برگِ صدا از تحفہِ درویش۔۔ ناصر خان ناصر

آج صبح جب میں اونچے اونچے خراٹے بھرتی ہوئی  خوابِ خرگوش میں مگن غفلت کے مزے خراماں خراماں لوٹ رہی تھی تو اچانک سیل فون کی گھنٹی بجی اور بجتی ہی چلی گئی۔

یا اللہ خیر!
فون اگر وقت بے وقت بجنے لگے تو دل خوامخواہ کے ہول کھانے لگتا ہے۔
شیطان کے کان بہرے۔۔۔
نجانے صبح سویرے کس کی سناؤنی آئی ہے؟
میں سمٹی سمٹائی بنڈل بنی ہوئی گرم گرم رضائی سے نکل کر بھاگنے لگی۔
پلنگ کے پائے سے ٹھوکر کھا کر بمشکل لڑھک کر گرنے اور اپنی گردن کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کے باوجود پاؤں میں موچ تو آ ہی گئی
اپنی آنکھیں فوراً مسل مسل کر جاگنے اور لپک کر تپائی پر پڑا فون اٹھانے میں بھلا کون سے لوہے لگتے ہیں مگر پاؤں کی موچ نے درد سے دہرا کر دیا۔
منہ سے مری مری آواز کی جگہ آزر فشاں سسکاری بمشکل نکلی۔
فون پر ذرا سا ہکلا کر ہائے ہیلو کیا۔
کوئی کم بخت گورا دھاڑ رہا تھا۔۔۔
“آئی آر ایس کے دفتر سے میں مسٹر ٹام کال کر رہا ہوں۔
تم نے پچھلے دو برس سے اپنا صحیح انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ ہمارے پاس تمھارا سارا ریکارڈ موجود ہے۔ درست ٹیکس، لیٹ فیس اور جرمانے کی کُل رقم ملا کر تین ہزار پانچ سو پنتالیس ڈالر بنتی ہے۔ یہ رقم ابھی ابھی بذریعہ کریڈٹ کارڈ فوراً ادا کرو وگرنہ پولیس دس منٹ کے اندر اندر تمھیں گرفتار کرنے کے لیے تمھارے دروازے پر دستک دے رہی ہو گی”
“ہا۔۔۔۔ ہائے!
ارے ٹام بھیا!
یہ اچھی رہی۔۔۔۔
ارے پولیس کو کہو، ذرا جلدی کرے۔۔۔۔ دس منٹ میں تو میرا دم بھی نکل جائے گا۔۔۔
میرے ظالم شوہر نے مجھے پچھلے تین ماہ سے رسیوں سے کس کر باندھ رکھا تھا۔ کم بخت پانی کا گھونٹ بھی ترسا ترسا کر دیتا تھا۔۔۔۔
منہ میں رومال ٹھونس کر اس پر یہ چوڑی پٹی باندھ رکھی تھی۔۔۔
آج نامراد باہر گیا ہے تو دو گھڑی قبل یہ موئی پٹی بمشکل سر اور گردن ہلا ہلا کر کھولی ہے۔
دانتوں سے بازوؤں کی رسی کا جوکھم کاٹا ہے۔
ارے صدقے جاؤں!
تمھاری میٹھی آواز مکے اور مدینے۔۔۔۔
پولیس کو ترنت بھیجو۔۔۔۔ لیٹے لیٹے سارا جسم اکڑ گیا ہے۔۔۔۔”

ٹام بھائی کی بولتی بند ہو چکی تھی۔۔۔۔
فون بند کر کے بے وقت نیند خراب کرنے پر اسے موٹی سی گالی دی۔ کم بخت۔۔۔ نامہ نیمے۔۔۔۔
عوام کو اتنا اُلو سمجھتے ہیں۔۔۔
حرام خور۔۔۔
جیسے ہمیں خبر ہی نہیں کہ آئی آر ایس کا دفتر صبح سات بجے سے پہلے کہاں کھلتا ہے؟
ابھی ہفتہ بھر بھی نہ گزرا ہو گا کہ فون تقریباً اسی وقت پھر کھڑکا اور عین مین پہلی سی ہی آواز بنا کر وہی ملتا جلتا پیغام پڑھا گیا۔
البتہ اس بار دیسی لہجہ صاف چغلی کھا رہا تھا کہ انِ ان پڑھ دیسی فراڈیوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ اس وقت امریکہ میں کیا بجا ہے؟
اس نے اپنی رٹی رٹائی گردان ختم کی تو میں نے جواب دیا۔۔
“ہاں۔۔۔ ہاں!
لے جاؤ ہمیں جیل!
نگوڑی جیل بھی اس جہنم سے تو بہتر ہی ہو گی۔۔۔
مفت کھانا پینا، تین وقت کی چائے بسکٹ، صاف ستھرے دھلے دھلائے کپڑے۔۔۔
یہاں تو سارا دن بیگار بھوگنی پڑتی ہے تب بھی پگار تک نہیں ملتی۔۔۔۔
جُوتم پیزار البتہ ملتی ہے۔۔۔
ہما وقت لٹھم لٹھا۔۔۔
اوپر سے دس دس بچے اپنے، پانچ دیور کے۔۔۔ سارے محلے میں دھوم مچی ہے۔
نگوڑی ساس کی دانتا کل کل، وقت بے وقت کی تکرار، جیٹھانی کی تُو تتکار، ہمسائی کی لڑائی، پڑوسن کا دنگا فساد۔۔
بات بات میں تُو تُو میں میں۔ روز روز کا نت نیا ٹنٹا، لفڑا۔۔۔جھگڑا۔۔۔
محلے کا مناقشہ، صور پھونکنے جیسا شور غوغا، سونے پر سہاگہ۔۔۔خود اپنے شوہر کی نکتہ چینی، کج بحثی۔۔۔ حرف گوئی

آج دال میں نمک کم ہے، کل مرچیں زیادہ تھیں۔۔۔۔
اوپر سے ساس کی عیب جوئی۔۔۔ ہمہ وقت کان بھرتی ہے۔
ہے کوئی! جو میرا دکھڑا بھی سنے؟
پھر بچوں کی گھڑی گھڑی کی جھڑپ جھپٹ، مار کٹائی،ہاتھا پائی۔۔۔ پشٹم پشٹا۔۔۔ لفڑا۔۔۔
غضب خدا کا۔۔۔۔
مرنے جوگے اتنا قہر ۔۔۔ اودھم مچاتے ہیں کہ کچھ پوچھو مت۔۔۔۔
ابھی دو گھڑی پہلے کی سنو!
چنوں نے سوئے ہوئے منوں کی اتنی زور سے چٹکی بھری کہ غریب بلبلا اٹھا۔۔۔
اس پر بھی جی کو چین نہ پڑا تو کم بخت مر جانے نے ببلو کی قینچی اٹھا کر غریب سوتے ہوئے منوں کے سر کے بال بھی ایک طرف سے کتر ڈالے۔۔۔ ببلو کی قینچی بھی ٹوٹ گئی

قینچی ٹوٹنے پر ببلو ایسا بھڑک اٹھا کہ اللہ معافی۔
اسے بنٹی پر شک ہوا کہ اسی نابکار نے پہلے قینچی چھپا لی تھی۔ گڑیا کا جہیز جو بن رہا تھا۔
لہذا اس نے بنٹی کی ساری گڑیاں توڑ توڑ کر کچرے میں پھینک دیں۔
بنٹی نے چھمن پر اپنا غصہ کیا اتارا، چھمن کی دادی اور سارا ٹبر برامدے میں کھڑا ہو کر ہماری سات پیڑھیوں کے درجات بلند کر رہا ہے”
“ہائیں۔۔۔
آپ ہینگ اپ کر گئے۔۔۔۔
ارے کوئی بھی تو دکھڑا نہیں سنتا. ظالمو! ۔۔۔۔”

ابھی خیر سے دس دن بھی چین کے نہیں گزرے تھے کہ وہی کال دوبارہ پھر آ گئی۔

اب کی بار میں نے گھگھیا کر کہا
“اے ٹام بھائی!
میں دکھیا تو اپاہج بیمار بیوہ ہوں۔ پچھلے تین برس سے تو بستر پر پڑی ہوں۔ اٹھ کر پانی پینا بھی محال ہے۔
کم بخت اللہ ماری، بیماری سے تو اپنا سارا دھندہ پیشہ ہی چوپٹ ہو گیا ہے۔
دکھیا بیمار بڈھی کے پاس کوئی کیا کرنے آوے گا؟”
“تم خود زری انصاف سے کہنا!
تم آؤ گے؟”
وہ ہنس پڑا۔
میں پھر گویا ہوئی۔
“بدنام کندہء نکو نامے چند۔۔۔
ہو نہ ہو، یہ یقیناًمیرے کسی سابقہ خاوند کا نادہندہ ٹیکس ہے جو اُس نے ادا نہیں کیا۔
سالا۔۔۔۔ کم بخت!
ابھی تک ان کی بد بو گھر سے نہیں گئی”
“اُس کا کیا نام ہے؟ ”
آدمی نے پوچھا۔
“کِس کا؟ ”
“تمھارے ایکس ہسبینڈ کا۔۔۔ اور کِس کا؟ ”
“اوہ۔۔۔
کُون سے والے ایکس ہسبینڈ کا؟ ”
“تمھارے کتنے سابقہ خاوند ہیں؟ ”
اس نے چکرا کر پوچھا۔
میں نے کہا۔
“ٹھہرو!
ذرا سوچنے دو!
صحیح تعداد یاد نہیں آ رہی۔۔۔ تھوڑا سا وقت دو، ڈائری دیکھ کر بتاتی ہوں”
“کیا تم ابھی شادی شدہ ہو؟”
اس سے پھر پوچھا۔
“کیوں؟
کیا تم بھی اپنا نام نئے امیدواروں میں لکھوانا چاہتے ہو؟ ”
میں نے اٹھلا کر کہا۔
وہ کھلکھلا کر ہنسا اور بولا۔
” تمھارے سارے سابق شوہر اب کہاں ہیں؟”
“کیا تم کوئی راز اِدھر اُدھر پھونکے بنا ہضم کر سکتے ہو؟”
“ہاں ۔۔۔ بالکل۔۔۔”
“وہ سارے کے سارے میرے باغیچے میں پھول بن کر کھلے ہوئے ہیں۔۔۔۔ سالے under ground ہیں”
“Under ground? ”
“ہاں تو۔۔۔۔
اور میں کیا کرتی؟
بدبختوں کی لاشیں چند ہی روز میں بدبو چھوڑنے لگتی ہیں”
” وہ کُل کتنے تھے؟”
وہ سہم کر بولا۔۔۔
“مجھے کیا پتہ!
آٹھ نو کے بعد تو میں نے بھی گننا چھوڑ دیا تھا۔۔۔
تبھی تو تم سے پوچھ رہی ہوں کہ کون سے حرام زادے نے اپنا صحیح ٹیکس آئی ار ایس کو ادا نہیں کیا؟ ”
جواب میں گھٹی گھٹی سی چیخ سنی اور فون بند ہو گیا۔

امریکہ میں prank کالیں تقریباً روزانہ کا معمول ہیں۔ زیادہ تر ایسی کالیں بھارت بنگلہ دیش پاکستان اور افریقی ممالک سے آتی ہیں جہاں بے روزگاری سے اکتائے نوجوانوں کو یہ نیا مشغلہ سوجھ گیا ہے۔ کچھ تلنگے چار پیسے کما بھی لیتے ہیں۔ زیادہ تر پکڑے جاتے ہیں اور رشوت دے کر ترنت چھوٹ بھی جاتے ہیں۔

ایک بار ایک بندہِ خدا کا فون آیا اور وہ میرے سر ہوا کہ میرا خراب کمپیوٹر فون پر درست کر کے ہی چھوڑے گا۔ اس نیک کارِ خیر کے لیے اسے صرف میرا “یوزر کوڈ” اور “پاس ورڈ” ہی درکار تھا۔ اس کے لیے میرا پاکیزہ جواب صرف یہی تھا کہ
“Please shove your phone and free services to that holly place where sun does not shine”.

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک اور بی بی میرے خاوند سے اس کا بینک اکاونٹ نمبر بٹورنے کے درپے ہوئی۔ وہ خود کو لیبیا کے سابق صدر ہز ہائی نیس معمر قذافی صاحب کی سوگوار بٹیا بتاتی تھی اور حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر اپنی ساری دولت ہمیں سونپنے پر اُتارو تھی۔
ہمارے میاں صاحب نے پہلے تو ان محترمہ کی شانِ اقدس میں قلابے ملائے پھر ان سے گزارش کی کہ عزت ماب محترمہ!
دو گھڑی انتظار کی زحمت کیجیے اور اجازت مرحمت فرمائیے۔ فی الحال بندہِ ناچیز اپنی بلی سے سیکس کرنے میں جٹا ہوا ہے۔۔۔۔
دم مارنے کی مجال نہیں۔ میاوں میاوں کی آوازیں نکالنے میں ہمیں کمال تو حاصل ہے ہی، شوہرِ نامدار نے بھی تھکی تھکی تیز تیز سانسیں۔۔۔ سسکارئیاں منہ بھر بھر کر نکالیں۔ پلنگ کی چوں چرا بطور بیک گراونڈ میوزک بھی شامل کی گئی،وہ نیک بی بی بنا ایک حرفِ خوش زباں و بدگماں کہے، ترنت ایسی چمپت ہو گئیں کہ آج ملتی ہیں۔
وہ دن اور آج کا دن۔۔۔ ہمارے فون اور کان Prank کال کے لیے بھی ترس گئے ہیں۔

Facebook Comments