• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ماہرِ ارضیات دوست کے نام خط،اور اُس کا جواب/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

ماہرِ ارضیات دوست کے نام خط،اور اُس کا جواب/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

محترم طارق محمود،

ماہرِ ارضیات،اسلام آباد

اَلسَلامُ عَلَيْكُم

پیارے طارق جی کیسے ہیں آپ۔ ۔؟
امید ہے سفر کی تھکان اتر چکی ہو گی اور آپ بھی اب ہماری طرح روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو چکے ہوں گے۔آپ کے کھٹے میٹھے کمنٹ گروپ میں بہت مزہ دیتے ہیں۔
امسال عالمی یوم کوہسار کے موقع پر ہم نے مسافرانِ شوق کے دوستوں کے ہمراہ نندنہ کا سفر کیا۔ تب آپ بھی وہیں قریب ٹلہ جوگیاں پہ موجود تھے۔
یقین مانیں  آپ کو بہت یاد کیا،اور شہزاد جی سے آپ کا ذکر بھی کیا۔

کوہِ نمک کا تمام ورثہ اپنی مثال آپ ہے اور نندنہ مندر کی تعمیر میں بھی کوہ نمک کے دیگر مندروں کا عکس نظر آتا ہے۔ہم نے ہندو شاہی دور میں تعمیر کیلئے جانے والے نندنہ کے قدیم مندر کو جب غور سے دیکھا تو پتھروں میں یہ سوراخ نظر آئے ۔۔جو کچھ عجیب بھی لگے، اور دلچسپ بھی۔

سوچا ان کی تفصیلی فوٹوز آپ سے شیئر کروں گا اور پھر آپ کے علمی سمندر سے چند بوند ہمیں بھی مل جاویں گے، اور اسی بہانے ہمارے علم میں بھی کچھ اضافہ ہو گا۔
برائ ے  مہربانی فارغ اوقات میں ارضیاتی حوالے سے ان پتھروں اور انکی ساخت پر روشنی ڈال کے شکریہ کا موقع دیں۔

جزاك الله

آپ کا اپنا
محمد عظیم شاہ بخاری
خان پور
١٣ دسمبر ٢٠٢٣

۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیارے شاہ جی۔
اسلام علیکم۔

آج آپ کو نامیاتی چونے کے پتھر کے بارے میں بتاتا ہوں۔ ۔

انسان کی اونچی عمارت اور مقامی آسان تعمیراتی مواد کمزوری رہا ہے۔ دوسری طرف پانی سب سے بنیادی ضرورت رہا ہے۔ کیونکہ پانی انسان اور تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
کٹاس راج کی بھی کچھ ایسی ہی داستان ہے۔ جس میں ٹریورٹائن سے بنے ہوئے پتھر سے پورا مند تعمیر کیا گیا ہے۔ ٹریورٹائن ایک نامیاتی چونے کا پتھر ہے یا اس کا نام کلسی تف بھی ہے جو کہ ایک قسم کا سفید ٹھوس چونے کا پتھر جو چشموں کے گچ ملے پانی کی تہ میں جم کر سخت ہو جاتا ہے۔

یہ پودوں کی ٹہنیوں اور پتوں کے گرد پانی میں حل شدہ چونے کے پتھر کی ایک تہہ بٹھاتا ہے۔جو وقت گزرنے پہ خود ٹھوس ہو جاتا ہے البتہ پتے اور ٹہنیاں گھل مل جاتے ہیں اور اپنے نشانات اور سوراخ چھوڑ جاتے ہیں۔ اس طرح یہ پتھر چشموں کے کناروں پہ بنتا ہے۔ چونے کے پہاڑوں میں۔یہ کٹائی میں بہت آسان اور رہنے میں بہت ٹھنڈا ہے۔ اور پانی کا بہت بڑا ذخیرہ لیے ہوئے ہوتا ہے۔

پوجا پاٹھ کے لیے ہندو دھرم میں اسے متبرک پتھر سمجھا جاتا ہے۔ اس میں غاریں بنانا آسان ہے اور رہنا انتہائی پرتکلف ہے خاص طور پر گرمیوں میں۔ ایک نالے کے کنارے بنی جھیل اور اس جھیل کے کناروں پہ بننے والا یہ ٹریورٹائن یا نامیاتی چونے کا پتھر ہی اصل وجہ ہے اس مندر کے اس جگہ بننے کی۔ نہ صرف اسی آنسو بھری جھیل کے کناروں سے یہ پتھر کاٹ کر مندر بنایا گیا ہے۔
بلکہ کانٹ چھانٹ میں اسی پتھر کا برادہ تھوڑا پیس کر پانی ملا کر ان پتھروں کو جوڑنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔اس مندر کی تزئین و آرائش میں سیمنٹ اور چونے کے پتھر کا بھی استعمال کیا گیا ہے حکومت پاکستان کی طرف سے۔

آرک یا ڈاٹ یا گنبد بھی ثانوی دور کے معلوم ہوتے ہیں۔
کھیوڑہ ریت کا پتھر بھی کچھ جگہوں پہ استعمال کیا گیا ہے۔ جو کہ اس مندر کی خصوصیات میں سے نہیں یہ بھی دور جدید کی تزئین کے وقت کا معلوم ہوتا ہے۔
دو دیواروں پہ کچھ نقش و نگار بھی بنائے گئے ہیں لیکن یہ سیمنٹ کے اوپر ہیں جو کہ زمانہ قدیم کے نہیں ہیں۔ فرش اور سیڑھیوں پہ لگا سنگ مر مر یا رکازی چونے کا پتھر بھی کچھ عرصہ پہلے کا ہی ہے۔

کٹاس راج کے مخالف سمت چونے کے پتھر کے پہاڑ کے دامن میں یہ ٹریورٹائن ابھی بھی اس کی باقیات کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے اندر غاریں بھی موجود ہیں۔

کٹاس راج مندر کمپلیکس مختلف مندروں،حویلیوں،غاروں اور محلوں کا ایک بہت بڑا کمپلیکس ہے جو ہزارہا سال قدیم ہے۔یہاں وہ قدیم تالاب ہے جو ہندو دھرم کے مطابق شیو کے آنسوؤں سے وجود میں آیا۔اس کی مکمل وڈیو دیکھنے کے لیے لنک اوپر دیا گیا ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے نیچے دی گئی عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
املاء اور انشاءپردازی کی پیشگی معذرت۔

شکریہ مرزا ظفر بیگ صاحب۔

Katas Raj, Chakwal, Pakistan

Katas, famous for the temple complex dedicated to Lord Shiva, is an important Hindu pilgrimage site in Pakistan. The Katas Raj shrine is constructed on a site that is believed to be visited by the Pandava brother of the great Indian epic Mahabharata. Apart from the temples, there is a sacred pool having a mythical association with Lord Shiva. The Katas Raj group of temples is attributed to the Hindu Shahiya period (650-950 AD).
These Temples are one of the most significant groups of Hindu temples in the Salt Range. Archaeologically, the area is best known for the massive number of Buddhist sculptural and structural remains associated with the region of Gandhara from the 1st century BC to the 5th century AD. No documented history of Katas is available except a reference in Mahabharata about a “Chashma-e-Alam” that has been identified as the water pond of Katas, 30 Km south of Chakwal, 27 Km north of Pind Dadan Khan and 2200 ft above sea level. This water pond in old records is mentioned as Katas but now Katas is the name of a village. Katas is situated at a place which is sacred for the Hindus for two reasons:
(i) The site is believed to have been a temporary abode of the Pandava brothers of the great Indian Epic Mahabharata during their exile period.
(ii) There is a sacred water pond that has a mythical association with Lord Shiva. According to traditions, Lord Shiva on the death of his wife Satti wept so bitterly that out of the strings of his tears, two water ponds came into existence; one known as Pushkar near Ajmer in Rajasthan and the other called Kataksha or Katak Shall at Katas in district Chakwal.
(iii) Katas is a Sanskrit word that stands for “String of tears” or “Weeping eye”. Thus the water pond here is rightly called Katas. This pond is a natural spring with a hidden source of water somewhere deep under the waters.
(iv) The Katas Raj, being famous for a group of Temple complexes, an important Hindu Pilgrimage site in Pakistan has been protected under the Antiquities Act, of 1975.
(v) Apart from the group of temples, Buddhist Stupa, and Sikh period Havelies, a Sacred Pond has a mythical association with the Lord Shiva. Katas Raj is frequently visited by pilgrims from their homeland and abroad.
(vi) The Katas Raj Temple Complex is owned by the Evacuee Trust Property Board, Government of Pakistan. Its management control was transferred from the Federal Government to the Government of the Punjab for its maintenance, and conservation of historical structures including temples, havelis, buildings, and Buddhist Stupa.
(vii) For the conservation of old monuments and provision of better facilities to visitors/tourists especially Hindu pilgrims a project “Conservation and Development of Katas Raj District Chakwal was executed from 2006-2015.

Advertisements
julia rana solicitors

طارق محمود
اسلام آباد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply