومت کے حوصلے پست ہوگئے۔بزرگ سعودی بادشاہ اور اس کے برہم شہزادوں کو خوش آمد  کرنے کے لیے ہمارے وزیر اعظم، آرمی چیف، وزیر دفاع، خارجہ سیکریٹری اور دیگر کئی سرکاری عہدیدارمتاسفانہ چہرہ لیے ہوئے فوراََ سعودی عرب پہنچ گئے۔اگر اُن کے اندر اخلاقی جرأ ت ہوتی تو وہ اس طرح نہ گھبرائے ہوتے۔کسی بھی بیرون خانہ جنگی میں فوجیوں کو بھیجنا قطعی غلط ہے اور اسے کوئی بھی چیز، مفت تیل یا روپیوں کی گٹھڑی صحیح ثابت نہیں کرسکتی۔
دوسرا پاکستان کو مسلم دنیا کے خوفناک شعیہ سُنی جنگ کا حصہ بن کر اپنے لیے مزید دشمن نہیں پیدا کرنے چاہیے۔ ”فارس -عرب“ جنگ کی اپنی ایک لمبی تاریخ ہے۔وہیں یہ علاقائی اثر و رسوخ کے لیے ایک جنگ ہے۔ایران ایک انقلابی قوت ہے جہاں مُلا کھلے عام تمام بادشاہتوں کے خاتمے پر زور دیتے ہیں۔وہیں دوسری طرف سعودی عرب جس کا انحصار امریکی ہتھیاروں اور درآمد فوجیوں پر ہے، اپنے اثر و رسوخ کو قائم اور بڑھانا چاہتا ہے۔
سعودی،ایران تنازعہ کوئی فرقہ وارانہ تنازعہ نہیں بلکہ یہ محض طاقت کی رسہ کشی کا تنازعہ ہے۔سرکاری طور پر قطر ایک حنبلی مسلک والا ملک ہے، مگر دونوں یعنی شعیہ مسلک والا ایران اور سُنی مسلک والے تُرکی، سعودی عرب کی پابندیوں کو توڑتے ہوئے قطر کے بھوکوں کے لیے پانی اور دوسری غذائی اشیاء لے جارہے ہیں۔تُرکی کی پارلیمنٹ نے کچھ ہی عرصہ پہلے قطر کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے تین ہزار(3000) فوجیوں کی قطر روانگی کو منظوری دی ہے۔
تیسرے یہ کہ پاکستان کو اس ملک کے ساتھ کھڑا نہیں ہونا چاہیے جو برابر عرب دنیا کی تجدد(modernisation)میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کوئی بھی مسلم ملک اتنا سماجی اور ثقافتی سطح پر رجعت پسند نہیں ہے جتنا سعودی عرب۔اگرچہ اب سعودی عرب اور داعش ایک دوسرے کے کٹر دشمن ہیں لیکن ان دونوں کے بیچ میں خیالات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔مثال کے طور پر دونوں میں سے کوئی بھی جمہوریت میں یقین نہیں رکھتا۔حکمراں خاندان کی حکومت کو جواز بخشنے کے لیے ’سعودی نظریہ‘ وہابیت پر زور دیتا ہے جو جمہوریت کو ناپسندیدگی سے دیکھتا ہے اور ان کے نزدیک صرف وہابیت ہی صحیح اسلام ہے۔سعودی عرب میں جمہوریت کا ذکر کرنا آپ کو جیل بھیج سکتا ہے۔
چوتھا یہ کہ سعودی کیمپ کا حصہ ہونے کی وجہ سے فلسطین کے لیے پاکستان کی روایتی حمایت سے دور لے جاتا ہے۔اصل میں سعودی قطر تنازعہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سعودی عرب،قطر کے حماس کے ساتھ تعلقات کا اختتام چاہتا ہے، جس سے اب تک قطر نے انکار کیا ہے۔حالانکہ حماس نے کہیں کہیں دہشت پسندانہ حکمت عملی اپنائی ہے جس کو صحیح نہیں مانا جاسکتا، لیکن یہ واحد قوت ہے جو اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرتی ہے۔
پانچواں یہ کہ”پیٹر و طاقت“ کے سامنے جھکنے نے پاکستان کی خود داری کو گھٹا دیا ہے۔جبکہ ہم سعودی شہریوں کو اپنے بھائی کہنے پر زور دیتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں، سعودی عرب میں پاکستانیوں کو مسکین (خیرات مانگنے والے) کہا جاتا ہے۔بہت سے پاکستانی وہاں خوفناک زیادتیوں سے گزرے ہیں۔ سرکاری شماریات کے مطابق 2015 سے2016ء کے درمیان 2لاکھ43ہزار(243000) پاکستانی شہریوں کو ملک بدر کیا گیا تھا اوراس سال کے چار مہینوں میں مزید 4 ہزار کو ملک بدر کیا گیا۔انسانی حقوق کی تنظیم (Human Rights Watch) اور دوسری انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق بڑے پیمانے پر ملک بدری کے دوران اُن کو غیر قانونی پٹائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور زیادہ تر واقعات میں بلا معاوضہ اجرت اور معاہدوں کی خلا ف ورزیوں کے مسئلے وغیرہ شامل ہیں۔
سعودی توہین صرف غریب پاکستانیوں تک ہی محدود نہیں۔ہمارے وزیر اعظم کو،اسلام سے خوفزدہ اور مسلم مخالف ڈونالڈ ٹرمپ کو(جو پوری دنیا میں مسلم مخالف ماحول پیدا کرنے کے لیے مشہور ہے) کو بڑی خفگی کے ساتھ سننا پڑا، جب اس نے سعودی عرب کے بلائے گئے مہمانوں کے سامنے اسلام پر لیکچر دیا۔دنیا کے دوسرے ۰۳ مسلم ممالک کے سربرہان کے ساتھ، میاں نواز شریف کو صرف سُننے کے لیے کہا گیاتھا نہ کہ بولنے کے لیے۔بعد میں علامتی معافی مانگنے نے پاکستانی تذلیل کو ئی کمی نہیں ہوئی۔
پاکستان کو ’سعودی-ایران‘ کلی غیر جانبداری کا اعلان کرتے ہو ئے فوراََ”اسلامی فوجی اتحاد“ سے باہر آنا چاہیے۔ تہران میں مختلف جگہوں پر حالیہ دنوں میں حملے، جن کی ذمہ داری دائش نے لی، لیکن جن کی ذمہ داری تہران نے سعودی عرب پر ڈال دی ہے، نے اس کو اورزیادہ ضروری بنادیا ہے۔ سعودی عرب کے لیے لڑنے کے لیے پاکستانی فوجیوں کی بھرتی رُک جانی چاہیے اور جنرل راحیل شریف کو فوراََ واپس بُلا لینا چاہیے۔اگر انہیں دہشت گردی کے خلاف لڑنے میں اتنی ہی دلچسپی ہے تو یہاں پر(اپنے ملک میں) اُن کو کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ترجمہ: اشرف لون(بشکریہ روزنامہ’ڈان‘ انگریزی، پاکستان)

Facebook Comments

اشرف لون
جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی،انڈیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply