• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان صوبے کی بازگشت ،قانونی پیچیدگیاں اور تاریخی حقائق۔۔شیر علی انجم

گلگت بلتستان صوبے کی بازگشت ،قانونی پیچیدگیاں اور تاریخی حقائق۔۔شیر علی انجم

یہ گلگت بلتستان کے عوام کی بدقسمتی رہی ہے کہ  ان کی اکثریت آج بھی سیاسی اور تاریخی طور اپنے خطے کے حوالے سے لاعلمی کا شکار ہیں ۔ ماضی میں پڑھایا گیا کہ ہمارا تو الحاق ہوگیا ہے اور بس حقوق ملنا باقی ہی ، اور اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کشمیری عوام ہے جو گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی مخالفت کرتے ہیں۔یعنی وہ چند لوگ جن کے اختیار میں اپنے علاقے کے اختیارات عملی طور پر نہیں ہے وہ حقوق گلگت بلتستان کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔
پھر ہوا ہوں کہ چند لوگوں نے تاریخ کے اندھیروں میں ہاتھ ڈال کر کچھ اوراق نکالا تو معلوم ہوا معاملہ تو کچھ اور ہے ہمارا مسلہ بین الاقوامی ہے۔ جس پر پاکستان دستخط کار ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹررڈ 13 اگست 1948 جس میں اقوام عالم ضامن اور پاکستان اور ہندوستان نے فریق کی حیثیت سے دستخط کی ہوئی ہے۔ اس قرارداد میں کیا لکھا تھا؟ تعجب اور ہماری خواہشات کے برعکس کی کہانی تھی۔ ہمارے لئے دکھ کی بات یہ تھی کہ پاکستان نے اس قرداد کو تسلیم کرکے دستخط بھی کردی تھی اور ہم سے مقامی سطح پر کہا جارہا تھا بس حقوق چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور بہت قریب ہماری آنگن میں حقوق کا شمع روشن ہو جائے گا۔
اُس قرارداد کے مطابق پاکستان اور ہندوستان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ 84 ہزار مربع میل ریاست جموں و کشمیر اقصائے تبتہاہ ایک ملک ہے جو تقسیم ہند کے بعد رسی کشی کا شکار ہوگیا اور متنازعہ بن گیا۔ اس ریاست پر چونکہ پاکستان کے قبائلی لشکر حملہ پہل کی تھی اس بناء پر ریاست کے سربراہ مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ریاست کو بچانے کیلئے ہندوستان سے مدد مانگی اور ہندوستان نے مدد کیلئے الحاق کی شرط رکھی۔یوں مہاراجہ نے صرف تین سبجیکٹ (دفاع ،کرنسی اور مواصلات)کی بنیاد پر الحاقی دستاویز پر دستخط کرکے جموں کشمیر لداخ میں ہندوستانی فوج کی آمد کو قانونی حیثیت مل گئی۔
تاریخ کہتا ہے کہ جب مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا تو دوسری طرف گلگت لداخ کے اندر بغاوت کی صداوں نے بلند ہونا شروع ہوگیا اور کرنل مرزا حسن خان کی قیادت میں مہاراجہ فوج کے افسران نے فوج سے بغاوت کا اعلان کرکے گلگت میں تعینات گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے الگ ریاست کا اعلان کرکے باقاعدہ کابینہ تشکیل دی اور خود مرزا حسن خان آرمی چیف اور شاہ رئیس خان ریاست ریاست کے صدر منتخب ہوئے۔ یاد ریے یہ سارا کام باقاعدہ طور پر عوام کو اعتماد میں لیکر انجام پایا تھا۔ لیکن برطانوی سامراج ایجنٹ گلگت میں تاج برطانیہ کا آخری افسر میجر بروان کو حسن خان نے اپنے ماتحت کردیا تھا بس چال شروع ہوگئی اور انقلاب گلگت نے صرف 16 دنوں میں دم توڑ دیا اور میجر بروان فرقہ واریت کا پتہ خوب کھیلا جس میں انہیں کامیابی ملی۔یوں پاکستان سے آئے ہوئے ایک رابطہ افسر کو پولٹیکل ایجنٹ مقرر کردیا اور کہا گیا کہ آپکا الحاق ہوگیا ہے۔ دوسری طرف اُس نے آتے ہی ایف سی آر نافذ کرکے تمام تر اختیارات اپنے ہاتھ میں لئے۔ لیکن لداخ اور کشمیر کی طرف پیش قدمی جاری رہی۔
جب ہندوستان کو کشمیر میں مداخلت کی قانونی حیثیت مل گئی تو اُس وقت کے ہندوستانی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کشمیر کے مسلے کو اقوام متحدہ لے کر گئے۔تاریخ کہتا ہے جب وہاں بیٹھک ہوئی تو ایک قرارداد پاس ہوئی جس کو13 اگست 1948ء کی قرارداد کہا گیا۔ اس قرارداد میں فریقین کے مابین طے پایا کہ پاکستان اپنی فوج اور قبائلیوں کو نکال لے گا اور پاکستان کے زیر قبضہ علاقہ جات کا انتظام مقامی انتظامیہ سنبھالیں گی یعنی گلگت، مظفر آباد لوکل اتھارٹی کے قیام کو یقینی بنا کر صرف چھے ہفتوں کے اندر رائے شماری کو یقینی بنائے گا ۔ ساتھ میں یہ بھی واضح کیا کہ اقوام متحدہ کی کمیشن مقامی حکمرانوں کی نگرانی کرے گا۔
اس دوران بھی یقینا گلگت لداخ کے عوام تمام قسم کے فیصلوں سے مکمل طور پر لاعلم رہے ہونگے اور سردار عالم خان نے اپنے زر خرید لوگوں کے زریعے عوام کو اصل حقائق سے دور رکھا ہوگا۔
یوں ہمارا وہ الحاق کہاں چلا گی اکچھ پتہ نہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ کے چارٹررڈ کے مطابق لوکل اتھارٹی نصیب ہوئی بلکہ تاریخ یہ کہتا ہے کہ 1954ء تک گلگت بلتستان کے لوگ اپنا ڈومیسائل مظفر آباد آزادکشمیر سے حاصل کرتے تھے۔ اور 1937ء اور 1941ء کے ریاستی انتخابات میں گلگت بلتستان سے پانچ نمائندے منتخب ہو کر کشمیر اسمبلی میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کرتے تھے۔
آگے چل کر ریاست جموں و کشمیر کی ترجمان حکومت مظفر آباد اور ریاست پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جو معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے نام سے مشہور ہیں ۔جس میں گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں تھی۔لیکن اس معاہدے کی ایک شق کے تحت گلگت لداخ (آج کا بلتستان) کے انتظامات وفاق کے سپرد کردیا اور کشمیری قیادت گلگت بلتستان کو کرایہ پر دیکر ریاست نظام کو انجوائے کرتے رہے۔اُس دور میں گلگت بلتستان میں جاری سیاسی جہدوجہد اور ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان طویل ہے۔
لیکن مختصر ایک بار پھر گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی باتیں گردش کر رہی ہے۔ جو کہ اچھا اقدام ہے لیکن اس راہ میں حائل رکاوٹوں کو کس طرح حل کیا جائے گا یہ اہم سوال ہے۔
پہلی بات۔اگر گلگت بلتستان کو فرض کریں پاکستان صوبہ بناتے ہیں تو عملی طور پر اگر ہم کسی صوبے کے خدوخال کو دیکھیں تو ناممکن ہے کیونکہ گلگت بلتستان کی آبادی کراچی کے ایک ضلع کے برابر بھی نہیں۔ لہذا کہیں شامل ہونا یا کسی علاقے کو شامل کرنا پڑے گا جو کہ یقینا گلگت بلتستان کے عوام کیلئے ناقابل قبول ہوگا۔
دوسری بات۔ اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے قراردادیں اور پاکستان کی خارجہ پالیسی ہے جس کے مطابق یہ خطہ ریاست جموں و کشمیر کی اکائی ہے اور اسی بنیاد معاہدہ کراچی ہوا تھا۔
تیسری بات۔ اگر ایسا ہوا تو معاہدہ کراچی کو کعلدم قرار دیکر پاکستان کے آئین میں ترمیم کی گنجائش نکالنی پڑے گی اور مظفر آباد حکومت کو ریاست جموں و کشمیر کی ترجمان حکومت ہے، کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔ اگر ان کو اعتماد میں لیتا ہے تو کیا وہ چاہے گا کہ اپنے ملک کے ایک حصے کو بغیر کسی رائے شماری کے کاٹ دی جائے۔
چوتھی بات۔ ہندوستان بھی مہاراجہ کے الحاق کی بنیاد پر گلگت بلتستان اپنا حصہ قرار دیتے ہیں۔ لہذا کیا یہ ممکن ہے کہ ہندوستان خاموش رہے گا؟ بلکہ ہندوستانی میڈیا کے چیخنا چلانا شروع کردیا ہے۔
پانچویں بات۔ ہندوستان کے زیر انتظام جموں کشمیر لداخ کے وہ لوگ جو پچھلے چہتر سالوں سے آذادی کے نعرے لگا کر آج تک لاکھوں جانیں قربان کر چکی ہے. اُن کی قربانی کا صلہ کس طرح دیا جائے گا ؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستان ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر پر دعوے سے دستبردار ہوجائے؟۔
ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اگر کسی بیک ڈور ڈپلومیسی کے زریعے ہوگیا یہ فیصلہ ہوگیا ہے کہ سلامتی کونسل کے قراردادوں کو پس پشت ڈال کر ،کشمیر کے حوالے سے خارجہ پالیسی کو رول بیک کرکے کشمیر کے مسلے کومکمل طور ختم کرکے دونوں ممالک نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ الگ مسلہ ہے۔اگر ایسا نہیں کہ گلگت بلتستان سے چند لوگوں مبصر کی حیثیت سے قومی اسمبلی تک رسائی دینے کا نام صوبہ یا حقوق دینا ہے تو یہ عمل گلگت بلتستان کے عوام کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا۔ کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام کا ہمیشہ سے یہی مطالبہ رہا ہے کہ یا مکمل طور چاروں صوبوں کے برابر اختیارات دینے کیلئے آئین میں ترمیم کرکے باقاعدہ پانچواں صوبے کا باضابطہ طور پر اعلان کریں بصورتِ دیگر سلامتی کونسل کے قرداد 13 آگست 1948 کی بنیاد داخلی مختاری کو مسلہ کشمیر کی حل تک کیلئے یقینی بنائیں اور سٹیٹ سبجیکٹ رول جس طرح آزاد کشمیر میں بحال ہے ۔بلکل اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی بحال کریں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ارباب اقتدار اور اختیار فقط ماضی کی طرح صرف میٹینگ کرتے ہیں یا اس بار تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہیں۔
تحریر:شیر علی انجم

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply