کوکلا چھپاکی /ناصر خان ناصر

نئے زمانے کے ہمارے بچوں نے نہ مکھانے کھانے، نہ پھوکنے پھکانے دیکھے، گھگھو گھوڑے، کاغذ اور مٹی کے پنی لگے رنگین کھلونے، تل شکری، گجک، ریوڑیاں، بتاشے، مکھانے، دال سیو، شے، بھنی دالیں،کھیلیں، کھیلوں، دہی بھلے، گول گپے، تلونگڑیاں، بھنے چاول، چنے پھلیاں، الائچی دانے، آگ سے جھلسے چورن، لچھے، گولے، برف کے انڈے، املی، بنٹے والی بوتلیں، کھٹی میٹھی گولیاں، ٹافیاں ۔۔۔ کچھ بھی نہیں دیکھا۔ نہ شٹاپو کھیلے نہ لکن میٹی، ہرا سمندر گوبھی چندر، بول میری مچھلی کتنا پانی؟
نہ کوکلا چھپاتی جمعرات آئ اے، جیڑا اگے پچھے ویکھے اوہودی شامت آئ اے۔ ست ربڑی گیند سے پٹھو گرم، گولیاں، بنٹے، تاش، کیرم، لڈو، شطرنج، گنجفہ، کیڑی کاڑا، مٹی پر شاخ سے لکیریں لگا کر بارہ خانے والے کھیل جسے گھر گھر کہتے تھے۔ گڑیاں، پٹولے، ہنڈ کلیا پکانا، رسی پھلانگنا، رسیاں ٹاپنا۔۔۔۔
ہر گلی کی نکڑ پر کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، کبڈی۔ہمارے بچپن بے حد مزے دار ہوا کرتے تھے۔
ہمارے بچپن میں گلی گلی میں باندر کلا، شٹاپو، گیٹے، بنٹے، پٹھو گرم، کوکلا چھپاکی، آنکھ مچولی پتھر جن کو وٹے کہا جاتا تھا، کھیلے جاتے تھے۔ لڑکیاں بالیاں گڑیوں سے کھیلتیں اور ننھی منی ہنڈ کلیاں پکاتیں۔ گڑیوں کی آپس میں شادیاں کی جاتی اور گڑیوں کی ماہی مراتب سمیت باراتیں نکالی جاتیں جہاں باقاعدہ جہیز بری وغیرہ بھی لیے دیے جاتے اور شادی کی دیگر رسومات بھی پوری کی جاتیں۔
لڑکے گلیوں میں کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال کھیلتے۔ ست ربڑی گیند سے دیواروں پر ٹھپے مار کر اور انھیں کیچ کر کے کھیل بھی کھیلے جاتے۔ سایہ دار درختوں تلے مٹی پر یا بچھی چارپائیوں بیٹھ کر تاش کی بازیاں لگائ جاتیں۔ گنجفہ، شطرنچ، کیرم بورڈ اور لڈو کھیلے جاتے۔ تاش کھیلنے پر بڑی بوڑھیاں ناک چڑاتیں اور لمڈوں کو بیچ گھمسان میدان جنگ گھسیٹ کر لے جاتیں۔ اسے منحوس لت سمجھا جاتا تھا۔
گلی گلی میں آوازیں لگا کر چنا چور چورن بیچنے والے، برف کے گولے والے، رنگ برنگے میٹھے لچھے والے، گول گپے، دہی بھلے اور فروٹ چاٹ والے آتے اور اپنی منفرد آوازوں کی بدولت پہچان لیے جاتے۔
چھان بورا، ردی، پرانے کپڑے، بوری بوتل اور فالتو لوہے تانبے دھاتوں کو خریدنے والے پٹھان ان اشیاء کی جگہ خشک میوے اخروٹ خوبانیاں وغیرہ دیا کرتے تھے۔ برتن قلعی کرنے والے “بھانڈے قلعی کرلا لو، پرانڑے نویں بنوا لو” کی آوازیں بلند کرتے۔
صبح سویرے گرم گرم چنے اور دال بیچنے والے آتے جو یہ مزےدار بے حد گھلے ہوئے چنے فالسوں یا کیلے کے پتوں پر ڈال کر پیش کرتے تھے۔
پھل سبزی بیچنے والے کنجڑے اپنی مخصوص آوازوں میں صدائیں لگاتے۔
“کالے بابو لچے” کا مطلب تھا “کھا لے بابو الوچے”۔
“بابو میں لایا مزے دار چنا چور گرم” گا کر الاپا جاتا۔ کھیرے ککڑیوں والے انھیں “لیلی کی انگلیاں، مجنوں کی پسلیاں” قرار دیتے۔
یہ بھی سچ تھا کہ”کنجڑن اپنے بیر کبھی کھٹے نہیں بتاتی تھی”
بنے ہوئے آزار بند، کنگھی شیشے، خواتین کے لیے چھوٹے چھوٹے شیشے لگے پراندے، سرمہ سرخی اور پاوڈر وغیرہ کے ٹھیلے گلیوں میں صدائیں لگا کر سودا بیچتے تھے۔
ریشمی کپڑا کی آوازیں لگاتی پختون خواتین بھاری کپڑوں کے گٹھڑ اپنی پیٹھ پر لادے بھاری بھاری کالی پشوازیں پہنے گھروں میں گھس کر زبردستی کپڑے بیچتی تھیں۔
یہ ہمارے بچپن لڑکپن کے دن تھے جو اب خواب و خیال ہو گئے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply