جوگی۔۔رزاق شاہد/حصہ دوم

  گیٹ وے ٹو تھرپارکر کہلانے والے نوکوٹ قلعے کو 1814 میں مشرقی راجپوتوں کے حملے سے بچاؤ کے لیے میر کرم علی تالپور نے تعمیر کرایا ۔سندھ پر 1783 سے 1843 تک تالپوروں کی حکومت رہی، پھر۔۔۔ سندھ پر نیپئر ہوگیا اور صفہ کوٹھا ایک ہو گیا. نوکوٹ قلعے کے نسبتاً تنگ داخلی راستے پر وقت سے پہلے بوڑھے ہوتے اونچے قد کے ایک زمین زاد نے ہاتھ ملایا اور بولا میں ہوں اچار بھیل۔۔ یہاں کا چوکیدار۔۔ پھر وہ کھاد کی بوری سے بنی چٹائی کے نیچے سے ایک رجسٹر نکال لایا ۔۔سائیں یہاں آنے والے اس پر کچھ لکھتے ہیں۔
اچار بھیل! آپ یہاں چوکیدارہ کرتے ہیں! نا سائیں پیٹ خاطر نوکری کرتے ہیں. چوکیدارہ کر سکتے تو آج سندھ کے مالک نہ ہوتے اگلی منزل مٹھی، تھر کا مٹھی، مٹھی کا تھر یہ قصے یہ کہانیاں یہ تواہمات یہ ریتیں یہ روایات جسے انگریزی کے ایک ہی لفظ نے اپنے اندر سمو لیا ہے۔ مایئتھالوجی سائنس کی دریافتیں مائیتھالوجی کی پر پیچ وادیوں سے ہی تو برآمد ہوئی ہیں۔ مائیتھالوجی، سائنس کو اپنے پیچھے بھگائے رکھتی ہے کبھی تو اپنی گرد میں گم کر دیتی ہے لیکن سائنس پھر ابھر آتی ہے اور اسے دو تھپڑ جڑ دیتی ہے اور اپنی جیت پر جشن مناتی ہے اور  مائیتھالوجی منہ بسورتی رہ جاتی ہے۔
لیکن لیکن کبھی دونوں ایک ہی بولی بولنے لگتی ہیں۔ تھر کے بارے میں دونوں ایک ہی کہہ رہی ہیں مائیتھالوجی کہتی ہے وہ تو ایک ناری کے درشن نے میرے وشنو مہاراج کی دس ہزار سالہ تپسیا کو بھرشٹ کردیا اور سمندر، تھر کے صحرا میں بدل گیا اور سائنس بھی یہاں وجوہات تو اور تلاش لائی ہے لیکن تھر پہلے سمندر تھا پر اپنی مہر تصدیق لگاتی ہے ان دونوں کا سفر جاری ہے اور ہمارا بھی دنیا کے واحد آباد صحرا کا مرکز مِٹھی ضلع تھر پارکر کا صدر مقام مِٹھی جہاں رام  و رحمان، رامائن و قرآن کے منتے پیار سے رہتے ہوں وہ مقام مِٹھی ہی تو کہلائے گا جہاں ایامِ محرم میں ہندو، شادی کے شادیانے نہ بجائیں، جہاں مسلمان ہندوؤں کے احترام میں گائے ذبح نہ کریں ایسی جگہ مٹھی نہیں تو اور کیا کہلائے گی ،جہاں دیوالی اور عید کا فرق محسوس نہ ہو تو اسے مٹھی کا نام نہ دیں تو اور کیا کہیں کہتے ہیں، محرم کے دنوں پانی، شربت اور دودھ کی سبیلیں ہندو چلانے میں سب سے زیادہ حصہ لیتے ہیں، کٹھو جانی، ایاز حسین، راجیش سانی، ڈاکٹر شنکر کا مٹھی بھارتی، بھاونا مُسکان کا مٹھی اور تھر کے ایدھی وشن داس لوہانہ ماما وشنو کا مٹھی۔ نو کوٹ سے آگے کشادہ ہوتی نئی سڑک، پانی کی پائپ لائن راہ بناتی مشینں، راستے سجاتے مزدور، ٹیلوں پر گھاس اور جڑی بوٹیاں
سر! یہ تھر کول کی وجہ سے سڑکیں کھلی ہو رہی ہیں ،کہتے ہیں تھر کے کوئلے سے ہم خوشحال ہو  جائیں گے، تھری نہال ہو جائیں گے، بھوک مٹ جائے گی، خوشحالی اور ہریالی کا راج ہو گا ۔۔یہ سن کر ڈاکٹر محسن بولا ! علی حسن جب سوئی میں گیس دریافت ہوئی تھی تو یہی باتیں سننے کو ملیں تھیں۔ آج سوئی کی گیس سے بلوچستان جل رہا ہے اور یاد رکھنا کل تھر کے کوئلے کی کالک تھر کے چہرے پہ مل دی جائے گی۔ وسیع صحرا، کھلی سڑک، اکا دکا مسافر، مویشی چراتے تھری۔
اچانک منظر بدلتا ہے، موہن ملتا ہے اے موہن تُو تو سانولا گیا ہے۔۔ تیرا حسن تو گہنا گیا ہے، وہ دیوتا موہن کہاں گیا جو دلوں کو موہ لیتا تھا۔۔۔۔ گورکی کی دال میں گھی جتنا، آک کے سائے میں بیٹھا اداس، نراش موہن ہمیں دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا !یہ چبُھڑ کیوں بیچ رہا ہے؟
سائیں! ماں بیمار ہے دارو لینی ہے!پڑھتے ہو؟ تین انگلیوں سے اشارہ کیا۔ سو روپے کے دے دو سائیں مذاق نہ کرو اتنے کے کبھی نہیں بیچے۔ سو روپیہ بہت ہے یہ سارے پچاس کے ہیں لے آؤ ارے ارے کیا ہوا موہن سڑک پہ پاؤں کیوں نہیں رکھ رہا. سائیں! سڑک تتی ہے پاؤں جلتا ہے.۔۔خود رو چبھڑ اور خربوزے لئے۔۔۔اور آگے بڑھے ۔واقعی بہت سے دیوتاؤں کو سورج جلا اور زمین دفنا دیتی ہے۔
گہری خاموش چھا گئی کچھ دیر بعد فون کی گھنٹی بج اٹھی، ارے بھائی کہاں کھو گئے، وہ زمانے تو لد گئے جب صحرا میں سسیاں گم  ہو جاتی تھیں ،اب گوگل مہاراج کسی کی منزل کھوٹی نہیں ہونے دیتا ۔یہ ڈاکٹر شنکر کی آواز تھی.
مٹھی میں داخل ہوئے ،کشادہ سڑکیں، صاف کھلی گلیاں، جدید طرز کی عمارتیں. سب کی طرح ہماری حیرتیں دیدنی. ایاز حسین، کٹھو جانی راجیش شنکر اور ماما وشنو ایسے ملے کہ کامران نے کہا سر ! آپ نے تو کہا ہم سب پہلی دفعہ ملیں گے۔ عجب ہے کہ راستے انجان انہی راستوں کے انسان آپ کی جان حیرت ہے۔
میرے لاڈلے! جب دل ایک ساتھ دھڑکے۔ جب سوچیں ایک، جب خیالات نیک تو انجانا پن کیسا. کوئی تعارف، کوئی رسمی کلمات بس ایسے لگا کہ ایک محفل سجی تھی دوسری لگانے جا رہے ہیں.
ماما میرِ محفل جانِ مجلس کھانا اور چائے کس کس لطافت و چاشنی کا تذکرہ ہو. سب سے پہلے ماما ہمیں اپنی بلڈ لیبارٹری اور بلڈ بینک لے گئے یہ پورے میر پور خاص ڈویژن کی سب سے بہترین جدید سہولتوں سے آراستہ بلڈ بینک حتی کہ پلازما خون کی سہولت موجود. پہلے بھی اس کے بارے لکھ چکے ہیں انتھک، سراپا عجز و نیاز اور مگن اپنے کام میں، اپنے شعبے پر مکمل عبور بلڈ بینک، مٹھی لوگ، عوام، رویے ، سب کے بارے میں جزئیات بتاتے ہوئے ماما کی وارفتگی حیران کیے  ہوئے تھی۔
ہسپتال سے باہر نکلے۔۔۔ پوچھا بابری مسجد کے واقعے کے بعد پاکستان میں بہت سے مقدس مقامات کی توہین کی گئی. مندر گرائے گئے، مٹھی سے دو سو دور حیدر آباد کے قریب ٹنڈو الہ یار میں راما پیر کے محافظ کو مسلمانوں نے مار دیا تھا، مٹھی میں کیا ہوا؟ خدا کا نام لیں ماما وشنو بولا !یہاں ہندو مسلم نے مل کر انڈیا کی حکومت کے خلاف بابری مسجد کے تحفظ میں ناکامی پر جلوس نکالا تھا۔ یہاں جرائم اور مذہبی نفرت کا تصور بھی نہیں۔
ماما! ہمیں مذہبی نفرت کی کچھ علامتیں کچھ عمارتوں کی صورت میں نظر آ رہی ہے۔۔یہ خالی عمارتیں ہیں لیکن ان میں انسان بستے ہیں جب تک ہماری نسل زندہ ہے یہاں عقیدے کی بنیاد پر انسان کی توہین نہیں کی جائے گی. ارے ماما یہ کیا۔۔۔ گورنمنٹ صادق فقیر ڈگری کالج مٹھی یہ صادق فقیر کون؟
جاری ہے
پہلی قسط کا لنک https://www.mukaalma.com/15666

Facebook Comments

رزاق شاہد
رزاق شاہد کی تحاریر انکا بہترین تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جوگی۔۔رزاق شاہد/حصہ دوم

Leave a Reply