کرونا وائرس اور این جی اوز کا کردار۔۔راجہ عرفان صادق

کسی بھی معاشرے  میں این جی اوز کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے۔ دنیا میں ایسی بڑی بڑی تنظیمیں موجود ہیں کہ اگر ان کے کردار کو مائنس کردیا جائے تو کئی ممالک میں متعدد سہولیات زیرو ہوکر رہ جاتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی طرف آیا جائے تو این جی اوز کی اہمیت میں مزید ہوجاتا ہے۔ بلاشبہ ترقی پذیر ممالک میں حکومتوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے جس سے وہ اپنی عوام کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ناگہانی آفات میں ان کی بھرپور مدد کرسکیں۔ ایسے میں یہ این جی اوز ہی ہوتی ہیں جو امن و جنگ سمیت تمام قدرتی آفات اور مصیبت میں آگے بڑھ کر جہاں عوام کو ریلیف پہنچاتی ہیں وہیں پر اپنی اپنی حکومتوں کا ہاتھ بھی بٹھاتی ہیں۔

اگر پاکستان کی 73سالہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے ہر دور میں این جی اوز کا کردار مثالی رہا۔ خواہ پاکستان میں جنگی صورتحال ہو یا پھر 1992میں آنے والا سیلاب، 2005کا زلزلہ ہو یا پھر 2010 کا سیلاب، این جی اوز نے ہمیشہ آگے بڑھ کر عوامی خدمت کا فریضہ سرانجام دیا ۔ نہ صرف پاکستان بلکہ آزادکشمیر کے اندر بھی این جی اوز کا کردار ہمیشہ مثالی رہا ہے۔ آزادکشمیر جس کے ضلع میرپور کو تارکین وطن کا ضلع کہا جاتا ہے کے بیرون ملک بسنے والوں نہ مشکل گھڑی میں کبھی بھی ہم وطنوں کو مایوس نہیں کیا۔ آزادکشمیر میں اس وقت چلنے والی بڑی بڑی این جی اوز کی فنڈنگ کابڑا ذریعہ تارکین وطن کشمیری ہیں جو اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لیےہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

2005 کے ہولناک زلزلہ کے بعد جس طرح تارکین وطن کشمیریوں نے مختلف تنظیموں کے ذریعے آگے بڑھ کر اپنے بھائیوں کی مدد کی اس کی موجودہ تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ گزشتہ برس میرپور میں آنے والے زلزلہ میں بھی این جی اوز نے آگے بڑھ کر متاثرین کی مدد کی اور یہ سلسلہ متاثرین کے مکانوں کی تعمیر کی شکل میں تاحال جاری ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان اور آزادکشمیر میں آنے والی کرونا وائرس کی وبا نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ، چین، برطانیہ، اٹلی، سپین سمیت دنیا کی طاقتور معاشی قوتیں اس وباء کے سامنے بے بس نظر آئیں۔ پاکستان اور آزادکشمیر میں بھی اس وبا کے گہرے اثرات نظر آئے ۔ اگرچہ یہاں پر کرونا کے مریضوں اور ہلاکتوں کا تناسب متذکرہ بالا ممالک سے بہت کم ہے تاہم عوام کی کمزور معاشی صورتحال نے سب کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں بھی آزادکشمیر کے اندر این جی اوز بڑھ چڑھ کر اپنا کردار کررہی ہیں۔ جہاں ایک طرف متعدد ادارے کرونا مریضوں کے علاج کے لیے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کا ہاتھ بٹھا رہے ہیں وہیں پر بے شمار ادارے اس وباء کی وجہ سے بے روزگار ہوجانے والے خاندانوں کا سہارا بن کر اپنے حصے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ڈرائی فوڈ پیکجز کی تقسیم کا سلسلہ لاک ڈاؤن کے پہلے دن سے ہی شروع ہوگیا تھا جو تاحال جاری ہے۔

این جی اوز کی طرف سے سب سے زیادہ کام ضلع میرپور کے اندر نظر آرہا ہے۔ ضلع بھر میں اس وقت لگ بھگ 50 سے زائد مختلف این جی اوز بے روزگار خاندانوں کو بنیادی ضروریات زندگی پہنچانے میں پیش پیش نظر آرہی ہیں۔ ان این جی اوز کی طرف سے اس بات کا بار بار اعادہ بھی کیا جارہا ہے کہ وہ اس سلسلہ کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک لاک ڈاون کے بعد حالات نارمل نہیں ہوجاتے۔ اگرچہ اس وقت برطانیہ کے اندر بسنے والے تارکین وطن خود مصائب کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس مشکل گھڑی میں اپنے بہن بھائیوں کو تنہا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور روزانہ کی بنیاد پر بنکوں کے ذریعے اپنے پیاروں کی امداد کے لیے رقوم کی ترسیل کا سلسلہ جاری ہے۔ ضلع میرپور کے بعد ضلع کوٹلی اور ضلع بھمبر کے اندر بھی این جی اوز خاصی متحرک نظر آرہی ہیں اور عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کررہی جبکہ آزادکشمیر کے دیگر اضلاع میں بھی این جی اوز کی سرگرمیاں جاری ہیں تاہم این جی اوز کی وہاں پر امدادی سرگرمیاں اس حد تک نظر نہیں آرہی جس حد تک ان کو ہونا چاہیے ۔ ان اضلاع میں کام کرنے والی این جی اوز کوبھی چاہیے کہ وہ اپنے کاموں میں مزید تیزی لاتے ہوئے لاک ڈاون کی وجہ سے اپنے ذریعہ معاش سے ہاتھ دھونے والے خاندانوں کا سہارا بنیں۔

یہاں پر میں اس بات کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں کہ اگرچہ مختلف جگہوں پر این جی اوز کی کاروائیاں تیزی سے جاری ہیں تاہم ایک چیز جس کی کمی نظر آرہا ہے وہ مختلف این جیز کا آپس میں رابطے کا فقدان ہے جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں ضرورت سے زیادہ امداد پہنچ رہی ہے اور اس وجہ سے کئی علاقوں محروم رہ جاتے ہیں۔ اگر تمام این جی اوز اس حوالے سے کوئی مکینزم بنا کر آپس میں ربط قائم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مختلف علاقوں کو آپس میں تقسیم کرکے امدادی سرگرمیاں جاری رکھیں تو مجھے قوی امید ہے کہ وہ بہت جلد ایک کے بعد دوسرے علاقہ کی عوام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔ اس سے ریلیف کا کام زیادہ عرصہ تک جاری رکھنے میں بھی مدد ملے گی اور کوئی حقدار امداد سے محروم بھی نہ رہ پائے گا۔ حکومت آزادکشمیر کو بھی چاہیے کہ وہ مختلف این جی اوز کی آپس میں کوآرڈینیشن قائم کرنے کے لیے ضلعی سطح پر اقدام اٹھائے اور مختلف این جی اوز کو اپنا اپنا ایریا اسائن کردیا جائے تک ان علاقوں میں مزید بہتر طریقہ سے کام کو ممکن بنایا جاسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تمام مسائل کے باوجود این جی اوز جس انداز میں اپنا کردار کررہی ہیں اس پر وہ خراج تحسین کی مستحق ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ان این جی اوزکے ساتھ تعاون کرنے والوں اور ان میں کام کرنے والے رضاکاروں پر بھی اپنا خصوصی فضل و کرم فرمائیں اور اس مشکل حالات میں ان کی لیے بھی آسانیاں پیدا ہوں۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply