قصہ ایک پیڑ کا۔۔ادریس آزاد

اک شجر کا قصہ ہے
درد کی کہانی ہے
جس کی بیکراں شاخیں
آسماں کو چھوتی تھیں
رعب دار تھا اتنا
مشک بار تھا اتنا
اس کے سبز شملے کو
سرفراز پتوں کو
سب شجر ترستے تھے
اس کی شان و شوکت کا
ولولے کا عظمت کا
دور دور چرچا تھا
کوئی بھی نہ تھا جس نے
اس شجر کو بچپن سے
خوبرو جوانی تک
بے لباس دیکھا ہو
دشت کی ہواؤں کو
اس شجر کی شاخوں سے
بے وجہ رقابت تھی
جب ہوا گزرتی تھی
اس کے تن کی خلعت کو
پائمال کرتی تھی
اس کے خُوبرُو تن پہ
بے اماں ہواؤں کا
ہر ستم زیادہ تھا
پھر بھی ایستادہ تھا
ایک دن فضا بدلی
پیڑ کی قضا بدلی
اک نسیم صبح نے
اس کو پیار سے چھُوکر
کان میں کہا ، جانو!
“میں سحر کی شہزادی
تم سے پیار کرتی ہوں
تم پہ اپنے جھونکوں کو
میں نثار کرتی ہوں”
اس نے بادِ صبح کو
طمطراق سے دیکھا
احتیاط سے بولا
“ناں!!!
تری طلب مجھ کو
بے مہار کردے گی؟
اے نسیم ِ دیوانہ!
بادِ صبح ِ مستانہ!
تُو بہار کردےگی
پَر یہ تیری پُروائی
میرے پاک دامن کو
تار تار کردے گی ”
وہ لہک کے مُسکائی
پھر حسین بانہوں کو
پہلوؤں میں پھیلا کر
اس شجر کے سینے سے
لگ گئی وہ شرماکر
اس کے سبز دامن کو
لذتوں سے بھر ڈالا
اس شجر کو مستی میں
بے لباس کر ڈالا
اب وہ پیڑ بے چارہ
اپنے تن کے حصوں کو
ہر گھڑی چھپاتا ہے
اپنی بُردباری کو
رات دن بلاتا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply