کشن گنگاکی وادی(قسط6)- جاویدخان

گزشتہ قسط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

 

 

 

 

 

 

قسط6

اَٹھ مقام کااِرتقااَور ایک کہانی :۔
کہتے ہیں ایک بزرگ تھے ۔وہ جہاں گَرد صوفی تھے۔اِن وادیوں اَور بنوں سے بھی اُن کاگُزر ہوتارہتاتھا۔آتے جاتے جہاں کہیں مَن کرتاٹھہر جاتے تھے۔عبادت گزار تھے۔جہاں قیام کرتے وہاں مسجد بنواتے خودنماز پڑھتے اَوردوسروں کو بھی ساتھ پڑھنے کی تلقین کرتے۔دم رُخصت جب وہاں سے کوچ کرتے تو مقامی لوگوں کی ذمہ داری لگادیتے اَور مسجد کوآبادرکھنے کی تاکید کرجاتے کہ خانہ خُداکو آباد رکھنا۔ وہ اِس جگہ جہاں ہم آج قیام کیے ہوئے تھے ،سے بھی گُزرتے رہے۔تب یہاں اور وادی کشمیر میں جہاں کوئی برگزیدہ ہستی قیام کرے ‘مقام ’ کہلاتی ہے۔پہاڑی زبان میں بزرگوں اَور صوفیاکے پڑاؤ کو‘بیٹھک ’ کہتے ہیں۔صوفی عبداللہ ؒ ایک بار جب یہاں آئے تو کچھ دن قیام کیا۔جیسے وہ ہر بار قیام کیاکرتے تھے۔بابااِسی قیام کے دوران وفات پاگئے۔باباعبداللہ ؒ کی وصیت کے مطابق انھیں اُن کی ہی تعمیر شدہ مسجد کے اَحاطے میں دفن کردیاگیا۔زیارت،یہ ڈاک بنگلہ،اُوپر کالج  اوریہ ساراجنگل تب ویران وبیابان جنگل تھا۔اِس سڑک ،اس پر رواں گاڑیوں اَور اس آبادی کانام ونشاں تک نہ تھا۔لوگ اس بیاباں اَور گھنے جنگل سے دن کو گزرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔یہاں چیتے ،شیراَور ریچھ دن کو عام پھراکرتے تھے۔کسی اِنسان کااَکیلاگُزر یہاں کم ہی ہوتا۔اَیسے خوف  ناک گھنے جنگل اَورجگہوں کو جہاں خوف ناک درندے بسیرا رکھتے ہوں ‘اَٹھیہ ’کہلاتے تھے۔یہی لفظ صدیوں سفر کرتاہوا۔اَٹھیہ مقام ’ اَور پھر مزید مسافر ہو کر ایک منزل پر ‘اَٹھ مقام ’ ہوگیا۔اَٹھیہ مقام یااَٹھ مقام سے مراد وہ ویرانہ جوکسی بزرگ کاجائے مقام ،پڑاؤ یابیٹھک رہاہو۔آج کااَٹھ مقام اَٹھیہ مقام کی اِرتقایافتہ شکل ہے۔

لفظوں کاسفر طویل ہوتاہے۔انسان کے لیے سب سے پُرمسرت لمحہ وہ تھاجب اُسے اَپنے جذبات کے اِظہار کے لیے قوت گویائی ملی۔لفظ زمانوں سفر کرتے ہیں تو دُھل کربولی بنتے ہیں۔بولی انسانوں کو ایک کُنبہ،خاندان ،قبیلے میں باندھ کر رکھتی ہے۔پھر بولیاں مل کر زبان تشکیل دیتی ہیں۔زبانیں مزیداِرتقائی سفر طے کرتی ہیں تودُھلے ہوئے لفظوں کی کائنات بُن کر تہذیبوں کی نمائندگی کرتی ہیں اَور زمانوں ،صدیوں تک  دُنیا پر حکمرانی کرتی ہیں۔بولی ،زبان اَور قو ت اِظہار آسمانی تحفے ہیں۔

اَٹھ مقام سے روانگی :۔
پونے گیارہ ہم اَٹھ مقام سے روانہ ہوئے۔مگر تھوڑا آگے بازار میں قافلہ رُک گیا۔یہاں وقت کی قلت تھی جب کہ خریدار مصر تھے کہ خریداری کریں گے۔اَٹھ مقام ایک چھوٹا سابازار ہے۔ایک قصباتی بازار۔سیاح یہاں گھوم پھر رہے تھے۔جس دُکان کے سامنے سے گُزرتے دُکان دار فوراً پُوچھتاجی۔۔۔جناب۔۔!ہم نے چندشالوں کے نام اَور دام پُوچھے ۔ہُنزہ میں جب ان شالوں اَور داموں سے میراواسطہ نہ پڑا تھاتومَیں نے طاہریُوسف کویہاں دام پُوچھتے اَورپھر پیلے پڑتے دیکھاتھا۔طاہر یُوسف ایک پڑھے لکھے اَور کھاتے پیتے گھرانے کاسُلجھاہواچشم وچراغ ہے۔مگر اِس کی پیلی رنگت نے میرے کان کھڑے کردیے تھے۔آ ج جب مَیں اَٹھ مقام کی دُکانوں سے شال بافوں سے خوب صورت شالوں کی قیمت پُوچھ رہاتھاتو طاہر یُوسف کی اُس بے بسی سے پیلی ہوتی رنگت تک ساری داستان اَور بیچ کی کڑیاں سمجھ آرہی تھیں۔میرے قافلے کے اَرکان جب کسی سفر سے واپس آتے ہیں تو لدے پھندے واپس آتے ہیں۔شاید خیریت سے گھرمیں داخل ہونے کاشافی نسخہ یہی ہے۔جانے میری خوش قسمتی میراکب تک ساتھ دے گی۔ ؟

ہمارے سیاح ساری خریداری کرچُکے تھے۔مگر انھیں والی بال کاشو ق تھا۔وہ کِسی پہاڑ کے دامن میں کِسی نخلستان کی گودمیں والی بال کھیلنے کاعزم کیے ہوئے تھے۔ضروری نہیں کہ بلندپہاڑوں کے دامن میں پھولوں سے بھرے نخلستان ہر وقت آپ کے مزاج کاموسم لیے کھڑے ہوں۔ان بلندیوں پر بادوباراں اَور طوفان آتے ہیں ۔جھکڑ چلتے ہیں ،اولے پڑے ہیں اَور بادل پھٹتے ہیں۔مگر قافلے کے لوگان سب حوادث سے بے خبر اَپنی تلاش میں مگن تھے۔بازار ایک بار چھان کر پھر چھان رہے تھے۔
عمران رزاق اَورشفقت اَچھے منتظم کاتجربہ رکھتے تھے۔خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔کیوں کہ ساری ذمہ داری اس بار اَمیرسفر سردار عاشق حسین اَور راحیل خورشید پرتھی۔یہ دو لوگ روٹھے ہوئے چہرے لگ رہے تھے ۔کیوں کہ ان عاشق حسین اَورراحیل خورشید نے اس سفرمیں تنظیم داری اَور قیادت ان سے چھین لی تھی۔قیادتوں کاچھن جاناکسی خطرناک مرض سے کم نہیں ہوتااَورہمارے مریض بغیر کسی دوائی کے بخار میں پھنک رہے تھے۔

بازار کے کچھ دکان دار خیبر پختون خوا  سے تھے۔میری مطلوبہ کتابیں یہاں کسی بھی کتاب گھر پہ دستیاب نہ تھیں۔نہ ہی کشمیر کی مقامی دست کاریاں کسی دکان پر نظر آرہی تھیں۔اخروٹ کافرنیچر،چھوٹے چھوٹے لکڑی کے کام سے مزین اَور پالش شُدہ نفیس ٹکڑے ۔کوئی ایک دکان ،سرکاری محکمے کی کوئی ایک نشانی ان میں سے کُچھ بھی موجود نہ تھا۔کڑھائی شُدہ کپڑے ،لکڑی ،کشمیر ی ثقافت یہاں کہیں بھی نہ دِکھی۔ہاں کڑھائی شُدہ قمیضیں اِور شلواروں کے پائنچے جو نظر آرہے تھے ۔یہ پاکستان میں کچھ مشینوں کی کاری گری تھی۔مقامی دست کار اَور دست کاریاں کہیں دفن ہوگئیں تھیں۔فن کو کہیں بھی پذیرائی نہ ملی تو گُم نام ہوگیا۔یہی حال پاکستان کے ہر خطے کاہے ۔سرحد ،بلوچستان ،سندھ ،پنجاب فن اَور فن کار دونوں سخت دُکھی ہوئے ،اداس ہوئے اَور رخصت ہوگئے۔پاکستان میں اسلام آباد میں کچھ جگہوں پر اُمراکے گھرانوں کے لیے تیار نفیس ٹکڑے اَور فرنیچر تیار کیاجاتاہے۔اُمراء زادیاں آکر مہنگے داموں خرید کر لے جاتی ہیں ۔

اَمیرسفر اَور نائب اَمیر سفر والی بال کی کئی بار تلاش کے بعد پھر تلاش میں تھے۔مریض بہ دستو مریض ہوئے بیٹھے تھے۔جب تک مَیں نے متوازی متوازی سامنے کی ساری دکانیں چھان لیں تھیں۔آخر کار کاشف نذیر نے اِشارہ کیاگاڑی میں بیٹھو چلتے ہیں۔یہ چلنابَس اتناتھاکہ بازار سے ذرا آگے جاکر رُک گئے۔معلوم اَمیر سفر اَبھی مزید چھان بین میں لگے ہیں۔چھاننا خود ایک اِصطلاع ہے۔چھان بین خودایک شعبہ ہے۔سو چھان چھان کر ہلکان ہونے کے بعد تھک کر کھڑے ہوگئے ۔مبادہ کہ والی بال آسمان سے آن ٹپکے اَور کہے جناب چلیں کہاں چلناہے۔مگر معجزہ نہ ہوا،کرامت خاموش کھڑی رہی۔

ہماری کار کچھ قدم چلنے کے بعد بازار کے اختتام پر ایک جگہ رُک گئی۔دریاہمارے دائیں جانب بہہ رہاتھا۔مَیں کار سے اُتر کر دریا اَور دریا پارکے نظارے کرنے لگا۔ٹھنڈاٹھاڑ مست آب رواں نیم نیلگوں ،شاں شاں کی آوازیں پیدا کرتابہے جارہاتھا۔اِردگرد گھنے جنگل خاموش کھڑے تھے۔ہماری سڑک اِکادُکا گاڑیوں کی آواز سے جا گ جاتی۔سامنے ایک سیاح گھر (ٹورسٹ ہٹ )تھا۔جو نیانیا بناتھا۔یہ مکمل طور پر نجی تھا۔مالک ہماری کار کھڑی دیکھ کر سڑک پہ آئے ۔سلام دعاہوئی ،خیر خیریت پوچھی ۔جب اُنھیں پتہ چلا کارواں کی منزل اس سے آگے ہے۔تو بااخلاق مسکرائے ،چائے کی دعوت دی۔ہم نے شکریہ ادا کیا۔وہ سلام کر کے چلے گئے۔

دریا پر شہباز اُڑ رہے تھے۔کوئی گدھ ان کی ہم عصری نہیں کررہاتھا۔آب رواں پر شہبازوں کااُڑنا منفر دمنظر تھا۔دریا اَور بھی ہیں۔جہلم ہے،پونچھ ہے،سندھو ہے،مگر شہباز صرف یہاں اُڑ رہے تھے۔میرے دیکھتے دیکھتے کچھ دریا کے کنارے پر اُتر گئے۔معلوم نہیں یہ کسی مچھلی کی تاک میں تھے یاپھر کسی دُوسرے جیو کی تلاش میں ۔یہاں ریتلے کنارے پر یہ تین تھے۔ یہ پانی میں اَور کنارے دریا کچھ تلاش کر رہے تھے۔نیلم کے ان سر دپانیوں میں اَور کنارے کوئی کھاجاان کامرغوب ہے۔؟یہ یہیں  پر کیوں اِس انداز سے اُڑتے ہیں اَور اُترتے ہیں۔کشن گنگا مظفرآباد تک بناکسی ادغام کے بہے جاتاہے۔مگر مظفرآباد کی حدود میں لب شہر یہ اس طرح اُڑتے نظر نہیں آتے ۔؟کیاکوئی   ٹراؤٹ  جو کبھی کبھار اُچھل کر کنارے دریا رگرم ریت پر آگرتی ہوگی ۔اسے اچک لینے کے لیے یہاں اُترتے ہیں۔اُڑان کاجہاں وادی خیالستان کاپسندید ہ جہاں رہاہے۔اَگرچہ اس جہاں میں گدھ بھی پرواز کرتے ہیں۔لیکن آفرین صرف شاہینوں اَورشہبازوں کے لیے ہوئی۔شاہینی و شہبازی صفات آسمانی ہیں۔مگر جانے کیوں بے چارہ گدھ اس جہاں میں اُڑ اُڑ کر بھی شاہین جیسی ادائیں نہ اپنا سکا۔اَورشاہین اَعلی ٰ اوصاف کے باوجود سوائے اُڑانوں کے کچھ نہ کرسکے۔سڑک پر کھڑے ہو کر شاہین نما پرندوں کو اَور اِن کی خوراک کو پہچاننا مشکل تھا۔

مَیں سڑک کنارے کھڑا دریا پار،پرندوں اَور پار دیوداروں کے گھنے جنگلوں کودیکھ رہا تھا کہ محمد ابراہیم میرے پاس سے گُذرے ۔مجھے غور سے دیکھ رہے تھے۔علیک سلیک ہوئی تو میں نے بھی خیر خیریت پوچھی حال احوال دریافت کیا۔جب انھیں پتہ چلا کہ قافلہ راولاکوٹ سے ہے۔تو مزید حال احوال جاننے لگے۔ابراہیم نگدر گاؤ ں سے تھے اَور یہاں اَٹھ مقام میں ایک بیکری پر کام کرتے تھے۔انھوں نے بتایا ہمارے ہاں مکئی اَور چاول مرغوب کھاجا ہے۔کہنے لگے ساون کے بعد ٹھیک دو ماہ تک اَٹھ مقام کاموسم ٹھیک رہتاہے۔اس کے بعد سرد ہونے لگتاہے۔سرد ہوائیں اس خطے میں پھرنے لگتی ہیں۔ابراہیم کچھ دیر باتیں کر کے اپنے ہم راہی کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔مَیں پھر دریا کنارے دریا میں کھوگیا۔دریا ایک دُنیاہے ،اک جہاں ہے۔اس دُنیا میں فطرت کاتضاد مترادف ہوکر بسارہتاہے۔علمائے سائنس نے دریافت کیاہے کہ پانی دو عناصر کامرکب ہے۔آکسیجن اِور ہائیڈروجن ۔ایک اَور دوکی نسبت سے ملاپ کرتے ہیں تو پانی وجود میں آتاہے۔ہائیڈروجن بہ ذات خود آگ ہے اَور آکسیجن اس آگ کو بھڑکانے میں بہت ہی مدد گار ۔مگر نہ جانے کہاں اَور کیسے جب یہ ایک خاص نسبت سے باہم ملن کرتے ہیں تو یہ آگ اَور اس کا مددگار پانی بن جاتاہے۔تو کیامیرے سامنے نیچے یہ آب جو دھوکاہے۔یہ اَصل میں آگ کی ضد نہیں بلکہ آگ ہی کاسرد رُوپ ہے۔؟اس دو رنگی میں کیسی یک رنگی چھپی ہے۔ تودریاایک دُنیا ہے۔مَیں دریامیں تب تک کھویارہاجب تک کہ سیاہ ڈبے نے ہارن بجایا۔یہ پیغام تھاکہ آؤ چلیں۔

محمد اِبراہیم جس نگدر گاؤں سے تھے۔ایک بدیسی کھوجی کے مطابق اس (نگدر)کی آبادی تب ڈیڑھ صدی قبل پچیس گھرانوں پر مشتمل تھی۔آج خیر خیریت سے ۱۵۵۷۰گھرانے ہیں۔ذہین کی کال آرہی تھی اَور باربار آرہی تھی۔کہاں ہیں؟کیسے ہیں ؟خیر خیریت ہے نا۔!شادی شُدہ زندگی ایک پابندزندگی ہے۔بانظم زندگی جہاں صبح وشام نظامُ الاوقات میں گزرتے ہیں۔اِس نظم وضبط میں کبھی لچک ہے تو کبھی تناؤآجاتاہے۔جس دریا کو میں اَبھی دیکھتارہاتھاوہ بھی ایک پابند زندگی جیتاآرہاہے۔ایک نظم ہے اُس کے بہاو میں ۔ہاں اُتار وچڑھاؤ ،مدوجزر ،اُس میں بھی آتے ہیں ۔کبھی لہریں ،کبھی شانتی ،کبھی جوش اس کے باوجود ایک پابندی زندگی کے مستقل بہاؤ لیے دریارواں تھا۔اَور یہ بہاؤ،یہ روانی ،یہ پابندی یہاں بھی ہے۔اس بہاؤ میں کبھی مٹھاس کی لہریں ،توکبھی شورشر ابہ کرتی طغیانی آتی ہے۔ہم میں سے شفقت کو چھوڑکر ہر ایک پابند نظم میں کھڑاتھا یابہہ رہاتھا۔

آر پار اَفسردہ فضا:۔
‘آریاپار ’ اُردو کامشہورجُملہ ہے۔آر یاپار ایک ضرب المثل نماشے ہے۔اَیسے جملے صدیوں اَور زمانوں کی ریاضت کے بعد جنم لیتے ہیں اَورزبانوں کے فصاحت اَور بلیغ ہونے کی سند دیتے ہیں۔زبانوں کی خدمت کرتے ہیں ۔آپ کی مرضی مگر صرف یہاں سے ‘یا’ہٹادیں تو ‘آر پار’رہ جاتاہے۔اَور اس رہ جانے میں بہت کچھ رہ جاتاہے۔گھر ،خاندان ،رشتے،دھرتی ،آب وہوا،فضا،آشیانہ،اُمیدیں،سپنے ،تمنائیں ،خُوشیاں،ہنستی بستی زندگی،سانجھاپن،سانجھارنگ اَوراَنگ، سب کچھ ۔جب یہ سب کچھ آر اَور پارمیں بٹ جائے تو یہ سارے رشتے ،دھرتی ،اُمیدیں ،خواب،تمنائیں اَور خُوشیاں اُداس اُداس رہنے لگتے ہیں۔اِن اُداسیوں کے درمیان ہماراسفر جاری تھا۔ برسوں گُزر گئے یہ دھرتی کسی معصوم بچے کی طرح سہمی سہمی رہتی ہے۔اِن جُملوں سے اِس کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوجاتی ہے۔آر پارکے بعد اَب آر یاپار ،مدتوں اِن جُملوں سے خوف رگ و پے میں دوڑ تارہاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply