کتاب تبصرہ(Think! Before It’s Too Late)/راجہ قاسم محمود(2،آخری حصّہ)

پہلے حصّے کا لنک

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈی بونو کہتے ہیں کہ نئی سوچ کے پیدا نہ ہونے کی ایک وجہ ہماری زبان بھی ہے۔ دراصل ہماری زبان کی لغت محدود ہے۔ ہم کسی دوسرے شخص سے ملیں، تو اس شخص کے لیے دوست اور دشمن کے علاوہ کوئی تیسرا لفظ نہیں جو ہم اس کے لیے استعمال کر سکیں۔ آپ کا کئی لوگوں سے تعلق ہوتا ہے لیکن وہ آپ دوست نہ ہی دشمن، اس کے ساتھ آپ کا خوشگوار تعلقات ہوتے ہیں نہ ہی تلخ ، ایسے ہی کسی شخص کی زندگی بہت خوشحال ہوتی ہے نہ ہی مصیبت زدہ۔ یہ دراصل ہماری زبان کا مسئلہ ہے کہ ہم ایسی صورتحال کے الفاظ کے چناؤ میں محدود ہیں۔ اس لیے ہم زیادہ تر صورتحال کا تجزیہ سیاہ و سفید میں کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں معاملات کم ہی سیاہ و سفید ہوتے ہیں ان کی اکثریت grey ہوتی ہے۔ Think Grey اس کتاب کے بنیادی پیغامات سے ہے جس کو ڈی بونو نے بتانے کی کوشش کی ہے۔ زبان کے اس مسئلہ کے حل کے لیے ڈی بونو نے کوڈنگ کی تجویز دی ہے کہ ہم مختلف صورتوں کو مختلف کوڈز کے ذریعے سے سمجھنے کی کوشش کریں تو ہماری سوچ میں زیادہ وسعت اور گہرائی آئی گی۔ ایک بار پھر ڈی بونو نے کہا کہ بیشک زبان ایک اہم ٹول ہے اس ہی سے ہمارا رابطہ ممکن ہوتا ہے مگر اس کی کچھ حدود ہیں جن کو انہوں نے ذکر کیا ہے۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بحث و مباحثہ سے نئی فکر جنم لیتی ہے۔ گو کہ یہ بات کسی حد تک درست ہے مگر بحث و مباحثہ ڈی بونو کے نزدیک نئی سوچ پیدا کرنے کے لیے کوئی موثر طریقہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ فریقین اس میں دوسرے کی غلطیوں کو زیادہ ڈسکس کرتے ہیں اور اپنی بات منوانے کے لیے وہ دوسرے کی فقط کمزوریوں کو موضوع بحث بناتے ہیں بھلے وہ بات ان کی مکمل بات کا پانچ فیصد ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح باقی نکات نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ یہاں ڈی بونو نے ایک دلچسپ بات کی کہ بحث و مباحثہ میں اکثر وہ شخص جیت جاتا ہے جس کو اس میں مہارت ہو بھلے اس کا مقدمہ کمزور ہی کیوں نہ ہو اس پر مجھے صیح البخاری میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث یاد آئی کہ کوئی اپنی چرب زبانی سے مجھ سے اپنے حق میں فیصلہ کروا لے (جو کہ اس کا حق نہ ہو) تو وہ چیز نہ لے کیونکہ وہ اس کے لیے جہنم کے ٹکڑے کی مانند ہے۔(حدیث نمبر ۲۶۸۰)
ڈی بونو نے یہ بھی لکھا ہے کہ بحث و مباحثہ میں کئی دفعہ لوگوں کی انا آڑے آ جاتی ہے۔ اس لیے ان کا مطمح نظر اور مقصد وہ نہیں رہتا بلکہ اپنی برتری کو قائم رکھنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔
اس سے ملتی جلتی باتیں ڈی بونو نے جمہوریت کے حوالے سے بھی کی ہیں کہ وہاں پر حکومت کے کاموں پر حزب اختلاف فقط تنقید ہی کرتی ہے۔ بلکہ جو حکومت کام نہ کر رہی ہو وہ فائدے میں رہتی ہے کہ وہ حزب اختلاف کے طعنوں سے بچی رہتی ہے کیونکہ اگر وہ کوئی کام کریں تو حزب اختلاف اس کے اوپر تنقید کرتے ہیں۔ گو کہ جمہوریت اور سیاست کی ضروریات میں سے ہے لیکن فکری عمل کے حوالے سے یہ کوئی خوشگوار چیز نہیں۔ ڈی بونو نے حل کے طور پر یہ تجویز دی ہے کہ ایک متبادل فورم ہونا چاہیے جہاں حکومت اور حزب اختلاف کے لوگ فقط تعمیری گفتگو کریں اور کسی قسم کی تنقید سے گریز کریں۔ ویسے تو پارلیمانی کمیٹیاں کسی حد تک یہ ضرورت پوری کرتی ہیں لیکن ان کا کام عوام کے سامنے نہیں آتا، عام آدمی جب پارلیمان کا تصور کرتا ہے تو اس کے ذہن میں تنقیدی گفتگو ہی آتی ہے۔ ڈی بونو نے اپنے ایک اور طریقہ کار Six Hats کو بھی استعمال کرنے کی تجویز دی ہے جس میں براہ راست نتیجے پر پہنچنے کی بجائے اس کی ممکنات میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے کو بھی تجویز دیا ہے کہ پارلیمان کے اجلاس میں یہ طے کر لیا جائے کہ آج yellow hat کا وقت ہے تو تمام ممبران صرف مثبت گفتگو کریں گے ، آج green hat time تو امکانات اور تخلیقی آئیڈیاز پر بات ہو گی۔ بلیک ہیٹ کا وقت ہے تو آج تنقید کی اجازت ہے۔ ایسے ہی red hat time ہے جس میں ارکان ایک دوسرے کی insult بھی کر سکتے ہیں۔ ڈی بونو کہتے ہیں کہ انہوں نے ماریشس کے وزیر اعظم کو اس کی تجویز دی تھی اور انہوں نے اس کو پسند بھی کیا تھا۔ڈی بونو نے وضاحت کی ہے کہ وہ جمہوریت کے خلاف ہرگز نہیں مگر ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ جمہوری نظام میں اصلاحات کی گنجائش ہے اور اپنی خامیوں کے باوجود یہ اپنے مقابل دیگر طرزِ حکومت سے بہتر ہے۔
ڈی بونو نے لکھا ہے کہ یہ ہی مسائل میڈیا کے ساتھ بھی ہیں وہاں پر وہ خبر زیادہ گرم رہتی ہے جو کہ منفی ہو۔ پھر صحافی بھی ایسی خبروں کی تلاش میں رہتے ہیں جو زیادہ دیر ہائی لائٹس میں رہ سکیں اس لیے وہ حقیقی مسائل سے صرف نظر کر جاتے ہیں۔ یہ تو ڈی بونو نے مغربی ذرائع ابلاغ کی بات کی ہے جبکہ ہمارے ذرائع ابلاغ تو کہانی میں سنسنی پیدا کرنے کے لیے بدترین خیانت اور جھوٹ بولتے ہوئے بھی نہیں ہچکچاتے، وہ سامراجی قوتوں کے آلہ کار بنتے ہیں۔ کئی دانشور کہلائے جانے والے چاہیے وہ مذہب پسند ہوں یا پھر آزاد خیال وہ ظالموں کے ساتھی ہوتے ہیں اور جھوٹ بیچنے والے ہوتے ہیں ایسے قلم فروش لوگوں کو گمراہ کرنے میں باطل کے آلہ کار ہوتے ہیں اور اپنی اس قلم فروشی کی قیمت بھی وصول کرتے ہیں۔
میڈیا ایک نئی سوچ پیدا کرنے میں معاون تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا اس حوالے سے کردار صفر ہے۔ جب تک میڈیا اپنی سمت میں تبدیلی نہیں کرتا اور اس کے لیے یقیناً وقت درکار ہے اس وقت تک فکری عمل میں اس کا کردار شامل نہیں ہو سکتا۔
ڈی بونو نے Perception کے اوپر بھی بہت اہم گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ پرسپشن منطق سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ اگر کسی چیز کے بارے ایک پرسپشن قائم ہو چکی ہے تو آپ لاکھ منطقی دلائل سے اس کو غلط ثابت کریں وہ لغو ہے۔ پاکستان کی سیاست کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ اداروں کے بارے میں اب پرسپشن بن چکی ہے کہ ان کا کردار منفی ہے اور وہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں اب وہ یا ان کے حامی جتنے مرضی دلائل دیں بھلے ان میں وزن بھی ہو لیکن جو تاثر ان کا بن چکا وہ منطق سے ذائل نہیں ہو گا۔ ان کو اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے پرسپشن کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
پرسپشن کے حوالے سے ڈی بونو نے ایک دلچسپ مثال دی ہے کہ آسٹریلیا میں ایک لڑکے کو اس کے دوستوں نے دو سکوں میں سے ایک چننے کو کہا پہلا سکہ جو سائز میں بڑا تھا ایک ڈالر کا دوسرا جو سائز میں چھوٹا تھا دو ڈالر کا تھا۔ اس نے بڑے سائز کا سکہ چنا۔ اس کے انتخاب پر اس کے دوستوں نے اس کا خوب مذاق اڑایا۔ اس کے دوستوں نے متعدد جگہ اس سے یہ امتحان لیا تو وہ ہر دفعہ ایک ڈالر کا سکہ چنتا۔ ایک شخص نے جب یہ دیکھا تو اس لڑکے کو بتایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ چھوٹا سکہ زیادہ قیمت کا ہے۔ تو اس لڑکے نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے۔ لیکن اگر میں پہلی دفعہ ہی قیمتی سکہ چن لیتا تو کیا میرے دوستوں نے کبھی مجھ سے دوبارہ یہ کھیل کھیلنا تھا۔ وہ میرے ساتھ یہ کھیل کھیل رہے ہیں اور مجھے ایک ڈالر دے رہے ہیں
اس کہانی میں ہمیں جو لڑکا شروع میں بے وقوف اور سادہ نظر آتا ہے جب پرسپشن بدلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی نسبت زیادہ ہوشیار ہے۔اس لیے کئی دفعہ چیزیں ایسی نہیں ہوتیں جیسی ہم کو نظر آ رہی ہوتی ہیں بلکہ اگر ہم ان کو گہرائی میں جا کر دیکھیں تو یہ ہمارے پرسپشن کو تبدیل کر سکتی ہیں۔
ڈی بونو نے کہا ہے کہ روایتی سوچ ان کا خیال ہے کہ پرسپشن کو تبدیل کیے بغیر منطق سے ہم چیزیں تبدیل کر سکتے ہیں جبکہ ان کا خیال ہے کہ یہ قطعی غیر مفید ہے۔ جب تک ادراک میں تبدیلی نہیں آئے گی فقط منطق سے لوگ قائل نہیں ہو سکتے۔ پرسپشن کے حوالے سے ڈی بونو نے کافی اچھی گفتگو کی ہے۔
ڈی بونو نے لکھا ہے کہ لیڈرز نئی سوچ اور اپنے فیصلوں پر سوالات کو اتنا زیادہ پسند نہیں کرتے کیونکہ یہ ان کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ بالخصوص جب وہ لیڈرز مذہبی حیثیت رکھتے ہوں تو ان کے پوزیشن اور زیادہ حساس ہو جاتی ہے۔ لیکن ڈی بونو کہتے ہیں کہ اس بارے میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال ایک استثنیٰ ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سوالات کی حوصلہ افزائی کی ساتھ ہی احادیث کے ذریعے امت کو بھی غور و فکر کی ترغیب دی. کچھ روایات ڈی بونو نے بھی ذکر کی ہیں اور ساتھ ہی بتایا کہ سعودی عرب دورے پر انہیں بتایا گیا کہ قرآن مجید میں ایک سو تیس آیات ہیں جو غور وفکر پر زور دیتی ہیں۔ آیات کی تعداد پر میں کوئی حتمی بات تو نہیں کر سکتا مگر قرآن مجید پڑھنے والے جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے متعدد آیات میں اپنی نشانیوں پر غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ایسے ہی واقعات سیرت بھی ڈی بونو کی بات کی تائید کرتے ہیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہیں بھی فکری حدود پر پابندی نہیں لگائی بلکہ غزوہ خندق میں حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی رائے کو ناصرف اہمیت دی بلکہ اس پر عمل کر کے کامیابی بھی حاصل کی یہ طریقہ کفار کے لیے بالکل نیا تھا اس لیے وہ اس کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔ سیرت طیبہ کے واقعات میں غزوہ خندق لیٹرل تھنکنگ کی ایک بہترین مثال ہے۔
ڈی بونو نے اپنے ایک تصور Septine کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس میں کسی بھی صورتحال پر آنے والے خیالات کو ایک جگہ جمع کر کے ان کے درمیان تعلق قائم کر کے مختلف امکانات کو سامنے لایا جاتا ہے۔ اس میں چیزوں کو الگ الگ کر کے تجزیہ نہیں کیا جاتا نہ ہی صورتحال کے لیے ذہن میں آنے والے خیالات کی منطق یا sequence درکار ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک سے زائد امکانات سامنے آتے ہیں۔ Septine ایک دلچسپ تکنیک ہے۔ اس کے اوپر مزید بات ہونی چاہیے اور اس کا عملی طور ہم انفرادی اور اجتماعی صورتحال میں تجربہ کر سکتے ہیں
ڈی بونو نے لکھا ہے کہ اب ہمیں ضرورت ہے کہ ہم نئے آئیڈیاز کو سوچیں ، ان کو جمع کریں ساتھ ہی ان کو شائع کریں۔ یہ اشاعت بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے آئیڈیا دینے والے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور اس کے اپنے آئیڈیا کو اہمیت حاصل ہوتی ہے جس سے اس کا سوچنے کا عمل مزید بہتری لاتا اور مزید اچھے خیالات سامنے آتے ہیں۔ ایسے ہی سماجی سطح پر بھی ضرورت ہے کہ لوگوں میں سوچنے کے عمل کی حوالے سے سنجیدگی سے غور کیا جائے اور عملی اقدامات کیے جائیں ۔ اس بارے میں سکول سے پہلے والدین کی ذمہ داری ہے کہ شروع سے ہی بچوں کے آئیڈیاز بھلے وہ مضحکہ خیز ہی کیوں نہ ہوں کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کے اندر بھی ایسی عادات ڈالیں کہ ان کا سوچنے کا عمل مضبوط ہو۔ اس معاملے میں ڈی بونو نے ڈرائنگ کی اہمیت کو ذکر کیا ہے یہ تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں ایک عمدہ میدان ہے۔ بچوں کی ڈرائنگ میں ان کی تخلیقی صلاحیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ ایسے ہی حکومتی سطح پر نئے ائیڈیاز کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ ملکی مسائل پر لوگوں سے رائے لینی چاہیے اور ان کی تجاویز کو خوش آمدید کہنا چاہیے
ڈی بونو کی یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ البتہ اس میں کئی جگہ باتوں کو دوہرایا گیا ہے۔ دوسرا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف خود پسندی کا شکار ہیں اور اپنی بہت تعریف کر رہے ہیں۔ ڈی بونو کی تجاویز قابلِ غور ہیں بالخصوص تعلیمی اداروں میں تھنکنگ کو بطور نصاب پڑھایا جانا اور عملی طور پر اس کے تجربات سے گزارا جانا۔ لٹریسی اور numeracy کے ساتھ ساتھ operacy کے اوپر بھی توجہ دینا۔ ایسے ہی perception کے حوالے سے بھی ان کے اکثر خیالات درست ہیں۔ سب سے اہم Think Grey ہمارا بہت سی چیزوں کے بارے میں زاویہ نظر کو بہتر کرنے میں مدد دے گا اور ہماری سوچ کا سطحی پن ختم کرے گا۔ اس کے علاوہ Lateral Thinking, Six Hats, Six Medals اور Septine کے تصورات بھی قابلِ غور ہیں۔
راجہ قاسم محمود

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply